انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جانشینی کی فکر حضور اکرم ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی سقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار جمع ہو گئے، جہاں حضورﷺ کی جانشینی اور خلافت کا سلسلہ زیر بحث تھا، حضرت سعد ؓ بن عبادہ صدر نشین تھے، اُدھر حضرت فاطمہؓ کے گھر میں حضرت علیؓ ، حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ آپس میں مشورہ کر رہے تھے، مہاجرین کی بڑی تعداد حضرت ابو بکرؓ کے پاس جمع تھی ، جن میں گروہ انصارسے بنو عبدالاشہل کو لے کر حضرت اسیدؓ بن حضیر شامل ہو گئے، اطلاع ملی کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع انصار حضرت سعد ؓ بن عبادہ کی بیعت پر مائل ہیں کیونکہ غزوات میں انصار کا علم اکثر ان ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا، یہ اطلاع جب حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو ہوئی تو اس خوف سے کہ کہیں ملت میں افتراق نہ پیدا ہو جائے، دونوں حضرات ابو عبیدہؓ بن الجراح کو لے کر سقیفہ بنو ساعدہ روانہ ہوئے، راستہ میں دو شریف انصاری حضرت عدیم ؓ بن ساعدہ اور حضرت معن ؓ بن عدی ملے، انھوں نے بتایا کہ انصار ایک معاملہ میں متفق ہو چکے ہیں، تم ان کے پاس نہ جاؤ بلکہ اپنے معاملات خود طئے کر لو، حضرت ابو بکرؓ نے کہا نہیں ہم ان سے ضرور ملیں گے، حضرت سعدؓ بن عبادہ بیمار تھے اور چادر اوڑھے سب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، ان کے خطیب نے حمدو ثنا کے بعد کہا کہ ہم اللہ کے انصار اور اسلام کالشکر ہیں، مہاجرین ایک جماعت بن کر ہمارے پاس آئے، اب ان کا ارادہ ہماری جڑیں کاٹ کر امارت غصب کرنے کا ہے، حضرت عمرؓ اس کا جواب دینے کے لئے اٹھنے والے تھے کہ حضرت ابو بکرؓ نے روک دیا، خود کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا ء و صلوٰۃ کے بعد پہلے مہاجرین کے فضائل اور اسلام کے لئے ان کی غیر معمولی قربانیاں اور حضور اکرم ﷺ سے قرابت کا ذکر کیا، اس کے بعد فرمایا، ائے انصار ! تم اپنے متعلق جو کچھ کہتے ہو بے شک تم ان فضائل کے حامل ہو ، آنحضرت ﷺ سے تمہارا تعلق بھی بہت گہرا ہے لیکن عرب اس معاملہ میں سوائے قریش کے کسی اور کی اطاعت قبول نہیں کریں گے، انصار نے کہا کہ اچھا ہم میں سے ایک امیر ہو اور تم میں سے ایک ، حضرت ابو بکرؓ نے کہا ، نہیں بلکہ ہم میں سے امیر ہو ں اور تم میں سے وزیر ہو، اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ، ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو ، شور و غل بڑھنے لگا ، حضرت خبابؓ بن منذر نے اعتراض کیا تو حضرت عمرؓ نے بڑھ کر حضرت ابو بکرؓ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہم میں آپ سب سے بہترین ہیں ، ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں ، حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کی تائید کی اور انصار میں سے حضرت بشیرؓ بن سعد کو سب سے پہلے بیعت کا شرف حاصل ہوا، پھر تمام مہاجرین و انصار نے بیعت کی ، اسلام کی بقا کا یہ نازک مرحلہ حضرت ابو بکرؓ کے حسنِ تدبر سے سلجھ گیا ، اس سے فراغت پا کر لوگ حضورﷺ کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوگئے، اپنی تجہیز و تکفین کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے ایک ماہ قبل ہی واضح احکامات دیدئے تھے، اب سوال یہ پیدا ہوا کہ آپﷺ کو کہاں سپرد خاک کیا جائے ، ایک تجویز یہ پیش ہوئی کہ مسجد نبوی میں منبر یا مصلے کی جگہ دفن کیا جائے ، دوسری تجویز یہ تھی کہ حضور ﷺ کو دیگر صحابہؓ کے ساتھ جنت البقیع میں سپرد خاک کیا جائے، حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺسے سنا ہے کہ ہر نبی اس جگہ دفن ہوئے جہاں ان کی روح قبض ہوئی ہے، چونکہ آپﷺ کی وفات حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں ہوئی تھی اس لئے وہیں دفن کرنا طئے کیا گیا، مدینہ میں قبر کھود نے میں دو افراد ماہر تھے، ایک حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح جو مکی طرز پر شق (سیدھی قبر ) کھودتے تھے، دوسرے حضرت ابو طلحہؓ زیدبن سہل انصاری جو اہل مدینہ کی طرز کی قبر (بغلی قبر ) کھود تے تھے، مشورہ میں طئے ہوا کہ ان میں سے جو پہلے آئے وہ یہ کام انجام دے ، حضرت عباسؓ نے دو آدمی روانہ کئے ، حضرت ابو طلحہؓ پہلے آئے اور انہیں لحدتیار کرنے کا شرف حاصل ہوا ، قبر میں (۹) کچی اینٹیں بچھائی گئیں ، یہ بھی لکھا ہے کہ کچی اینٹوں سے لحد کو بند کیا گیا،