انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ولید بن عبدالملک ابوالعباس ولید بن عبدالملک بن مروان سنہ۵۰ھ میں پیدا ہوا اور ۳۶/سال کی عمر میں اپنےہ باپ عبدالملک بن مروان کی وفات کے بعد دمشق میں تختِ خلافت پربیٹھا؛ چونکہ نہایت نازونعمت کا پلا ہوا تھا؛ لہٰذا علم وفضل سے بے بہرہ اور پڑھنے لکھنے میں بہت ہی ناقص تھا، عبدالملک کے کفن دفن سے فارغ ہوکر اس نے جامع مسجد دمشق میں آکرخطبہ دیا اور بیان کیا کہ: لوگو! جس کواللہ تعالیٰ نے مقدم کیا اس کوکوئی مؤخر نہیں کرسکتا اور جس کواللہ تعالیٰ نے مؤخر کیا اس کوکوئی مقدم نہیں کرسکتا، موت اللہ تعالیٰ کے علم قدیم میں تھی جس کواس نے انبیاء وصلحاء سب کے لیے لازم کردیا ہے، خدائے تعالیٰ نے اب اس اُمت کا ولی ایک ایسے شخص کوبنادیا ہے جومجرموں پرسختی اور اہلِ فضل واہلِ حق پرنرمی کرنے اور حدودِ شرعیہ کوقائم کرنے رکھنے کا عزم کرتا ہے اور وہ خانہ کعبہ کے حج اور سرحدوں پرجہاد یعنی دشمنانِ دین پرحملے کرتے رہنے کا عازم ہے، اس کام میں نہ وہ سستی کرنا چاہتا ہے نہ حد سے تجاوز کرنے کواچھا جانتا ہے، لوگوٍ! تم خلیفہ وقت کی اطاعت کرو اور مسلمانوں میں اتفاق کوقائم رکھو، یادرکھو جوسرکشی کرے گا اس کا سرتوڑ دیا جائے گا اور جوخاموش رہے گا وہ اپنے مرض میں خود ہی ہلاک ہوجائے گا۔ اس کے بعد لوگوں نے اس کے ہاتھ پربیعت خلافت کی، ولید نے خلیفہ ہوکر حجاج کے اختیار واقتدار کوبدستور قائم رکھا، حجاج نے قتیبہ بن مسلم باہلی کوجورے کا حاکم تھا مفضل بن مہلب کی جگہ خراسان کا گورنرمقرر کیا اور قتیبہ بن مسلم نے چین اور ترکستان تک مہم فتوحات حاصل کیں، مغرب کی جانب موسیٰ بن نصیر گورنرافریقہ نے اسلامی فتوحات کومراقش سے گزرکر اندلس تک پہنچایا، ولید کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے رومیوں کے مقابلے میں بہت سے شہر وقلعے فتح کیے۔ محمد بن قاسم بن محمد ثقفی نے جوحجاج کا قریبی رشتے دار یعنی بھتیجا اور داماد تھا، سندھ وہند کی طرف فتوحات حاصل کیں، ولید نے اپنے چچازاد بھائی حضرت عمر بن عبدالعزیز کومدینہ منورہ کا عامل وحاکم مقرر کیا، سنہ۸۷ھ میں ولید نے جامع مسجد دمشق کی توسیع وتعمیر کی اور اسی سال حضرت عمربن عبدالعزیز کے زیراہتمام مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کوازسرنوتعمیر کرایا اور ازواجِ مطہرات کے حجروں کوبھی مسجد میں شامل کرکے اس کووسیع کیا، مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے قیصر روم نے بھی بہت سے قیمتی پتھر اور ہوشیار معمار ہدیۃً ولید کے پاس بھیجے، ولید نے رفاہِ خلائق کے بہت سے کام کئے سڑکیں نکلوائیں، شہروں اور قصبوں میں مدرسے جاری کیے، سرائیں بنوائیں، کنوئیں کھدوائے، شفاخانے کھلوائے، راستوں کے امن وامان اور مساروں کی حفاظت کا انتظام کیا، مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی، وہاں ایک نہر لاکر اہلِ مدینہ کی اس تکلیف کودور کیا، محتاج خانے قائم کیے، رعایا کی تکلیف دور کرنے اور لوگوں کوراحت پہنچانے کا اس کوبہت خیال تھا، اس کے عہد حکومت میں ہرطرف فتوحات کا سلسلہ برابر جاری رہا اور کوئی اندرونی بغاوت اور فتنہ وفساد جوقابل تذکرہ ہو نمودار نہیں ہوا، مسلمانوں کی پیہم فتوحات لوگوں کوفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا زمانہ یاد دلاتی تھیں، ولید نے فقرأ وفقہا اور علماء کے روزینے اس قدر مقرر کیے کہ وہ سب فارغ البال وخوش حال رہنے لگے، رفاہِ رعایا کے لیے اس نے نہایت مفید ضابطے اور قاعدے مقرر کیے۔ ولید نے ہشام بن اسماعیل مخزومی کوامارتِ مدینہ سے معزول کرکے جب عمربن عبدالعزیز کومدینہ کا عامل مقرر کیا توعمر بن عبدالعزیز نے سب سے پہلا کام مدینہ کی امارت اپنے ہاتھ میں لے کریہ کیا کہ فقہائے مدینہ میں دس اعلیٰ درجہ کے عالموں کومنتخب کیا جن میں مدینہ کے فقہائے سبعہ بھی شامل تھے، ان دس آدمیوں کی ایک مجلس بناکر اس مجلس کے مشورہ سے ہر ایک کام کوانجام دینے لگے اس مجلس کے ارکان کواپنی حکومت میں شریک کرکے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک ایسی اچھی مثال عمالِ سلطنت کے لیے قائم کی کہ اہلِ مدینہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تقرر پرولید بن عبدالملک کی خدمت میں شکرگزاری کے خطوط بھیجے اور خلیفۂ وقت کودُعائیں دیں۔ ولید بن عبدالملک کی تخت نشینی کے بعد ہی حجاج نے یزید بن مہلب اور اس کے بھائیوں کوقید کردیا اور ان پرغبن کا الزام لگایا۔ سنہ۸۷ھ میں مسلمہ بن عبدالملک نے بلادروم پربراہِ مصیصہ چڑھائی کی اور قلعہ لولق، اخرم بولس اور قمقیم وغیرہ کوفتح کیا، سنہ۸۸ھ میں جرثومہ اور طوانہ مفتوح ہوئے۔ سنہ۸۹ھ میں مسلمہ بن عبدالملک اور عباس بن ولید نے بلادِروم پرحملہ کیا، رومیوں کے ایک ٹڈی دل نے ان کا مقابلہ کیا؛ لیکن مسلمانوں کی فوج نے ہرمقام پران کوشکست دے کرپسپا کیا، قلعہ سوریا قلعہ اردولیہ، عموریہ، ہرقلہ، قمولیہ وغیرہ مسلمانوں نے فتح کرلیے؛ اسی سال مسلمہ بن عبدالملک نے آذربائیجان کی طرف ترکوں پرحملہ کرکے بہت سے شہروں اور قلعوں کوفتح کیا؛ اسی سال جزیرۂ منورقہ ومبورقہ مفتوح ہوئے۔ سنہ۹۰ھ میں عباس بن ولید نے سوریہ کے علاقہ میں پانچ زبردست قلعے تعمیر کئے۔ سنہ۹۱ھ میں ولید نے اپنے چچا محمد بن مروان کوجزیرہ وارینیا کی گورنری سے معزول کرکے اس کی جگہ اپنے بھائی مسلمہ بن عبدالملک کومامور فرمایا، مسلمہ بن عبدالملک نے براہ آذربائیجان ترکوں پرجہاد کیا اور مقامِ باب تک فتح کرتا ہوا چلا گیا؛ اسی سال نسف، کش، شومان وغیرہ کے قلعے مسلمانوں نے فتح کیے۔ سنہ۹۲ھ میں مسلمہ بن عبدالملک نے تین قلعے فتح کیے اور اہل سرسنہ کوبلادِ روم کی طرف جلاوطن کردیا؛ اسی سال سندھ میں دیبل فتح ہوا؛ اسی سال کرخ، برہم، باجہ، بیضا، خوارزم، سمرقند اور ضعد فتح ہوئے۔ سنہ۹۳ھ میں مسلمہ بن عبدالملک اور عباس ومروان پسرانِ ولید نے بلادِ روم کی طرف حملہ کیا اور سبیطلہ، حنجرہ، ماشہ، حصن الحدید، غزالہ، ملطیہ وغیرہ کوفتح کرلیا۔ سنہ۹۴ھ میں عباس بن ولید نے انطاکیہ اور عبدالعزیز بن ولید نے غزالہ دوبارہ فتح کیا؛ اسی سال ولید بن ہشام معیطی مروج الحمام تک اور یزید بن ابی کبشہ سرزمین سوریہ تک فتح کرتا ہوا چلا گیا؛ اسی سال کابل، فرغانہ، شاش، سندھ وغیرہ مفتوح ہوئے۔ سنہ۹۵ھ میں ہرقلہ والوں نے عساکرِاسلامیہ کودوسری طرف مصروف دیکھ کرسرکشی وبغاوت اختیار کی اور عباس بن ولید نے دوبارہ اس کوفتح کیا؛ اسی سال موقان اور مدنیۃ الباب وغیرہ مفتوح ہوئے۔ سنہ۹۶ھ میں طوس اور اس کا علاقہ مفتوح ہوا۔ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں جس قدر لڑائیاں اور جہاد ہوئے ان سب کے تفصیلی حالات اگربیان کیے جائیں تواس مختصر کتاب کی کئی جلدیں ولید ہی کے عہد خلافت میں ختم ہوجائیں گی؛ لہٰذا اختصار کومدنظررکھتے ہوئے عہدولیدی کے چند نامور فتح مندسرداروں کے کارنامے بطورِ اشارات درج کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ولید بن عبدالملک کے زمانہ کی حالت اور اس زمانے کے عالمِ اسلام کا اندازۃ کرنے میں اس کتاب کے مطالعہ کرنے والوں کوکسی قدرآسانی رہے، مسلمہ بن عبدالملک بھی عہدولید کے فتح مند سرداروں میں شامل ہے، جس کی فتوحات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اب باقی نامور سرداروں کے حالات ملاحظہ ہوں۔