انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** منافقین کی شرارت ابھی کوئی دو یا دیڑھ میل چلے ہوں گے کہ ان ایک ہزار آدمیوں میں سے عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر مدینہ کی طرف واپس چلا آیا اورکہہ دیا کہ ہماری رائے پر چونکہ عمل درآمد نہیں ہوا اس لئے ہم مدینہ سے باہر جاکر نہیں لڑیں گے،ان تین سو منافقوں کے جدا ہوجانے سے مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سات سو میں سے چھوٹی عمر کے لڑکوں کو بھی واپس کردیا اورکچھ تھوڑا ہی دن باقی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے تین میل چل کر احد کی پہاڑی کے دامن میں پہنچ گئے،وہاں دیکھا کہ کفار بھی پہنچ کر خیمہ زن ہوگئے ہیں،چونکہ شام ہوگئی تھی اس لئے طرفین سے کوئی آمادگی مقابلہ کی ظاہر نہیں ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کی پہاڑی کو پسِ پشت رکھ کر اپنا کیمپ قائم کیا،رات خموشی سے گذار کر اگلے دن ۱۵ شوال بروز شنبہ ۳ھ کو میدانِ کارزار گرم ہوا، لڑائی سے پیشتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کا دستہ عبداللہ بن جبیرؓ انصاری کی سرکردگی میں پس پشت کی گھاٹی پر تعینات فرمادیا اور ان تیر اندازوں کو حکم دے دیا کہ خواہ کوئی حالت پیش آئے جب تک تم کو دوسرا حکم نہ دیا جائے،اپنے مقام کو ہرگز نہ چھوڑنا،بات یہ تھی کہ اس گھاٹی میں ہوکر اور گھوم کر دشمن مسلمانوں کے عقب سے حملہ آور ہوسکتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ کے اس نازک مقام کو فوراً تاڑلیا تھا اس لئے دشمن کے اس اچانک حملہ کی روک کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تیر انداز متعین فرمادئے تھے۔ صفوفِ جنگ آراستہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمنہ پر زبیرؓ بن العوام کو اورمیسرہ پر منذرؓ بن عمرو کو مامور فرمایا،حضرت حمزہؓ کو مقدمۃ الجیش مقرر فرمایا حضرت مصعبؓ بن عمیر کو علم دیا گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار حضرت ابو دجانہؓ کو دی وہ اس تلوار کو لے کر نہایت مسرت کی حالت میں اکڑ کر میدانِ جنگ میں پھرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چال خدا کو ناپسند ہے مگر کفار کے مقابلے میں میدانِ جنگ کے اندر اس طرح چلنا جائز ہے، دوسری طرف قریش نے اپنی صفوفِ جنگ کو آراستہ کیا،انہوں نے سو سواروں کی سرداری خالد بن ولیدؓ (یہ ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے) کو دے کر میمنہ پر تعینات کیا،اور سو سوار عکرؓ بن ابو جہل ( یہ بھی ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے)کودے کر میسرہ پر مقرر کیا، بنی عبد الدار میں قدیم الایام سے قریش میں علم برداری چلی آتی تھی،ابو سفیان نے بنی عبدالدار کو جوش دلانے کے لئے کہا کہ تم اگرچہ قدیم سے قریش میں علم برداری پر مامور ہولیکن جنگِ بدر میں تمہاری علم برداری کی جو نحوست ظاہر ہوئی وہ مجبور کرتی ہے کہ علم برداری کسی دوسرے کو سپرد کردیں،اگر تم وعدہ کرو کہ علم برداری کی نازک خدمات بخوبی انجام دو گے تو علم اپنے پاس رکھو ورنہ واپس کردو،بنو عبدالدار نے علم نہیں دیا اورانتہائی بہادری دکھانے کا وعدہ کیا ان مذکورہ دو سو سواروں کے علاوہ لشکرِ قریش میں دو سو گھوڑے اورتھے جو وقتِ ضرورت کے لئے محفوظ تھے،مشرکین کے تیر اندازوں کا سردار عبداللہ بن ربیعہ تھا،اُدھر کم از کم تین ہزار باساز وسامان جرار لشکر تھا،جو قریش اور دوسرے قبائل کے انتخابی بہادروں اورتجربہ کار جاں بازوں پر مشتمل تھا ادھر صرف سات سو یا سات سو سے بھی کچھ کم آدمی آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج میں تھے جن میں پندرہ سال کی عمر تک کے لڑکے بھی شامل تھے،لشکرِ اسلام میں صرف دو گھوڑے تھے،غرض تعداد مسلمان کفار کے مقابلہ میں چوتھائی سے بھی کم تھے اورسامانِ جنگ میں تو عشر عشیر بھی نہ تھے۔