انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حجاج بن یوسف اور عبدالرحمن بن محمد اُوپر ذکر آچکا ہے کہ سنہ۷۸ھ میں حجاج نے مہلب کوخراسان کا اور عبیداللہ بن ابی بکرہ کوسجستان وسندھ کا امیرمقرر کیا تھا، سندھ وسجستان (سیستان) پرمشرق کی طرف سے ہندیوں اور شمال کی طرف سے ترکوں اور مغلوں کے حملے ہوتے رہتے تھے، اس لیے حجاج نے ہمیان بن عدی اسدی کوایک چست وچالاک اور خوب مسلح دستہ فوج دیکر مقام کرمان میں مقیم کردیا تھااور حکم دیا تھا کہ جس وقت سجستان وسندھ کے عامل کوضرورت پیش آئے اس کی مدد کرو، عبیداللہ بن ابی بکرہ اپنے صوبہ میں پہنچ کرانتظامِ ملکی میں مصروف ہوا اور ہمیان بن عدی کرمان میں ایک زبردست فوج اپنے ماتحت دیکھ کرباغی ہوگیا اور بجائے مدد دینے کے خود عبیداللہ بن ابی بکرہ کے علاقہ پرحملے کیے گئے ۔ حجاج نے اس واقعہ سے واقف ہوکر عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کوہمیان بن عدی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، عبدالرحمن بن محمد نے ہمیان بن عدی کوہزیمت دیکر آوارہ کردیا اور خود چند روز کرمان میں مقیم رہ کرواپس چلاآیا، اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ شاہ ترکستان مسمیٰ رتبیل نے خراج ادا کرنے کا وعدہ کرکے مسلمانوں سے صلح کرلی تھی، عبیداللہ کے آنے پروہ چند روز عبیداللہ کوخراج ادا کرتا رہا؛ لیکن پھرسرکشی پرآمادہ ہوگیا، عبیداللہ نے اس کے ملک پرچڑھائی کی، رتبیل کے قبضہ میں بدخشاں وکافرستان وافغانستان وغیرہ کا علاقہ تبت تک تھا، عبیداللہ نے اس کے علاقہ پرفوج کشی کی، وہ سامےن سے فرار ہوتا ہوا عبیداللہ بن ابی بکرہ کوایسے مقام تک لے گیا جہاں سے عبیداللہ کے لیے واپس ہونا سخت دشوار تھا، آخرمسلمانوں کی فوج دروں میں گھرگھی، بہت سے آدمی ضائع ہوئے، شریح بن ہانی بھی اس جگہ کام آئے، بقیہ جوواپس آئے بڑی بری حالت میں اپنے مقام تک پہنچے، سجستان کے لشکر کی اس تباہی وبربادی کا حال حجاج بن یوسف ثقفی کومعلوم ہوا تواس نے عبدالملک کواطلاع دیکر رتبیل کے علاقہ پرچڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی، عبدالملک نے اجازت دیدی، حجاج نے بیس ہزار سوار کوفہ سے اور بیس ہزار پیدل بصرہ سے مرتب کرکے اس چالیس ہزار کے لشکر آزمودہ کار پرعبدالرحمن بن محمد اشعث کوسردار بنایا؛ اسی عرصہ میں خبرپہنچی کہ عبیداللہ بن ابی بکرہ نے سجستان میں وفات پائی۔ حجاج نے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کوسجستان کی سندگورنری بھی عطا کی اور رتبیل کے ملک پرچڑھائی کرنے کے لیے روانہ کیا، عبدالرحمن بن محمد جب عساکر اسلام کے ساتھ سجستان پہنچا اور رتبیل کومعلوم ہوا کہ اب میرے ملک پرحملہ ہونے والا ہے توبہت گھبرایا؛ مگرکچھ نہ کرسکا، عبدالرحمن نے اس کے ملک پرفتح کرنا شروع کیا اور اس بات کا لحاظ رکھا کہ جوں جوں آگے کوبڑھے پہاڑوں کے درے اور گھاٹیوں میں چوکی پہرے قائم کرتا جائے، غرض رتبیل کے ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ فتح کرکے پیش قدمی کوآئندہ سال کے لیے روک دیا اور حجاج کوفتح نامہ کے ساتھ اطلاع دی کہ باقی حصہ ہم نے آئندہ سال کے لے چھوڑ دیا ہے؛ تاکہ اس مفتوحہ علاقہ کا انتظام عمدگی سے کرلیں اور ففوج بھی تازہ دم ہوجائے۔ حجاج اس عرض داشت کوپڑھ کرسخت ناراض ہوا اس نے حکم بھیجا کہ تم اپنی پیش قدمی کوجاری رکھو، رتبیل کی فوج کے لوگوں کوجوتمہاری قید میں ہیں قتل کردو اور قلعوں کومنہدم کردو، اس حکم کے پہنچنے سے پہلے ہی فوراً دوسرا اور تیسرا حکم بھی اسی مضمون کا روانہ کیا، تیسرے حکم میں یہ بھی لکھا کہ اگرتونے ہماےر اس حکم کی تعمیل کی توبہتر؛ ورنہ تواپنے آپ کومعزول سمجھ اور تیری جگہ تیرا بھائی اسحاق بن محمد بن اشعث امیرلشکر ہے، یہ تینوں حکم عبدالرحمبن بن محمد کے پاس یکے بعد دیگرے پہنچے، عبدالرحمن نے حجاج کے احکام کوپڑھ کرتمام لشکر کوجمع کرکے ایک تقریر کی اور کہا کہ میں نے تم سب لوگوں کے مشورے سے یہ بات قرار دی تھی کہ ہم ترکوں کے مفتوحہ ملک کا انتظام کریں اور اس سال اپنی مضبوطی اور تیاری مکمل کرکے آئندہ سال بقیہ ملک کوفتح کریں؛ لیکن حجاج ترکوں سے لڑنے اور بلاتوقف حملہ آور ہونے کولکھتا ہے، اسے تمہارے تھک جانے اور آرام کرنے کا بھی خیال نہیں ہے، یہ وہی ملک ہے جہاں تمہارے بھائ پچھلے دنوں برباد ہوچکے ہیں، میں بھی تمہارا بھائی اور تم ہی جیسا ایک شخص ہوں؛ اگرسب لوگ لڑنے اور آگے بڑھنے پرآمادہ ہیں تومیں سب کے ساتھ ہوں۔ اس تقریر کوسن کرتمام کوفی وبصری یک لخت برافروختہ ہوگئے اور ایک زبان ہوکر کہنے لگے ہم حجاج کی طاعت ہرگز نہ کریں گے اور ہرگز اس کا کہنا نہ مانیں گے، عامل بن وائلہ کنانی کہنے لگا کہ حجاج توخدا کا دشمن ہے اس کوامارت سے معزول کرکے عبدالرحمن بن محمد کے ہاتھ پرامارت کی بیعت کرلو، ہرطرف سے لوگ بول اُٹھے کہ ہاں! ہاں! ہمیں یہ بات بہ دل منظور ہے، عبدالرحمن بن شیث ربعی نے اُٹھ کرکہا چلودشمنِ خدا حجاج کواپنے شہر سے نکال دو، یہ سنتے ہی تمام لشکری عبدالرحمن کے ہاتھ پربیعت کرنے کوٹوٹ پڑے اور انھوں نے عہد کیا کہ ہم حجاج کو عراق سے نکال کرچھوڑیں گے؛ اسی وقت عبدالرحمن بن محمد نے رتبیل کے پاس پیغام بھیجا اور اس شرط پرفوراً صلح ہوگئی کہ اگرہم حجاج کے خارج کرنے میں کامیاب ہوگئے تورتبیل کے ملک کا تمام خراج معاف کردیا جائے گا اور اگرحجاج غالب آیا تورتبیل اس کویااس کی فوج کواپنے علاقے میں داخل ہونے سے روکے گا اور برسرِمقابلہ پیش آئے گا۔ چنانچہ یہ لشکر تمام فتح کیے ہوئے علاقے کوچھوڑ کرعراق کی طرف واپس روانہ ہوا، جب اس لشکر کے واپس آنے کا حال حجاج کومعلوم ہوا تواس نے عبدالملک کولکھا کہ یہ صورت پیش آئی ہے، اب میری مدد کے لیے فوج روانہ کرو، عبدالملک نے فوج روانہ کی، مہلب کوجب اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تواس نے حجاج کوہمدردانہ لکھا کہ تم اہلِ عراق کوواپس آکر اپنے اپنے گھروں میں پہنچ لینے دو اور ان سے بالکل متعارض نہ ہو۔ حجاج نے اس مشورے کی کوئی پرواہ نہیں کی؛ بلکہ وہ عراقیوں سے بدظن ہوگیا، اس نے مہلب کی نسبت بھی اپنے دل میں بدگمانی کوراہ دی اور یہ خیال کیا کہ مہلب گورنرخراسان بھی ضرور ان لوگوں کا ہم خیال ومشیر ہوگا، عبدالملک کی فرستادہ فوجیں جب آگئیں توحجاج ان کولے کر بصرہ سے اس طرف آگے بڑھا اور مقام ِتشتر میں پہنچ کرسواروں کے دستے کوبطورِ مقدمۃ الجیش آگے بڑھایا، عبدالرحمن بن محمد بھی قریب پہنچ چکا تھا، عبدالرحمن کے سواروں نے حجاج کے سواروں کوشکست دیکربھگادیا اور ایک بڑے حصے کوقتل کرڈالا۔ اب حجاج تشتر سے مجبوراً بصرہ کی طرف لوٹا اور مقامِ زاویہ کی طرف مڑگیا، عبدالرحمن سیدھا بصرہ میں داخل ہوا اہلِ بصرہ نے اس کے ہاتھ پربیعت کی، حجاج کومہلب کی نصیحت یاد آئی کہ اس نے جوکچھ لکھا تھا، درست لکھا تھا، اہلِ بصرہ حجاج کی سخت گیری سے نالاں تھے، سب کے سب عبدالملک بن مروان کے خلع خلافت اور حجاج سے جنگ کرنے پرآمادہ ہوگئے، یہ واقعہ آخر ذی الحجہ سنہ۸۱ھ کا ہے، شروع محرم سنہ۸۲ھ سے حجاج اور عبدالرحمن بن محمد کے درمیان لرائیوں کا سلسلہ جاری رہا، کبھی حجاج غالب ہوتا، کبھی عبدالرحمن؛ لیکن ۲۹/محرم سنہ۸۲ھ کوجولڑائی ہوئی اس میں عبدالرحمن بن محمد کوشکستِ فاش حاصل ہوئی، عبدالرحمن بن محمد بن اشعث اپنے شکست خوردہ ہمراہیوں کولیکر کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور کوفہ دارالامارۃ پرقابض ہوگیا، اہلِ بصرہ نے عبدالرحمن بن محمد کی شکست کے بعد عبدالرحمن بن عباس بن ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب کے ہاتھ پربیعت کی اور حجاج کے ساتھ مقابلہ ومقاتلہ کا سلسلہ جاری رکھا، پانچ چھ روز تک عبدالرحمن بن عباس نے حجاج کاخوب سختی سے مقابلہ کیا، اس فرصت سے عبدالرحمن بن محمد کوفہ پربآسانی قابض ومتصرف ہوگیا، آخر عبدالرحمن بن عباس بھی معہ بہت سے بصریوں کے بصرہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور عبدالرحمن بن محمد سے کوفہ میں جاملا، حجاج بصرہ میں داخل ہوا اور حکیم بن ایوب ثقفی کوبصرہ میں حاکم مقرر کرکے خود کوفہ کی طرف روانہ ہوا، مقامِ دیرقرہ میں ڈیرے ڈالے، ادھر کوفہ سے عبدالرحمن بن محمد نکلا اور دیرجم پرمورچے باندھے، طرفین سے خندقیں، مورچے، ومدے باندھے گئے اور لڑائی شروع ہوئی، یہ لڑائی عرصہ تک جاری رہی، ہرروز دونوں طرف کی فوجیں میدان میں نکلتیں اور ایک دوسرے کوپیچھے ہٹاتیں؛ لیکن کوئی فیصلہ جنگ کا نہ ہوتا تھا، آخر عبدالملک نے اپنے بیٹے عبداللہ اور اپنے بھائی محمد بن مروان کوایک بڑے لشکر کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ کیا اور اہلِ عراق کی طرف ان دونوں کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ: ہم حجاج کومعزول کئے دیتے ہیں، اہلِ عراق کے وظائف مثل اہلِ شام کے مقرر کردیں گے، عبدالرحمن بن محمد جس صوبہ کی حکومت پسند کرے اس کودے دی جائے گی۔ حجاج کو اس پیغام کا حال معلوم ہوکر سخت صدمہ ہوا اس نے عبداللہ ومحمد کو اس پیغام کے پہنچانے سے روک کرعبدالملک کوخط لکھا کہ اس طرز عمل سے اہلِ عراق کبھی آپ کے مغلوب ومحکوم نہ ہوں گے اور ان کی سرکشی ترقی کرے گی؛ لیکن عبدالملک نے حجاج کی بات کوناپسند کیا اور عبداللہ ومحمد نے عبدالملک کا پیغام اہلِ عراق تک پہنچادیا، اہلِ عراق کے لیئے یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور عبدالرحمن بن محمد اس کے تسلیم کرنے پرآمادہ تھا؛ لیکن لشکریوں نے اس بات کونہیں مانا اور سب نے مخالفت میں آواز بلند کرکے عبدالملک کے خلع خلافت کے لیئے تجدید بیعت کی، عبداللہ ومحمد یہ صورت دیکھ کراپنی فوج حجاج کے پاس چھوڑ کرخود عبدالملک کے پاس واپس چلے گئے، اب طرفین میں تازہ جوش اور تازہ تیاریوں کے ساتھ پھربڑے زور کی لڑائی شروع ہوئی اور ایک سال تک برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، طرفین ہرروز اپنے اپنے مورچوں سے نکل کرنبردآزما ہوتے اور شام کواپنے مورچوں میں واپس چلے جاتے، ان لڑائیوں میں عبدالرحمن بن محمد کا پلہ بھاری نظر آتا تھا اور حجاج کا نقصان زیادہ ہوتا تھا؛ لیکن حجاج کے پاس شام سے برابر امداد پہنچ رہی تھی، آخر۱۵/جمادی الثانی سنہ۸۳ھ کوایک بہت بڑی فیصلہ کن جنگ ہوئی، اس لڑائی میں بعض اتفاقی واقعات کی بناپر حجاج کوفتح ہوئی اور وہ فوراً کوفہ میں داخل ہوکر قابض ہوگیا، عبدالرحمن بن محمد نے وہاں سے بصرہ کا رُخ کیا اور حجاج کے عامل کونکال کرفوراً بصرہ پرقبضہ کرلیا، حجاج نے کوفہ والوں سے بیعت لینی شروع کی اور جس نے تامل کیا اس کوبلادریغ قتل کیا گیا۔ عبدالرحمن بن محمد کے پاس بصرہ میں ایک بڑالشکر مجتمع ہوگیا اور اس نے حجاج پرحملہ کرنے کا قصد کیا، حجاج یہ خبر سن کرکوفہ سے ایک زبردست شامی لشکرلے کربصرہ کی طرف چلا، یکم شعبان سنہ۸۳ھ سے لڑائی شروع ہوئی ۱۵/شعبان تک نہایت زور وشور کے ساتھ لڑای جارہی تھی حجاج کوکئی مرتبہ شکست ہوئی؛ لیکن وہ سنبھل سنبھل گیا، حجاج کے لشکر میں عبدالملک بن صلب بھی موجود تھا۔ ۱۵/شعبان کوجب کہ عبدالرحمن بن محمد نے حجاج کوشکستِ فاش دیدی تھی، عبدالملک بن مہلب نے اپنے ہمراہی سواروں کولے کراچانک عبدالرحمن پرحملہ کیا، جب کہ وہ حجاج کے کیمپ کولوٹ کراور میدان سے بھگا کراپنے لشکر گاہ میں مظفروفتح مند واپس آیا تھا، اس اچانک حملے نے عبدالرحمن کے ہمراہیوں کوسراسیمہ کردیا اور وہ بھاگ پڑے، بہت سے خندقوں میں گرکرہلاک ہوئے بہت سے مارے گئے، بہت سے اپنی جان سلامت لے گئے۔ حجاج جوشکست پاچکا تھا واپس آکر عبدالرحمن بن محمد کے لشکرگاہ پرقابض ہوا اس شکست کے بعد عبدالرحمن بن محمدبصرہ سے سوس سابور، کرمان، زرنج، بست ہوتا ہوا رتبیل شاہِ ترکستان کے پاس چلا گیا، عبدالرحمن بن محمد کے ہمراہیوں نے سجستان کے قریب جمع ہوکر عبدالرحمن بن عباس بن ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب کواپنی نمازوں کا مام بنادیا اور اپنے ساتھیوں کوہرطرف سے بلایا اور عبدالرحمن بن محمد کے پاس پیغام بھیجا کہ تم واپس چلے آؤ اور خراسان پرقبضہ کرلو، عبدلرحمن بن محمد نے کہا کہ خراسان پریزید بن مہلب حکمراں ہے، خراسان کا اس سے چھین لینا آسان کام نہیں؛ لیکن ان لوگوں نے باصرار عبدالرحمن بن محمد کوبلوایا، وہ رتبیل کے پاس سے رخصت ہوکر آیا، ان لوگوں کی تعداد بیس ہزار تھی، ان کولے کرہرات کی طرف گیا، ہرات پرقبضہ کیایزید بن مہلب فوج لے کرمقابلہ پرآیا، دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تولڑائی شروع ہونے سے پیشتر ہی عبدالرحمن بن محمد کے لشکری میدان سے بھاگنے لگے، جبوراً عبدالرحمن بن محمد نے اپنے چند ہمراہیوں سے مقابلہ کیا، بہت سے مقتول وگرفتار ہوئے، عبدالرحمن بن محمد وہاں سے سندھ کی طرف بھاگا، یزید نے اپنی فوج کوتعاقب کرنے سے روک دیا، عبدالرحمن بن محمد سندھ پہنچ گیا، یزد نے جنگِ ہرات میں جن لوگوں کوقید کیا تھا انھیں مرولے جاکر وہاں سے حجاج کے پاس بھیج دیا؛ انھیں قیدیوں میں محمد بن سعد بن ابی وقاص بھی تھے جوحجاج کے حکم سے قتل ہوئے، عبدالرحمن بن محمد بن اشعث سندھ سے رتبیل کے پاس چلا گیا اور وہاں جاکر سل کے عارضہ میں بیمار ہوگیا، حجاج نے رتبیل کولکھا کہ عبدالرحمن بن محمد کا سرکاٹ کربھیج دوتودس برس کا خراج تم کومعاف کردیا جائےگا، رتبیل نے اس بیمار کا سرکاٹ کرحجاج کے پاس بھیج دیا، یہ واقعہ سنہ۸۴ھ کا ہے۔