انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اشناس کا عروج وزوال خلیفہ واثق باللہ نے تختِ نشین ہوکر اشناس کوجوترکی غلام تھا، اپنا نائب السطنت بناکر تمام ممالکِ محروسہ اسلامیہ کے سیاہ وسفید کا اختیار کامل دے دیا، وزیراعظم محمد بن عبدالملک بن زیات جو معتصم کے زمانے سے وزیراعظم چلاآتا تھا، واثق کے زمانے میں بھی وزیراعظم رہا، یہ عہدہ جواشناس کے سپرد کیا گیا، اس کا نام نائب السلطنت تھا جوواثق باللہ نے نیا ایجاد کیا تھا، نائب السلطنت خلیفہ کے تمام اختیارات کا استعمال کرتا اور وزیراعظم کا اسی طرح افسروحاکم تھا، جیسے خلیفہ، اب تک کسی خلیفہ نے ایسے وسیع اختیارات کسی دوسرے کونہیں دیے تھے، ترکوں کواگرچہ افشین کے قتل سے ایک قسم کا نقصان وصدمہ پہنچا تھا؛ لیکن ان کی فوجیں، پلٹنیں، رسالے بہ دستور موجود تھے، ان کی قدرومنزلت بہ دستور موجود تھی، اب واثق باللہ کے تختِ نشین ہونے پراشناس کوجب حکومتِ اسلامیہ میں سیاہ وسفید کے کامل اختیارات عطا ہوئے تویوں سمجھنا چاہیے کہ تمام عالمِ اسلامی میں ترکوں ہی کی حکومت قائم ہوگئی، اشناس کویہ حکومت زیادہ دن راس نہ آئی اور جلد ہی اس کے اختیارات پربھی حد بندی قائم ہوئی؛ مگریہ ایک ایسی نظری قائم ہوئی جوبعد میں دولتِ عباسیہ کے زوال وبربادی کا باعث ہوئی۔ واثق باللہ چونکہ مجالسِ علمیہ کا بھی شوقین تھا، اس لیے وہ علماء واراکینِ سلطنت کی مجلسوں میں بیٹھ کرگھنٹوں مذاکراتِ علمیہ اور روایاتِ قدیمہ سناکرتا تھا، علماء چونکہ اکثر عربی النسل لوگ تھے، انہوں نے ہارون الرشید کے زمانے کے واقعات بھی موقع پاکر سنانے شروع کیے، بارمکہ کے علمی ذوق اور سخاوت کی حکایتوں کے ساتھ ہی ان کے اقتدار واختیار کے قصے اور پھرخاندان خلافت کے خلاف ان کی سازشوں کی کیفیت اور بربادی کے تمام واقعات مناسب اور موزوں انداز میں واثق باللہ کے گوشِ گزار کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واثق باللہ کی کچھ آنکھیں سی کھل گئی اور اس نے ترکی وخراسانی اُمراء کی نگرانی ودیکھ بھال کرنے شروع کردی، اکثر لوگوں پرغبن کے الزامات پایہ ثبوت کوپہنچے اور واثق باللہ نے ان سے جرمانے وصول کرنے شروع کردیے؛ اسی سلسلہ میں اشناس ترکی کے اختیارات بھی محدود کردیے گئے اور وہ سنہ۲۳۰ھ میں فوت ہوگیا۔