انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قریش کا مذہب قریش کا مذہب اگرچہ مذہب ابراہیمی تھا،لیکن اصنام پرستی ان میں اس قدر چھاگئی تھی کہ دین حنیف کے تمام خط وخال بالکل دھندلے ہوکر رہ گئے تھے اوران کا پہچاننا مشکل تھا، مکہ کی پاک اورمقدس سرزمین میں بت پرستی کا سب سے پہلا بانی عمروبن لحیی ہے یہ ایک مرتبہ کسی ضرورت سے شام گیا،وہاں ایک شہر میں لوگوں کو بت پوجتے دیکھا، توپوچھا کہ ان کو کیوں پوجتے ہو، انہوں نے کہا یہ ہمارے معبود ہیں ہم ان کی پرستش کرتے ہیں، اس کے صلہ میں یہ پانی برساتے ہیں اورہر قسم کی امداد کرتے ہیں، عمروبن لحیی نے کہا، لاؤ ہم کو بھی دو ہم اپنے یہاں لے جا کر ان کی پرستش کریں گے، لوگوں نے ہبل نامی بت اس کو دے دیا، جس کو لاکر اس نے مکہ میں نصب کیا اور لوگوں کو اس کی پرستش کی ترغیب دینا شروع کردی،(سیرۃ ابن ہشام :۱/۴۷ مطبوعہ مصر)اس بڑے بت کے علاوہ عمرو بن لحیی نے چند چھوٹے چھوٹے بت بھی خانہ کعبہ کے گرد نصب کر دیے اور مناۃ کو مکہ اورمدنیہ کے درمیان مقام قدیر پر لب ساحل نصب کیا تھا،(معجم البدان :۸/۱۶۷) غرضکہ یہ وباعمروبن الحییٰ نے عام عرب میں پھیلائی،چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا ہے:"یجرقصبہ فی النار"(روض الانف :۱/۶۱)یعنی اس کی آنتیں آگ میں گھسیٹی جاتی ہیں ،قریش بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے اوران کا بھی عام مذہب یہی بت پرستی تھا، وہ متعدد بتوں کی پوجا کرتے تھے، جن میں بعض تو قریش کے مخصوص بت تھے اوربعض قریش اوردیگر قبائل میں مشترک تھے،چنانچہ اساف ونائلہ چاہ زمزم کے پاس نصب تھے اور قریش کے مخصوص بت تھے اور وہ ان کے پاس قربانی کیا کرتے تھے ان دونوں بتوں کے متعلق قریش کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ قبیلہ بنو جرہم کے مرد و عورت تھے، لیکن بعض گناہوں کے باعث پتھر کے ہوگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام :۱/۴۹ مطبوعہ مصر) لات بنو ثقیف کا بت تھا مگر قریش اورکنانہ بھی اس کی پوجا کرتےتھے،(معجم البدان:۸/۴۴۲) اس کی تاریخ یہ ہے کہ لات مکہ میں ایک پتھر تھا، جس پر حجاج کے لیے ستو گوندھاجاتا تھا اوراسی نام کا ایک شخص بھی بنی ثقیف میں تھا، وہ مرگیا ،تو لوگوں نے کہا کہ وہ مرا نہیں ،بلکہ اپنے ہم نام پتھر میں گھس گیا ہے، اس وہم سے اس کی پرستش بھی شروع ہوگئی۔ عزی بنو غطفان کا بت تھا، مگر قریش بھی اس کی پرستش کرتے تھے اورتبرکاً اسی کے نام پر نام رکھتے تھے،چنانچہ عبدالعزی قریش کا مشہور نام ہے، یہ بت بنی غطفان کے باغ میں نصب تھا ،قریش برابر وہاں تحائف لے جاتے تھے اورقربانیاں کرتے تھے۔ (معجم البدان:۱/۳۱۰) مناۃ بنو خزاعہ اورہذیل کا بت تھا مگر قریش لات اور عزی کی طرح اس کی بھی پرستش کرتے تھے،چنانچہ طواف کرتے وقت کہا کرتے تھے: واللات والعزی ومناۃ الثالثہ الاخری فانھن الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترجی، ان تینوں بتوں کو قریش اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کا اعتقاد تھا کہ قیامت کے دن یہ ان کی سفارش کریں گے، اس اعتقاد کی تردید قرآن پاک میں ان الفاظ میں آئی ہے۔ اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰىoوَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰىoاَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الْاُنْثٰىoتِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰىoاِنْ ہِىَ اِلَّآ اَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ (النجم:۱۹۔۲۳) کیا تم نے لات اورعزی اورتیسرے بت مناۃ پر نظر کی،کیا تمہارے لیے بیٹے اوراللہ کے لیے بیٹیاں ہیں، اگر ایسا ہے تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہے یہ تو نام ہی نام ہیں جن کو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے رکھ لیا ہے اللہ نے ان کے معبودہونے کی کوئی سند نہیں اتاری۔ ہبل قریش کا یہ بت خانہ کعبہ ے عین وسط میں نصب تھا اورقریش کے تمام بتوں میں سب سے زیادہ معزز مانا جاتاتھا، یہ سب سنگ سرخ کا انسانی مجسمہ تھا، اس پر انسانی قربانیاں بھی چڑھائی جاتی تھیں، چنانچہ عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ وہ جس وقت اپنے دس بیٹوں کو جوان دیکھیں گے تو ایک کو ہبل پر نذر چڑھائیں گے،(سیرۃ ابن ہشام ،جلد ۱)لڑائیوں میں ہبل کی بے پکارتے تھے،جنگ احد کے موقعہ پر جب مسلمانوں کوپسپائی ہوئی اوردشمنوں نے مشہور کردیا کہ اللہ نخواستہ آنحضرت ﷺ شہیدہوگئے تو ابوسفیان نے خوشی و مسرت میں اس کی جے کا نعرہ لگایا،(بخاری جلد ۲ کتاب الغازی باب غزوۂ احد) خانہ کعبہ کے بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ تھی جن میں حضرت اسمعیل اورحضرت ابراہیم کی مورتیں بھی شامل تھیں،(بخاری :۱ /۲۱۸)ہبل کے سامنے سات تیر رکھے ہوئے تھے جن سے شادی اورغمی وغیرہ کے موقعہ پر قریش استخارہ کیا کرتے تھے،اگر راست آتا تو وہ کام کرتےورنہ نہ کرتے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۱/۸۳) بدعاتِ حج اگرچہ قریش مذہب ابراہیمی کے پیرو تھے،مگر ابتدا زمانہ سے اس میں اس قدر تغیروتبدیل ہوگیا تھا کہ مذہب کی اصل صورت مسخ ہوکر رہ گئی تھی،چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بانی تھے، اس لیے حج ان کی تعلیمات میں راس العبادات تھا، قریش ؛بلکہ پورا عرب اس فریضہ کو ادا کرتا تھا، مگر اس کے ارکان اورطریقہ ادا میں طرح طرح کی بدعات رائج کردی تھیں، شہر حرام یعنی رجب، ذیقعدہ،ذی الحجہ اورمحرم کو ضرورت کے وقت بدل دیتے تھے، یعنی محرم کا نام بدل کر صفر رکھ دیتے اوراس میں تمام وہ باتیں جائز سمجھتے، جو شہر حرام میں جائز نہیں، حج کے مہینے میں عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے، (بخاری:۱/۴۱،باب بنیاں الکعبہ باب ایام جاہلیت )خاموش حج کرتے ،یعنی دورانِ حج میں منہ سے نہ بولتے ایک شخص دوسرے شخص کو لگالگا کر گھسیٹتا ہوا طواف کراتا، (بخاری:۱/۱۲۲،کتاب المناک)قریش اپنے کو عام حجاج سے ممتاز رکھنے کے لیے بجائے عرفات کے مزدلفہ میں ٹھہرتے،(بخاری :۱/ ۳۲۶) اسی پر یہ آیۃ نازل ہوئی، "ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ" (البقرۃ:۱۹۹) آفتاب نکلنے کے بعد افاضہ کرتے تھے،(ایضاً صفحہ ۲۲۸)حجاج بغیر متولی کی اجازت اوراس کی ابتداکے رمی جمار نہیں کرسکتے تھے، رمی جمار کے بعد بغیر متولی کے واپس ہوئے لوٹ نہیں سکتے تھے،(سیرۃ ہشام :۱/۱۶۶)طواف کے وقت "واَللَّاتَ واَلْعُزّٰی وَمَنَاۃَ الثَالِثَۃَ الْاُخْریٰ فَاْنِھُنَّ الْغرانِیْقُ العلے وان شفاعتھن لترجی "پڑھتے تھے،(معجم البدان :۶/۱۶۶) تلبیہ میں اللہ کے نام کے ساتھ ساتھ بتوں کو بھی داخل کرلیتے تھے،(سیرۃ ابن ہشام: ۱/۴۷) قرآن مجید کی اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے "وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ"(یوسف:۱۰۶)یعنی ان کے اکثر لوگ اللہپر ایمان بھی لاتے ہیں، تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں۔ قریش میں تنہا اصنام پرستی یا بدعات حج ہی نہیں رائج تھیں، بلکہ تمام وہ اخلاق ذمیمہ جن میں سارا عرب مبتلا تھا، مثلا شراب خواری،قمار بازی، دختر کشی،عیاشی ،اوہام پرستی وغیرہ وغیرہ ان سے قریش بھی مستثنی نہ تھے، بلکہ علی الاعلان نہایت فخر ومباہات سے یہ کام کرتے تھے، سوتیلی ماں لڑکے کو بطور وارثت ملتی تھی غرض کہ اس قبیل کی صدہا لغویتیں ان میں رائج تھیں ،تاہم ان برائیوں کے ساتھ ساتھ ان میں بہت سی خوبیاں تھیں، مظلوموں کی دادرسی ان کا خاص شعار تھا، حلف الفضول کا ذکر اوپر آچکا ہے، جس سے قریش کے اس شریفانہ جذبہ کا بخوبی اندازہ ہواہوگا، مہمان نوازی تو ان کی ضرب المثل تھی، موسم حج میں ہزاروں حجاج کی ضیافت کرتے تھے، ناداروں کے ساتھ نقدی سلوک بھی کرتے تھے اوراس سعادت میں قریش کا ہر فرد برابر کا حصہ لیتا تھا،(روض الائف) حجاج کے پاس کپڑا نہ ہوتا تو دیتے (بخاری :۱/۵۴۰)یہ خاطر تواضع کچھ حجاج کے ساتھ مخصوص نہ تھی، بلکہ عام مہمانوں کے لیے بھی قریش کا دسترخوان اسی طرح وسیع تھا، ایفاے عہد میں خواہ کتناہی شدید جانی ومالی نقصان کیوں نہ ہو، مگر عہد سے نہ پھرتے تھے۔ مورخ یعقوبی نے قریش کی اجمالی حالت کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے تھے، شہر حرام کی عظمت کرتے تھے، خواہش،مظالم اورقطع رحم کو براسمجھتے تھے، جرائم کا تدارک کرتے تھے، حرم کے احترام کا اس سے اندازہ ہوگا کہ قصی جو قریش کا سب سے بڑا محسن تھا اور قریش پر اس کا اثر بھی کافی تھا، جب اس نے صفائی کے خیال سے حرم کے درختوں کو کاٹنا چاہا، تو تمام قریش نے انکار کردیا۔ کفرو شرک کی اس عام تیرگی میں کہیں کہیں خدا پرستی کا نور بھی پرتوفگن تھا، چنانچہ قریش میں خدا پرستوں کی خاصی تعداد موجود تھی،مثلا زید بن عمرو بن نفیل زمانہ جاہلیت میں موحد تھے، دین حنیف کی پیاس میں موسوی اورعیسوی چشموں کی طرف لپکے ،مگر کہیں پیاس نہ بجھی ،آخر میں خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر اللہ کو شاہد بنایا کہ اللہیا میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں وہ اس نعمت توحید کو تنہا اپنی ذات تک محدود نہ رکھنا چاہتے تھے،بلکہ قریش میں اپنے عقائد کی اشاعت بھی کرتے تھے، بت کی قربانیوں پر قریش کو ملامت کرتے تھے، دختر کشی کی ممانعت کرتے حتی کہ لڑکیوں کو لے کر خود پرورش کرتے تھے (بخاری :۱/۵۴۰) اس کے علاوہ قریش کے اورمتعدد اشخاص بھی بت پرستی سے نفرت کرتے تھے،چنانچہ ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن جحش ،عثمان بن حویرث ،زید کے ساتھ ایک مرتبہ بت خانہ میں گئے، تو ان کو خیال ہوا کہ یہ بھی کیا حماقت ہے کہ ہم پتھر کو پوجتے ہیں،جونہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ کسی کو فائدہ نقصان پہنچا سکتا ہے،(سیرۃ ابن ہشام :۱/۷۶) خود صحابہ کرام ؓ کی متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں،جو زمانہ جاہلیت میں فطرت سلیمہ رکھتے تھے، مثلا حضرت ابوبکرصدیق ؓ۔