انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت علیؓ کے تا ثرات جس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خبر وفات مدینہ میں پھیلی تمام شہر میں کہرام وتلاطم برپا ہوگیا اور وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کا نقشہ دوبارہ لوگوں کی نگاہوں میں پھرنے لگا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس خبر کو سُنا توروپڑے اورروتے ہوئے آپ کے مکان پر آئے،دروازہ پر کھڑے ہوکر فرمانے لگے: "اے ابوبکرؓ خدا تم پر رحم کرے بخدا تم تمام امت میں سب سے پہلے ایمان لائے اورایمان کو اپنا خُلق بنایا،تم سب سے زیادہ صاحب ایقان،سب سے غنی اورسب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ونگہداشت کرتے،سب سے زیادہ اسلام کے حامی اور خیر خواہ مخلوق تھے،تم خلق،فضل،ہدایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر تھے،اللہ تعالیٰ تم کو اسلام اورمسلمانوں کی طرف سے بہترین جزادے،تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی،جب دوسروں نے تکذیب کی اوراس وقت رسولِ خدا کی غم خواری کی جب دوسروں نے بخل کیا جب لوگ نصرت وحمایت سے رُکے ہوئے تھے تم نے کھڑے ہوکر رسول خدا کی مدد کی خدا نے تم کو اپنی کتاب میں صدیق کہا "وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ"تم اسلام کی پشت وپناہ اورکافروں کو بھگانے والے تھے نہ تمہاری حجت بے راہ ہوئی اورنہ تمہاری بصیرت ناتواں ہوئی،تمہارے نفس نے کبھی بزدلی نہیں دکھائی،تم پہاڑ کی مانند مستقل مزاج تھے تند ہوائیں نہ تم کو اکھاڑ سکیں،نہ ہلاسکیں،تمہاری نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضعیف البدن قوی الایمان،منکسر المزاج،اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ،زمین پر بزرگ،مومنوں میں بڑے ہیں نہ تمہارے سامنے کسی کو طمع ہوسکتی ہے نہ خواہش کمزور تمہارے نزدیک قوی اورقوی کمزور تھا،یہاں تک کہ کمزور کا حق دلادو اورزور آور سے حق لے لو"۔ اے خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اپنے بعد قوم کو بڑی سخت تکلیف دی اوراُن کو مصیبت میں ڈال دیا،تمہارے غبار کو بھی پہنچنا بہت مشکل ہے میں تمہاری برابری کہاں کرسکتا ہوں۔