انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
تعزیت کا مسنون طریقہ اور بذریعہ خط تعزیت کرنا صحیح ہے تعزیت کا سنت طریقہ یہ ہے کہ تدفین کے بعد یاتدفین سے قبل میت کے گھروالوں کے یہاں جاکر ان کوتسلی دے ان کی دلجوئی کرے صبر کی تلقین وترغیب دے اور ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، الفاظِ تعزیت اور اس کا مضمون متعین نہیں ہے، جدا جدا ہے، صبر اور تسلی کے لئے جوالفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے، بہتر یہ ہے کہ یہ جملے کہے: إِنَّ لِلَّهِ مَاأَخَذَ وَلَهُ مَاأَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔ (بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب قَوْلِ النَّبِيِّﷺ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضِ،حدیث نمبر:۱۲۰۴، شاملہ، موقع الإسلام۔ مشکوٰۃ، باب البکآءِ عَلَی المیت:۱۵۰) ترجمہ: جولیا وہ بھی خدا کا ہے اور جوکچھ دیا وہ بھی اسی کی ملکیت ہے، ہرایک چیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے (یعنی مرحوم کی زندگی متعین تھی) پس صبر کرو! اور ثواب کی اُمید رکھو۔ یہ الفاظ بھی ایک دوسری حدیث میں آئے ہیں: أَعْظَمَ اللَّهُ أَجْرَكَ ، وَأَحْسَنَ عَزَاءَكَ وَغَفَرَ لِمَيِّتِك۔ (کبیری۔ درمختار:۱/۸۴۳، مطلب فی الثواب علی مصیبۃ) ترجمہ: خدا تم کواجرعظیم عطا فرمائے اور تیرے صبر کا بہترین صلہ عنایت فرمائے اور تیری میت کی بخشش کرے؛ اگرغیرمکلف ہوتو آخری جملہ وَغَفَرَ لِمَیِّتِکْ نہ کہے۔ مجبوری یادوری کی بنا پربذاتِ خود حاضر نہ ہوسکے توبذریعہ خط بھی تعزیت کرے کہ یہ بھی سنت ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کوان کے صاحبزادے کی وفات پرتعزیتی خط لکھا تھا، آپ کا وہ خط حصنِ حصین میں ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے رسول محمدﷺ کی جانب سے معاذ بن جبل کے نام! تم پرسلامتی ہو، میں تمہارے سامنے اللہ کی تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، حمدوثنا کے بعد اللہ تعالیٰ تمھیں اجرعظیم عطا فرمائے اور صبر کی توفیق دے اور ہمیں اور تمھیں شکر کی توفیق نصیب فرمائے، اس لئے کہ بے شک ہماری جانیں اور ہمارا مال اور ہماری بیویاں اور ہماری اولاد (سب) اللہ بزرگ وبرتر کے مبارک عطیے اور عاریت کے طور پرسپرد کی ہوئی چیزیں ہیں، جن سے ہمیں ایک خاص مدت تک فائدہ اُٹھانے کا موقع دیا جاتا ہے اور مقررہ وقت پراللہ تعالیٰ ان کوواپس لے لیتا ہے؛ پھرہم پرفرض عائد کیا گیا ہے کہ جب وہ عطا کرے توہم شکر ادا کریں اور جب وہ آزمائش کرے (اور ان کوواپس لے لے) توصبر کریں، تمہارا بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کی ان خوشگوار نعمتوں اور سپرد کی ہوئی امانتوں میں سے ایک امانت تھا اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس سے قابل رشک اور لائق مسرت صورت میں نفع پہنچایااور (اب) اجرعظیم، رحمت ومغفرت اور ہدایت کے بدلہ اسے اُٹھالیا اگرتم ثواب چاہتے ہوتوصبر کرو، کہیں تمہاری بے صبری (اور تمہارا رونا دھونا) تمہارا ثواب نہ کھودے؛ پھرتمھیں پشیمانی اُٹھانی پڑے اور یاد رکھو کہ رونا دھونا کوئی چیز لوٹا کرنہیں لاتی اور نہ ہی غم واندوہ کودور کرتا ہے اور جوہونے والا ہے وہ توہوکر رہے گا اور جوہونا تھا وہ ہوچکا، والسلام۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۷/۸۳، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ احسن الفتاویٰ:۴/۲۳۴، زکریا بکڈپو، دیوبند)