انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مراد خان اوّل اپنےبڑے بیٹے سلیمان خان کی وفات کے بعد سلطان ارخان نے اپنے چھوٹے بیٹے مرادخان کو اپنا ولی عہد بنایا تھا ؛چنانچہ ارخان کی وفات کے بعد مراد خان جس کی عمر اس وقت چالیس سال کی تھی ۷۶۱ھ میں تخت نشین ہوا،مراد خان کی خواہش یہی تھی کہ یورپ میں اپنی سلطنت کو وسعت دے لیکن تخت نشینی کے بعد ہی قرمان کی ترکی سلجوقی ریاست کی بغاوت فرو کرنے میں اس کو ایشیائے کوچک کے مشرقی علاقے کی طرف مصروف رہنا پڑا،اس کے بعد ۷۶۲ھ میں اپنی فوج لے کر ساحلِ یورپ پر اترا اورایڈرنویاپل (اورنہ)کو فتح کرکے اپنا سلطنت بنایا،اس وقت یعنی ۷ ۶۳ھ سے فتح قسطنطنیہ تک جو سلطان محمد خان ثانی کے عہد میں ہوئی،ایڈریانوپل سلطنتِ عثمانیہ کا دارالسلطنت رہا،ایڈریاتوپل کی فتح کا حال سن کر بلگیریا اورسردیاوالوں کو فکر پیدا ہوئی،قسطنطنیہ کے قیصر نے پوپ روم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ جہاد کا وعظ کریں اور مسلمانوں کی روک تھام کے لئے فوجیں بھیجیں؛چنانچہ یورپ نے فوجیں روانہ کیں، اُدھر ہنگری اوربوسینیا وغیرہ کے عیسائی سلاطین بھی سردیا اوربلگیریا کی طرح مستعد ہوگئے اوران متحدہ عیسائی افواج نے ۷۶۵ ھ میں ایڈریا نوپل کی طرف کوچ کیا مرادخان نے اپنے سپہ سالار لالہ شاہیں نامی کو بیس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا ایڈریانوپل سے دو منزل آگے عیسائی لشکر عظیم سے جس کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہوئی تھی،مقابلہ ہوا،اس معرکہ میں عیسائیوں کی اس متحدہ افواج نے مٹھی بھر مسلمانوں سے شکست فاش کھائی اور فرار کی عار کو مقرار پر ترجیح دے کر بھاگتے ہوئے بہت سے مسلمانوں کی تلواروں سے مقتول اوربہت سے اسیر دوست گیر ہوئے،لالہ شاہیں نے آگے بڑھ کر بہت ساملک فتح کیا اور تھریس درومیلیا کے صوبوں میں فوجی جاگیر داری کے قدیم دستور کے موافق اپنے ہم قوم ترکوں اور مسلمان سرداروں کو آباد کرنا شروع کیا،کئی برس تک سلطان مراد خان اس ملک کو مضبوط کرنے اوراپنی حکومت کے مستحکم بنانے میں مصروف رہا،جنگی قیدیوں اورعیسائی رعایا کے نو عمر لڑکوں کے ذریعہ ینگ جری فوج میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ترکی سلطان نے اپنی حکومت کو خوب مضبوط بناکر ایڈریا نوپل میں مستقل طور پر طرح اقامت ڈال دی ہے تو ۷۷۸ھ میں انہوں نے پھر سلطان مراد خان کے خلاف یورپ کی تمام طاقتوں کو متحد کیا؛چنانچہ سردیا،بلگیریا،ہنگری،بوسینیا پولینڈ قسطنطنیہ پوپ روم کی فوجیں،سلطان مراد خان اور سلطنت عثمانیہ کو نیست و نابود کرنے کے لئے فراہم و مجتمع ہوئیں مسلمانوں کی فوج اس مرتبہ بھی عیسائی لشکر کے مقابلہ میں پانچویں چھٹے حصے کی برابر تھی،اس لڑائی میں عیسائیوں کو، حسبِ دستور شکستِ فاش ہوئی،سرویہ کے بادشاہ نے بارہ من پختہ چاندی سالانہ اورعند الطلب ایک ہزار سواروں کا لشکر مدد کے لئے بھیجنے کا وعدہ کرکے اپنی جان بچائی اوربلگیری کے بادشاہ نے اپنی بیٹی سلطان کی خدمت میں پیش کرکے آئندہ مطیع و منقاد رہنے کا وعدہ کیا،قیصر قسطنطنیہ نے اپنی تین خوبصورت لڑکیاں اس توقع میں پیش کیں کہ ایک سے سلطان مراد خان خود نکاح کرے اوردو اس کے دونوں بڑے بیٹوں کی بیویوں میں شامل کی جائیں اس لڑائی کے بعد قیصر قسطنطنیہ سلطان مراد خان کے یورپ سے بے دخلاورواپس کرنے سے مایوس ہوکر اس کوشش میں مصروف رہنے لگا کہ سلطان سے اس کی صلح رہے اوراس کو اپنے مقبوضہ ملک اورقسطنطنیہ کے تخت پر حکمران رہنا دیا جائے،ایک طرف قیصر قسطنطنیہ عثمانی سلطان کی خوشامد میں مصروف رہتا تھا،دوسری طرف وہ اندر ہی اندر سلطان کے خلاف کوششوں میں مصروف تھا؛چنانچہ ۷۸۲ھ میں قیصر قسطنطنیہ وپلیلوگس نے کشود کار کی توقع میں قسطنطنیہ سے شہر روم میں پوپ کے پاس جانے اوراس کی اطاعت قبول کرنے کی ذلت محض اس وجہ سے اٹھائی کہ پوپ عیسائیوں کو مذہبی جہاد اورسلطان مراد خان کے خلاف جنگ پر آمادہ کرکے تمام براعظم یورپ کو میدانِ جنگ میں لے آئے مگر اس تدبیر میں جب کہ اس کو کامیابی نظر نہ آئی تو وہ بہت خوفزدہ ہوا اورسلطان کے غضب سے محفوظ رہنے کے لئے اس نے اپنے بیٹے تھیوڈ ورس کو سلطان کی خدمت میں بھیج کر درخواست کی کہ اس کو ینگ چری فوج میں بھرتی ہونے کی عزت دی جائے؛چنانچہ اس تدبیر سے اس نے سلطان کو بہت خوش اوراپنی طرف سے مطمئن کردیا۔ انہیں ایام میں سلطان مراد خان کو ایشیائے کوچک میں بعض بغاوتوں اور سرکشیوں کے استیصال کی غرض سے جانے کی ضرورت پیش آئی اوراپنے یورپی مقبوضات کی حکومت ایڈریا نوپل میں اپنے بیٹے ساوجی کو سپرد کردیا گیا، سلطان کی اس غیر موجود گی میں قیصر قسطنطنیہ کا ایک اوربیٹا جس کا نام اینڈونیکس تھا،ایڈریا نوپل میں آیا اور مراد خان کے بیٹے کا دوست اوررفیق بن کر اس کے مزاج میں دخیل ہوا، اس عیسائی شہزادہ نے مسلمان شہزادے کو بغاوت پر آمادہ کرنے کی ایک عجیب کوشش کی،اس نے کہا کہ میرا باپ بھی حکومت کی قابلیت نہیں رکھتا اورمیرے اوپر بہت ظلم کرتا ہے اوراسی طرح آپ کاباپ بھی آپ کی نسبت دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیتا،یہ موقع محض اتفاق سے ہاتھ آگیا ہے،میں نے بھی اپنے لشکر کے ایک معقول حصہ کو اپنا شریک بنالیا ہے،آپ بھی اپنے ہاتھ یہاں کافی فوج رکھتے ہیں، آؤ پہلے ہم دونوں مل کر قسطنطنیہ کو فتح کرکے موجودہ قیصر کو اسیر کرلیں،اس طرح جب تخت قسطنطنیہ مجھ کو مل جائے گا تو پھر ہم دونوں مل کر سلطان مراد خان کا مقابلہ کرسکیں گے اورآپ ایڈریانوپل میں بآسانی تخت نشین ہوکر ترکوں کے سلطان بن جائیں گے ،یہ احمق شاہزادہ عیسائی شہزادہ کے فریب میں آگیا، اس نے بلا تامل اپنی فوج لے کر اور عیسائی شہزادے کے ساتھ ہوکر قسطنطنیہ کی طرف کوچ کردیا اوردونوں نے جاکر قسطنطنیہ کا محاصرہ کرکے اپنی اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا، مراد خان نے جب اس بغاوت وسرکشی کا حال سنا تو وہ بہت جلد ایشائے کوچک سے فارغ ہوکر ایڈ ریا نوپل آیا، یہ دونوں شہزادے قسطنطنیہ کے قریب سے ہٹ کر مغرب کی جانب ایک ندی پار جاپڑے اورسلطان مراد خان کے مقابلہ کی تیاریاں کرنے لگے،مراد خان نے ایڈریا نوپل پہنچتے ہی قیصر پلیلو گس کو لکھا کہ فوراً میری خدمت میں حاضر ہوکر جواب دو کہ یہ نا معقول حرکت کیوں ظہور میں آئی اور تم نے اپنے بیٹے کو میرے بیٹے کے پاس بھیج کر کیوں یہ فتنہ برپا کرایا قیصر اس سلطانی پیغام کے پہنچنے سے کانپ گیا اوراس نے خوف کی وجہ سے اپنی بے گناہی اور لا علمی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ان باغی شہزادوں کے گرفتار کرنے اوران کو ان کی نالائقی کی سزادینے میں ہر طرح آپ کا شریک ہوں اورمیری خواہش ہے کہ باغیوں کو گرفتار کرکے قتل کیا جائے اس جواب کو سن کر سلطان خود ان باغیوں کی طرف بڑھا اورندی کے اس کنارے پر خیمہ زن ہوکر رات کے وقت تنہا اس طرف گیا اورباغیوں کے کیپ میں پہنچ کر آواز دی کہ تم میں سے جو شخص باغیوں کا ساتھ چھوڑ کر اب بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گا،اس کی خطا معاف کردی جائے گی،سلطان کی آواز کو پہنچا کر تمام سپاہی اور سرمایہ دار جو شہزادے کے ساتھ تھے،سلطان کے گرد آکر جمع ہوگئے اورصرف چند ترکوں اورچند عیسائیوں کے ساتھ یہ دونوں شہزادے وہاں سے فرار ہوئے ،آخر دونوں مع اپنے ہمراہیوں کے گرفتار ہوکر آئے اور سلطان کی خدمت میں پیش کئے گئےسلطان مراد خان نے اپنے بیٹے کو اپنے سامنے بلا کر اندھا کرادیا اورپھر اس کے قتل ہونے کا حکم دیا؛چنانچہ وہ قتل کردیا گیا، قیصر کے بیٹے کو پابہ زنجیر قیصر کے پاس بھجوادیا اورلکھا کہ اس کو اب تم خود اپنے ہاتھ سے سزا دو جس طرح کہ میں نے اپنے بیٹے کو خود سزا دی ہے،قیصر کے لئے یہ بڑا نازک موقع تھا، اگر وہ بیٹے کو سزا دیتا ہے تو محبت پدری مانع ہوتی ہے اوراگر سزا نہیں دیتا تو سلطان کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے،آخر اس نے بیٹے کی آنکھوں میں تیزاب ڈلواکر اندھا کرادیا اورزندہ رہنے دیا، سلطان نے یہ سن کر کہ قیصر نے میرے حکم کی تعمیل میں بیٹے کو اندھا کرادیا، خوشی کا اظہار کیا اوراس بات سے کوئی تعرض نہیں کیا کہ اس کو زندہ کیوں چھوڑدیا گیا لیکن حقیقت یہ تھی،کہ قیصر نے بیٹے کو بالکل اندھا بھی نہیں کرایا تھا ؛بلکہ اس کی بینائی باقی رہی تھی اور چند روز کی تکلیف کے بعد آنکھیں اچھی ہوگئی تھیں۔ ۷۸۹ھ میں قراقونلو کمانوں نے ایشائے کوچک کے مغربی حصے میں زور پکڑ کر سلطان مرادخان کے خلاف علم مخالفت بلند کیا،مقامِ قونیہ کے قریب میدان کار زار گرم ہوا، اس لڑائی میں سلطان مراد خان کے بیٹے بایزید خان نے نہایت شدت اورسرعت کے ساتھ حملہ کرکے حریف کی طاقت کو پامال کردیا،بایزید خان کی اس جرأت وبہادیر کے عوض سلطان نے اس کو یلدرم(برق) کا خطاب دیا، اسی روزے سے بایزید یلدرم کے نام سے مشہور ہوا،ترکمانوں کا سردار چونکہ سلطان مراد خان کا داماد بھی تھا،اس لیے بیٹی نے باپ سے سفارش کرکے اپنے خاوند کی جان بچوادی اوراس حریف ریاست سے پھر صلح وآتشی کے تعلقات قائم ہوئے،اس کے بعد سلطان نے چند روز بروصہ میں رہ کر ایشائے کوچک کے حالات کو معائنہ کرنا اوروہاں کے انتظام سلطنت کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانا ضروری سمجھا، ادھر یورپ میں مسلمانوں کے خلاف مخالفت اورجہاد کا جوش تو پہلے ہی موجود تھا،صلیبی لڑائیوں اورپادیوں کے جہادی وعظوں نے تمام براعظم یورپ میں مسلمانوں کی ایک بڑی ہی مہیب اورقابلِ نفرت تصویر پیش کرکے نفرت کے سیلاب بہار رکھے تھے،اب جبکہ تھریس درومیلیا اوراس سے بھی آگے تک کا ملک سلطان مراد کان کے قبضے میں آکر مسلمانوں کی نو آبادی بننے لگا تو تمام یورپ میں ہلچل کا پیدا ہوجانا لازمی وضروری تھا، ادھر شاہِ سرویہ،قیصر قسطنطنیہ اورپوپ روم نے یورپ کے تمام ملکوں میں ترکوں کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دینے کے لئے سفیر،ایلیچی اورمناد پھیلادیئے تھے یہ بالکل اسی قسم کی کوشش تھی جو بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے چھیننے اورملک شام میں صلیبی لڑائیوں کا سلسلہ جاری کرنے کے لئے یورپ میں ہوئی تھی،ترکوں کے بلقان میں پہنچنے سے عیسائی لوگ ملک شام کو بھول گئے اوران کو اب اپنے ملکوں کا بچانا اورخطرہ سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنا ضروری ولازمی ہوگیا،سلطان مراد خان ایشیائے کوچک میں بیٹھا ہوا ان حالات اوران تیاریوں سے بے خبر تھا؛کیونکہ اس زمانے میں خبر رسانی کے ایسے ذرائع نہ تھے کہ وہ عین وقت پر اس بات سے واقف ہوجاتا کہ اس کی مخالفت میں کس کسی قسم کی کوششیں کہاں کہاں کس کس طرح ہورہی ہیں؟ ۷۹۱ء میں سلطان مراد خان بروصہ میں مقیم تھا، اسی سال خواجہ حافظ شیرازی اورحضرت خواجہ نقش بند (بہاء الدین) نے وفات پائی تھی،ادھر سرویہ ،بلگیریا،البانیہ،ہنگری،گلیشیا،پولینڈ جرمنی، آسٹریا، اٹلی بوسینیا وغیرہ کی تمام طاقتیں اورقومیں متحدومتفق ہوکر سلطنتِ عثمانیہ کے استیصال پر مستعد ہوچکی تھیں، ۷۹۱ھ میں سلطان مراد خان کے پاس بروصہ میں خبر پہنچی کہ وہ فوج جو چوبیس ہزار کی تعداد میں رومیلیا کے اندر موجود تھی،عیسائی لشکر کے مقابلے میں برباد ہوگئی،یعنی سرویا اوربلگیریا کی فوجوں نے حملہ کرکے اورعہدِ اطاعت کو بالائے طاق رکھ کر بیس ہزار ترکوں میں سے پندرہ ہزار کو جامِ شہادت پلادیا ہے اور تمام یورپی علاقہ اور دارالسلطنت ایڈریا نوپل خطرہ میں ہے،اس خبر کو سنتے ہی سلطان مرادخان بروصہ کے چل کر سمندر کو عبور کرکے ایڈریا نوپل پہنچا اور وہاں سے تیس ہزار کا ایک لشکر اپنے سپہ سالار علی پاشا کو دے کر آگے روانہ کیا کہ دشمنوں کے لشکر کی پیش قدمی کو روکے اورخود ایڈریانو پل میں ضروری انتظامات کی طرف متوجہ ہوا، ۷۹۲ھ میں علی پاشانے بلگیریا کے بادشاہ سسوال کو مغلوب ومجبور کرکے دوبارہ اطاعت پر آمادہ کرلیا،عیسائی ممالک کے لشکروں کو سرویہ کے بادشاہ نے سرویہ اوربوسینیا کی سرحدوں پر مقام کسودا میں جمع کیا اوریورپ کے اس لشکر عظیم نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنا کیمپ قائم کرکے سلطان مراد کو خود پیغام جنگ دیا، مراد خان بھی اب پورے طور پر ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار ہوچکا تھا؛چنانچہ وہ خود اپنی تمام فوج کا سپہ سالار بن کر ایڈریا نوپل سے روانہ ہوا اورپہاڑی دشوار گذار دروں کو بے کرتا ہوا کسودا کے میدان میں نمودار ہوا،اس میدان میں ایک چھوٹی سی ندی سشنتز ا نامی بہتی ہے،اس کے شمالی جانب عیسائی کیمپ تھا،دوسری جانب ۲۶ اگسٹ ۱۳۸۹ءمطابق ۷۹۲ھ کو سلطان مراد نے جاکر قیام کیا،عیسائیوں نے جب مسلمانوں کے لشکر کو اپنے آپ سے تعداد اورسامان میں چوتھائی کے قریب دیکھا تو ان کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے،عیسائی اس میدان میں پہلے سے مقیم اورتازہ دم تھے،مسلمان یلغار کرتے ہوئے وہاں پہنچے تھے اوردشوار گذار راستوں نے ان کو تھکادیا تھا، عیسائیوں کے لیے یہ علاقہ نیا اور اجنبی نہ تھا،کیونکہ اس علاقے کے باشندے ان کے دوست اورہم قوم ومذہب اور ہر طرح معین و مدد گار تھے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ ملک غیر اوراجنبی تھا، جس روز شام کو سلطانی لشکر میں پہنچا ہے اس کی شب میں دونوں لشکروں میں مجالس مشورت منعقد ہوتی رہیں، عیسائیوں میں سے بعض سرداروں کی رائے ہوئی کہ اسی وقت رات کو شب خون مار کر مسلمانوں کا کام تمام کردیا جائے، لیکن چونکہ عیسائیوں کو اپنی فتح کا کامل یقین تھا، اس لیے ان کے دوسرے سرداروں نے اس رائے کی محض اس لئے مخالفت کی کہ رات کی تاریکی میں مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو بچ کر نکل جانے اور بھاگنے کا موقع مل جائے گا، حالانکہ ہم ان میں سے ایک متنفس کو بھی زندہ چھوڑنا نہیں چاہتے، اوریہ مقصددن کی روشنی ہی میں خوب حاصل ہوسکے گا،ادھر عیسائیوں کی کثرت دیکھ کر مسلمان مرعوب تھے،سلطان نے مجلس مشورت منعقد کی تو بعض سرداروں نے مشورہ دیا کہ بار برداری کے اونٹوں کی قطار فوج کے سامنے نصب کی جائے تاکہ زندہ فصیل کا کام دے سکے، اس سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن جب حملہ آور ہوگا تو اس کے گھوڑے اونٹوں کو دیکھ کر بدکیں گے اوراس طرح ان کی صفوں کا نظام قائم نہ رہ سکے گا، اس رائے کو سن کر سلطان کے بڑے بیٹے با یزید یلدرم نے مخالفت کی اورکہا کہ یہ ضعف اورخوف کی علامت ہے ہم ایسی کمزور اور پست ہمتی پیدا کرنے والی تدبیر پر عمل کرنا ہر گز مناسب نہیں سمجھتے ہم کو دشمن سے کھلےمیدان میں دو دو ہاتھ کرنے ہیں غرض اسی قسم کی باتیں پیش ہوتی رہیں اورسلطان اپنی کوئی مستقل رائے قائم نہ کرسکا، ادھر سلطان نے دیکھا کہ ہوا بڑے زور سے چل رہی ہے،دشمن کی پشت کی جانب سے ہوا کے جھونکے آتے ہیں اور مسلمانوں کے چہرے پر آندھی اورغبار کے تھپڑے لگتے ہیں،یہ علامت مسلمانوں کے لئے بے حد نقصان رساں تھی، اپنی قلت تعداد اورکمزوری کو دیکھ کر سلطان مراد خان نے خدائے تعالیٰ کی جناب میں دعا والتجا کرنی شروع کی صبح تک رو رو کر خدائے تعالیٰ سے دعائیں مانگتا رہا کہ الہی کفر واسلام کا مقابلہ ہے تو ہمارے گناہوں پر نظر نہ کر ؛بلکہ اپنے رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم اوردین متین کی لاج رکھ لے،ان دعاؤں نے رحمت باری تعالی کو اپنی طرف متوجہ کیا اورصبح ہوتے ہی بارش شروع ہوئی،گرد وغبار دب کر موسم نہایت خوشگوار ہوگیا، تھوڑی دیر کے بعد بارش اورہوا رکی،طرفین سے صفوفِ جنگ آراستہ ہوئیں،سلطان مراد خان نے اپنے یورپی علاقے کے جاگیر داروں کی فوج کے دستے میمنہ پر متعین کئے اورشہزادہ بایزید یلدرم کو ان کی سرداری سپرد کی،میسرہ میں ایشائی علاقوں کی فوج متعین کرکے شہزادہ یعقوب کو اس کی سرداری پر مامور کیا،قلب میں سلطان مراد خان خود اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ قائم ہوا اوربے قاعدہ سواروں،پیدیوں اورقراولی جنگ کرنے والے دستوں کو آگے بطور ہر اول مختلف ٹولیوں میں بڑھادیا، ادھر عیسائی لشکر کے قلب کی فوج سرویا کے بادشاہ لازرس کے زیر کمان تھی اوراس کا بھتیجا دستِ راست کا افسر اورشاہ بوسینیا دست چپ کی فوج کا سپہ سالار تھا، دونوں جانب کی فوجیں نہایت مستعدی جوش وخروش کے ساتھ آگے بڑھیں اورایک دوسرے کے قریب پہنچ کر مصروفِ جنگ ہوئیں،دوپہر تک نہایت پامردی اورجواں مردی کے ساتھ طرفین نے جم کر داد شجاعت دی اور فتح وشکست کی نسبت کوئی فیصلہ نہ ہوسکا،آخر سلطان کے بیٹے یعقوب کی فوج میں آثار پریشانی ظاہر ہوئے اور وہ قلب کی جانب پسپا ہونے لگی،یہ دیکھ کر سلطان مراد خان اس طرف خود متوجہ ہوا اورپراگندہ ہونے والی صفوں کو پھر درست کرکے مقابلہ پر جمادیا، اس روز سلطان مراد خان ایک آہنی گرز ہاتھ میں لئے ہوئے تھا اوروہ اپنے اسی گرز سے ہر مقابلہ پر آنے والے کو مار گرادیتا تھا، مقابلہ خوب تیزی سے جاری تھا اور میدان میں کشتوں کے پستے لگ رہے تھے کہ عیسائی لشکرپر شکست کے علامات ظاہر ہونے شروع ہوئے اوراسلامی بہادروں کے سامنے عیسائی فوج کے قدم اکھڑے، مسلمانوں نے نہایت پرجوش حملے شروع کردیئے اورعیسائیوں کے سپہ سالار اعظم یعنی شاہ سرویا کو گرفتار کرلیا،اس میدان میں لاکھو عیسائی مقتول اورقریباً تمام ان کے بڑے بڑے سردار گرفتار ہوگئے،شاہ سرویا جب مقید مراد خان کے سامنے لایا گیا تو سلطان نے اس کو بحفاظت قید رکھنے کا حکم دیا، عین اس حالت میں جب کہ عیسائی میدان کو خالی کررہے تھے اوران کو کامل شکست حاصل ہوچکی تھی،سرویا کے ایک سردار کی روماہ بازی نے مسلمانوں کی اس فتح عظیم کو مسرت کو منغص کردیا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سرویا کے اس سردار نے مفرورین کے بھاگتے ہوئے ابنوہ میں سے لوٹ کر اپنے گھوڑے کا رخ مسلمانوں کی طرف پھیرا، اورتعاقب کرنے والے مسلمانوں سے کہا کہ مجھ کو زندہ گرفتار کرلو اوراپنے بادشاہ کے پاس لے چلو،میں خود عیسائیوں سے متنفر ہوکر اپنے آپ کو تمہارے ہاتھ میں گرفتار کراتا ہوں کیونکہ مجھ کو سلطان سے بعض اہم اورنہایت ضروری راز کی باتیں عرض کرنی اوردین اسلام قبول کرنا ہے،مسلمانوں نے اس کو زندہ گرفتار کرلیا اوربعض فتح جب کہ سلطان کے سامنے کاص خاص قیدی پیش ہو رہے تھے اس سردار کو بھی پیش کیا اور ساتھ ہی اس کی خواہش اورگرفتاری کے واقعہ کو بھی عرض کردیا ،سلطان نے خو ہوکر اس کو اپنے قریب بلایا، اس نے نہایت ادب کے ساتھ آگے بڑھ کر سلطان کے پاؤں پر اپنا سررکھ دیا،جس سے سلطان اوراس کے درباریوں کو اوربھی زیادہ اس کی اطاعت وفرماں برداری اوراس کے قول کی صداقت کا یقین ہوگیا،اس کے بعد اس عیسائی سردار نے سلطان کے پاؤں پر سے اپنا سر اٹھایا اوراپنے کپڑوں میں سے ایک پیش قبض نکال کر نہایت پھرتی کے ساتھ سلطان کے سینہ پر وار کیا جس سے شدید زخم آیا اورحاضرین دربار نے فوراً اس سروین روباہ کو تکا بوٹی کرڈالا، سلطان کویقین ہوگیا کہ اس زخم شدید سے جانبری ممکن نہیں؛چنانچہ اس نے حکم دیا کہ شاہ سرویا کو قتل کردیا جائے،اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی اور ذرا ہی دیر کے بعد سلطان مراد خان نے جامِ شہادت نوش کیا، اس طرح ۲۷ اگست ۱۳۸۹ ھ میں کسودا کے میدان میں یورپ کی متحدہ طاقت کوپامال کرنے کے بعد جب کہ سلطان مراد خان نے وفات پائی تو سردارانِ لشکر نے سلطان کے بڑے بیٹے بایزید خان یلدرم کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کو اپنا سلطان بنایا، جنگ کسودا اس لیے بھی دنیا کی عظیم الشان لڑائی سمجھی جاتی ہے کہ اس لڑائی نے ثابت کردیا کہ عثمانیوں کو تمام یورپ مل کر بھی اب یورپ سے نہیں نکال سکتا، ساتھ ہی اس لڑائی نے صلیبی لڑائیوں اور چڑھائیوں کا بھی کاتمہ کردیا، کیونکہ عیسائیوں کو اب اپنے ہی گھر کی فکر پڑ گئی اور شام کے فتح کرنے کا خیال ان کے دماغوں سے نکل گیا،اس لڑائی نے اس امر کو بھی ثابت کردیا کہ عیسائیوں کی یہ شکست دنیا کی عظیم الشان شکستوں میں شمار ہوتی ہے،سلطنتِ عثمانیہ کی اس فتح نے یورپ میں عثمانیوں کے قدم مستقل طور پر جمادئیے، ادھر اسپین و فرانس کے عیسائی جو غرناطہ کی اسلامی سلطنت کو معدوم کرنے پر آمادہ تھے کچھ سہم سے گئے اورغرناطہ کے مسلمانوں کو بعض سہولتیں خود بخود میسر ہوگئیں۔ سلطان مراد خان نے ۴۵ سال سلطنت کی اور ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی،اس کے بیٹے بایزید خاں بلدرم نے باپ کی لاش کو بروصہ میں لاکر دفن کیا، سلطان مراد خان نہایت عقلمند،باہمت عالی حوصلہ ،صوفی مشرب، درویش سیرت،عابد زاہد اورباخدا شخص تھا۔