انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اتمام حجت لوگو جلدی نہ کرو، پہلے میرا کہنا سن لو اورمجھ پر سمجھا نے کا جو حق ہے اسے پورا کرلینے دواورمیرے آنے کا عذر بھی سن لو پھر اس کے بعد تمہیں اختیار ہے اگر میرا عذر قبول کرلو گے میرا کہنا سچ مانوں گے اورانصاف سے کام لوگے تو خوش قسمت ہوگے اور تمہارے لئے میری مخالفت کی کوئی سبیل باقی نہ رہے گی اوراگر تم نے میرا عذر قبول نہ کیا اور انصاف سے کام نہ لیا تو: فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ (یونس:۷۱) پس تم اورتمہارے شریک سب مل کر اپنی ایک بات ٹھہرالو تاکہ تمہاری وہ بات تم میں سے کسی کے اوپر مخفی نہ رہے،تم میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرڈالو اورمجھے مہلت نہ دو، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ (الاعراف:۱۹۶) میرا والی اللہ ہے،جس نے کتاب نازل کی اوروہی صالحین کا ولی ہوتا ہے۔ آپ کی بہنوں اورصاحبزادیوں نے یہ تقریر سنی تو خیمہ امامت میں ماتم بپا ہوگیا، ان کے رونے کی آوازیں سن کر آپ نے عباسؓ اورعلی کو بھیجا کہ جاکر انہیں خاموش کردو، میری عمر کی قسم ابھی ان کو بہت رونا ہے، بہنوں اورلڑکیوں کو خاموش کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر آخری اتمامِ حجت کے لئے کوفیوں کے سامنے تقریر فرمائی کہ: لوگو!میرے نسب پر غور کرو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر اپنے کو ملامت کرو،خیال کرو کہ میرا قتل اور میری آبروریزی تمہارے لئے زیبا ہے ؟کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا لڑکا اوراس کے وصی،ابن عم، خدا پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اس کے رسول اوراس کی کتاب کی تصدیق کرنے والے کا ،فرزند نہیں ہوں؟ کیا سید الشہدا حمزہ میرے باپ کے اورجعفر طیار ذوالجناحین میرے چچا نہ تھے؟ کیا تم کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اورمیرے بھائی کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ دونوں جو انان جنت کے سردار ہوں گے، اگر میں سچ کہتا ہوں اوریقیناً سچ کہتا ہوں ؛کیونکہ جب سے مجھے معلوم ہوا کہ جھوٹے پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اس وقت سے میں عمداً جھوٹ نہیں بولا اوراگر مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو تم میں اس کے جاننے والے موجود ہیں، ان سے اس کی تصدیق کرلو، جابر بن عبداللہ انصاری،ابو سعید خدری،سہل بن احمد ساعدی،زید بن ارقم،انس بن مالکؓ ابھی زندہ ہیں ان سے پوچھو یہ تمہیں بتائیں گے کہ انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا ہے، مجھے بتاؤ کیا اس فرمان میں میری خون ریزی کیلئے کوئی روک نہیں۔ اس تقریر کے دوران میں شمرذی الجوشن نے حضرت حسینؓ کے ایمان پر چوٹ کی ،حبیب ابن مظاہر نے اس کا دندان شکن جواب دیکر کہا کہ امام جو کچھ فرماتے ہیں اس کو تونہیں سمجھ سکتا ؛کیونکہ خدانے تیرے قلب پر مہر لگادی ہے، ذی الجوشن کے اعتراض اورحبیب کے جواب کے بعد جناب امام نے پھر تقریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا: خیراگر تم کو اس میں کچھ شک ہے تو اسے جانے دو لیکن کیا اس میں بھی کچھ شبہ ہے کہ میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں، خدا کی قسم آج مشرق سے لیکر مغرب تک روئے زمین پر تم میں اور کسی غیر قوم میں بھی میرے سوا کسی نبیﷺ کا نواسہ موجود نہیں ہے، میں خاص تمہارے نبی کی لڑکی کا بیٹا ہوں، مجھے بتاؤ تم لوگ میرے خون کے کیوں خواستگار ہو، کیا میں نے کسی کو قتل کیا ہے؟ کسی کا مال ضائع کیا ہے؟ کسی کو زخمی کیا ہے، ان نصائح اورسوالات کو سن کر سب خاموش رہے،کسی نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے بعد آپ نے نام لے لےکر سوالات شروع کئے، اے شیث بن ربعی! ،اے حجار بن اجبر، اے قیس بن اشعث، اے یزید بن حارث کیا تم نے مجھ کو نہیں لکھا تھا، پھل پک چکے ہیں ،کھجوریں سرسبز ہیں، دریا جوش میں ہیں فوجیں تیار ہیں، تم فوراً آؤ، ان لوگوں نے جواب دیا! ہم نے نہیں لکھا تھا، فرمایا سبحان اللہ ،خدا کی قسم تم نےلکھا تھا، لوگو! اگر تم کو میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے چھوڑ دو تاکہ میں کسی پر امن خطہ کی طرف چلاجاؤں ،اس پر قیس بن اشعث بولا، تم اپنے بنی عم کا کہنا کیوں نہیں مان لیتے، ان کی رائے تمہارے مخالف نہ ہوگی اور ان کی جانب سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہ ہوگا ،حضرت حسینؓ نے فرمایا، کیوں نہیں ،آخر تم بھی تو اپنے بھائی کے بھائی ہو، تم کیا چاہتے ہو کہ بنو ہاشم مسلم بن عقیل کے خون کے علاوہ تم سے اوردوسرے خون کے بدلہ کا بھی مطالبہ کریں، خدا کی قسم میں ذلیل کی طرح اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دوں گا اور غلام کی طرح اس کا اقرار نہیں کروں گا، (طبری :۷/۳۲۹،۳۳۰)اور یہ آیت تلاوت فرمائی: وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ (الدخان:۲۰) اور میں اپنے اورتمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھ کو سنگسار کرو إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ (غافر:۲۷) میں اپنے اورتمہارے رب سے ہر مغرور و متکبر سے جو قیامت پر ایمان نہیں رکھتا پناہ مانگتا ہوں۔