انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خصوصیات علماء تفسیر نے مکی اور مدنی سورتوں کا استقراء کرکے ان کی بعض ایسی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن سے پہلی نظر میں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سورت مکی ہے یامدنی؟ ان میں سے بعض خصوصیات قاعدۂ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور بعض اکثری ہیں، قواعدِ کلیہ یہ ہیں: (۱)ہروہ سورت جس میں لفظ کلاَّ (ہرگز نہیں) آیا ہے، وہ مکی ہے، یہ لفظ پندرہ سورتوں میں ۳۳/مرتبہ استعمال ہوا ہے اور یہ ساری آیتیں قرآن کریم کے آخری نصف حصہ میں ہیں۔ (۲)ہروہ سورت جس میں (حنفی مسلک کے مطابق) کوئی سجدے کی آیت آتی ہے، مکی ہے۔ (۳)سورۂ بقرہ کے سوا ہروہ سورت جس میں آدم علیہ السلام وابلیس کا واقعہ مذکور ہے وہ مکی ہے۔ (۴)ہروہ سورت جس میں جہاد کی اجازت یااس کے احکام مذکور ہیں، مدنی ہے۔ (۵)ہرو ہ آیت جس میں منافقوں کا ذکر آیا ہے، مدنی ہے۔ مندرجہ ذیل خصوصیات عمومی اور اکثری ہیں، یعنی کبھی کبھی ان کے خلاف بھی ہوجاتا ہے لیکن اکثروبیشتر ایسا ہی ہوتا ہے: (۱)مکی سورتوں میں عموماً "یَآیّھَا النَّاسُ" (اے لوگو!) کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے اور مدنی سورتوں میں"یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا" (اے ایمان والو!) کے الفاظ سے۔ (۲)مکی آیتیں اور سورتیں عموماً چھوٹی چھوٹی اور مختصر ہیں اور مدنی آیات وسورتیں طویل اور مفصل ہیں۔ (۳)مکی سورتیں زیادہ ترتوحید، رسالت اور آخرت کے اثبات، حشرونشر کی منظر کشی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صبروتسلی کی تلقین اور پچھلی امتوں کے واقعات پر مشتمل ہیں اور ان میں احکام وقوانین کم بیان ہوئے ہیں، اس کے برعکس مدنی سورتوں میں خاندانی اور تمدنی قوانین، جہاد وقتال کے احکام اور حدود وفرائض بیان کئے گئے ہیں۔ (۴)مکی سورتو ںمیں زیادہ ترمقابلہ بت پرستوں سے ہے اور مدنی سورتوں میں اہلِ کتاب اور منافقین سے۔ (۵)مکی سورتوں کا اُسلوبِ بیان زیادہ پرشکوہ ہے، اس میں استعارات وتشبیہات اور تمثیلیں زیادہ ہیں اور ذخیرۂ الفاظ بہت وسیع ہے، اس کے برخلاف مدنی سورتوں کا انداز نسبۃً سادہ ہے۔ مکی اور مدنی سورتوں کے انداز واسلوب میں یہ فرق دراصل حالات، ماحول اور مخاطبوں کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، مکی زندگی میں مسلمانوں کا واسطہ چونکہ زیادہ ترعرب کے بت پرستوں سے تھا اور کوئی اسلامی ریاست وجود میں نہیں آئی تھی، اس لیے اس دور میں زیادہ زور عقائد کی درستی، اخلاق کی اصلاح، بت پرستوں کی مدلل تردید اور قرآن کریم کی شانِ اعجاز کے اظہار پر دیا گیا، اس کے برخلاف مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست وجود میں آچکی تھی، لوگ جوق درجوق اسلام کے سائے تلے آرہے تھے، علمی سطح پر بت پرستی کا ابطال ہوچکا تھا اور تمام ترنظریاتی مقابلہ اہل کتاب سے تھا، اس لیے یہاں احکام وقوانین اور حدود وفرائض کی تعلیم اور اہل کتاب کی تردید پر زیادہ توجہ دی گئی اور اسی کے مناسب اسلوبِ بیان اختیار کیا گیا۔