انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ (م:۱۹۶۵ء) ۱۔مؤ من کی زندگی کے سب کام نماز کے نقشہ پر ہونے چاہئیں ،نماز معیار ہے جس کی نماز ٹھیک ہو اس کے دوسرے کام بھی ٹھیک ہوتے ہیں اگر نماز کے اعمال اور آداب صحیح ادا نہ ہوں تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی بے ڈھنگا پن ظاہر ہوجاتا ہے اورضروری کاموں میں بہت بڑا خلا آجاتا ہے،ایک بزرگ نے کسی کو سالن کا پیالہ دیا وہ کہیں پہنچانا تھا اس نے جو پیالہ اٹھایا تو کرتے کے دامن پر شوربہ گرگیا ان بزرگ نے فرمایا تمہاری نماز کے کون سے عمل میں کوتاہی ہے جس کی وجہ سے یہ شوربہ گرنے کی نوبت آئی۔ (کام کی باتیں،ص:۵۷) ۲۔انسان جب اپنی نگاہ کو دنیا پر ڈالتا ہے تو اس کو طرح طرح کے منافع اورفائدے کی چیزیں نظر آتی ہیں تو وہ اس کے حاصل کرنے کی ترکیبوں کو سوچتا ہے اوران تدبیروں میں لگ جاتا ہے،لیکن انسان اس طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے اس کو بحیثیت انسان کے کتنا قیمتی بنایا ہے اورکتنی ترقی کرسکتا ہے،وہ عام طور پر اس چیز کو بالکل نہیں دیکھتا ہے؛بلکہ وہ دوسری چیزوں کے فائدوں اورنقصانوں کو دیکھتا ہے وہ اپنے اندر کے منافع اورترقیوں کو نہیں دیکھتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ سوچ نہیں سکتا؛بلکہ وہ اس طرح سوچنے کا عادی نہیں ہے کہ انسان دنیا کی ہر چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہے لیکن جس چیز کی حقیقت سب سے اونچی ہے اس کی حقیقت کو معلوم کرنے کی طرف قطعاً توجہ نہیں دیتا۔ (مولانا محمد یوسف صاحبؒ کی نایاب تبلیغی تقریریں،ص:۱۲) ۴۔کلمہ کیا چیز ہے؟ جو چیز تمہارے سامنے آئے جس چیز پر تمہاری نگاہ پڑے تو یہ کہو کہ یہ چیز اللہ کی ہے، اس میں خود کچھ نہیں ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس میں جو کچھ تبدیلی، نفع، نقصان، عیش ،موت،مصیبت،حیات دکھائی دے تو وہ چیز اس چیز میں نہ سمجھیں ،بلکہ وہ وصف اللہ میں جانیں، یہ وصف کہ روٹی سے پیٹ بھرتا ہے تو کلمہ یہ کہتا ہے کہ روٹی سے پیٹ نہیں بھرتا ہے اللہ بھرتا ہے روٹی خود اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ (مولانا محمد یوسف صاحبؒ کی نایاب تبلیغی تقریریں،ص:۱۹) ۵۔خواہشات میں ظلمت ہے اوراحکامات میں نور ہے،جتنا جتنا آدمی خواہشات سے نکل کر احکامات تک آجائے گا اتنی ہی اس کی ظلمت نور کی شکل میں تبدیل ہوتی چلی جائے گی، خواہش کیونکہ جسم کے اندر سے آتی ہے اور جسم گندگیوں کے ساتھ بنا ہے اس لئے وہ اپنے اندر گندگی رکھتی ہیں، احکامات اللہ کی طرف سے آتے ہیں اس لئے ان میں اللہ کی پاکی اورنور ہے۔ (مولانا محمد یوسف صاحبؒ کی نایاب تبلیغی تقریریں،ص:۲۸) ۶۔کام یہ ہے کہ کام کرنے والے کا اس ذات پر یقین قائم ہوجائے،جس کے کرنے سےکام ہوگا،یعنی اللہ جل جلالہ کی ذات پر اوراس کی حیثیت کام کرنے والے پر ایسی منکشف ہو کہ اپنی ذات اورکوئی دوسری ذات دکھائی نہ دے، دوسرا یقین یہ ہو کہ جب ظاہر وباطن سے حضورﷺ کے طریقوں پر آجاؤں گا تو اللہ رب العزت دنیا وآخرت میں اچھے حالات لائے گا۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ، ص:۴۹) ۷۔ایک دفعہ تقریر کے بعد ایک صاحب نے کہا‘‘حضرت!یہ کام(تبلیغی محنت) تو بہت اچھا ہے مگر عالم میں پھیلا ہوا بگاڑ اس سے کیسے درست ہوگا؟ اس پر فرمایا: "اگر میرے آپ کے یا جماعت کے کرنے پر ہوتا تو سوچنے کی بات تھی، جب خدا کے کرنے سے ہونا کہہ رہا ہوں تو پھر اشکال کیا ہے،کیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کام خدا کیسے کرے گا؟" (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۰) ۸۔تم حضورﷺ کے نمونے پر بننا شروع کردو جتنا بننا ہوگا بن جائے گا اور جوبننے والا نہیں ہوگا اوربننے والوں کے لئے رکاوٹ بنے گا خدا اسے اس طرح توڑدےگا جیسے انڈے کے چھلکے کو توڑدیتا ہے،تم جن کو بڑی طاقتیں کہتے ہو خدا کے نزدیک ان کی حیثیت مکڑی کے جالے کے برابر بھی نہیں ہے،اس دنیا میں پاکیزہ انسانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے مکڑیوں کے بڑے بڑے جالے لگ گئے تھے،جب حضورﷺکی سعی سے پاکیزہ انسان بن گئے تو خدانے عذاب کی ایک جھاڑو سے روم وفارس کے جالے صاف کردیئے تھے،بالکل یہی صورت روس وامریکہ کی ہوگی۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۰) ۹۔ایٹم سے ڈرنا ایسا ہی ہے جیسے مشرکین اپنے پتھر کے بتوں سے ڈرتے اورامید رکھتے تھے،ایٹم اورایٹم والوں کی گردنیں قدرت کے ہاتھ میں ہیں،ان سے وہ ہوگا جو خدا چاہے گا،فرعون بھی کہا کرتا تھا "وھذ الانھار تجری من تحتی" (یہ نہریں میرے دست تصرف کے نیچے بہتی ہیں)مگر خدا نے اسی پانی میں اس کے غرق وبربادی کا سامان بنادیا۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۰) ۱۰۔دنیاکو دارالاسباب مانتا ہوں مگر انسانوں کی اجتماعی وانفرادی کامیابی سکون،تمکن،محبوبیت،مرجعیت،قوت اورتمام اچھے حالات کا واحد سبب حضورﷺ کی آمد کے بعد صرف حضورﷺکے وجود اطہر سے صادر ہونے والے اعمال ہیں،جب کسی فرد، خاندان،طبقہ،جماعت ،قوم یا ملک میں حضورﷺوالے اعمال آجائیں گے خدا ان کو دارین میں کامیاب کرے گا چاہے ان کے پاس کائناتی اسباب ہوں یا نہ ہوں۔ (تذکرہ:مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۱) ۱۱۔علم پر تین مقصدوں کے لئے محنت ضروری ہے ۔ (۱)اس علم کے مطابق اندر کا یقین۔ (۲)اس علم کے مطابق عمل۔ (۳)اس یقین وعمل کو عالم میں پھیلانا،حضورﷺ کے لائے ہوئے علم پر ان تین پہلوؤں پر ابتداء میں محنت کی گئی تو اس زمانہ کے کائناتی نقشوں پر چلنے والا باطل روم و فارس پاش پاش ہوگیا اور آخر میں دجال اپنی ذات سے اتنی بڑی طاقت کا مظاہرہ کرے گا کہ اس کے مقابلہ میں موجودہ طاقتیں کچھ بھی نہیں ہیں،اس وقت مہدی ؑ اورعیسیٰ ؑ آسمان سے آئیں گے اورمن وعن حضورﷺ کے طریقہ کے مطابق محنت کریں گے، اس پر اللہ جل شانہ اس دجالی طاقت کو ہلاک کردے گا،جب پہلے یہ ہوچکا اورآخر میں بھی ہوگا تو پھر یہ وسوسہ کیوں ہوکہ درمیان میں کیسے ہوسکے گا،آج کل بھی وہ سب کچھ ہوسکتا ہے بشرطیکہ ایک معتد بہ طبقہ اس علم پر حضورﷺ اورصحابہ کرامؓ کی طرح محنت کرڈالے۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۱) ۱۲۔حضورﷺ سے صادر ہونے والے اعمال کو خدانے ایٹم سے زیادہ طاقت وربنایاہے اورایک ایک عمل کو عالم میں تغیر کا ذریعہ بنایا،صلوٰۃ الاستسقاء زمین کے حالات میں تغیر کا ذریعہ ہے،صلوٰۃ الکسوف اورصلوٰۃ الخسوف چاند وسورج کے حالات بدلنے کے لئے ہے،دعا اورصلوٰۃ الحاجۃ ہر قسم کے انفرادی ،اجتماعی اورناموافق حالات بدلنے کے لئے ہے،حضورﷺ کی انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کراکے یہی ظاہر کیا گیا کہ حضورﷺ سے صادر ہونے والا عمل اتنا طاقتور ہے اوریہ اشارہ حضورﷺ کا تکوینی عمل تھا،تشریعی عمل اس سے بھی طاقتور ہیں، اس وقت حکومتی نقشوں والوں کی منت خوشامد ہورہی ہے کہ ہمارا علم چلادو،میں کہتا ہوں قرآن وحدیث ان کی منتیں کرنے نہیں آیا،قرآن تو ان نقشوں والوں کے وجودوعدم اورذلت وعزت کے فیصلے کرنے آیا ہے۔ (تذکرۃ مولانامحمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۲) ۱۳۔جب قرآن پڑھنے یا سننے بیٹھو تو یوں سمجھو کہ خدا مجھ سے مخاطب ہے اورجب حدیث پڑھنے یا سننے بیٹھو تو یوں سمجھو کہ حضورﷺ مجھ سے مخاطب ہیں۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص؛۵۳) ۱۴۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی بھی نیت سے عمل کرنا نفسانیت ہے،مال مل جائے، مال بڑھ جائے،لوگ تعریفیں کریں،بڑا بن جاؤں،شہرت مل جائے،عہدہ مل جائے،مرجع بن جاؤں،میری بات چلنے لگے،میری حیثیت مانی جائے،میری رائے پوچھی جائے،ان اغراض کے لئے عمل کرنا ہرگز اخلاص اورللہیت نہیں ہے،یہاں تک کہ مخلصین خدا کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس موعود کے لئے بھی عمل نہیں کرتے اس لئے کہ موعود،موعود ضرور ہے مگر مقصود نہیں اور جوموعودکو مقصود بنا کر کرتے ہیں وہ موعود ہی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور جولوگ صرف رضاء الہی کو مقصود بنا کر چلتے ہیں،ان پر جب خدا کے مواعید پورے ہوتے ہیں اور مال وملک کی نعمتیں ملتی ہیں تو وہ ان کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے دین کی اشاعت اورمخلوق خدا پر محض رضاء الہیٰ کے لئے خرچ کردیتے ہیں جیسے صحابہ کرام ؓ نے کیا تھا۔ (تذکرۃمولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۴) ۱۵۔حضورﷺ کی معاشرت کی بنیاد پاکیزگی،سادگی اور حیا پر ہے اوریہود ونصاریٰ کی لائی ہوئی معاشرت کی بنیاد بے حیائی،اسراف اورتعیش پر ہے، تمہیں ان کی معاشرت پسند آنے لگی جنہوں نے تمہارے اسلاف کے خون بہائے،عصمتیں لوٹیں،ملک چھینے اوراب بھی تمہیں امداد دے کر اس طرح پال رہے ہیں جس طرح تم مرغیاں پالتے ہو (یعنی ذبح کرنے کے لئے) اورجس نے تمہارے لئے خون بہایا،دانت شہید کرائے،حمزہ ؓ جیسے چچا شہید کرائے تمہارے لئے راتیں جاگتے گزاریں ان کی معاشرت تمہیں پسند نہ آئی، حضورﷺ کی معاشرت بھی قیامت تک کے لئے ہے جیسے ان کی نبوت قیامت تک کے لئے ہے، جب تم میں نورایمان آئے گا تو تمہیں حضورﷺ کی معاشرت کی ایک ایک چیز پیاری لگے گی۔ (تذکرۃ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۵۴) ۱۶۔اللہ رب العزت نے انسانوں کی تمام کامیابیوں کا دارومدار انسان کے اندرونی مایہ پر رکھا ہے،کامیابی اور ناکامی انسان کے اندر کے حال کا نام ہے،باہر کی چیزوں کے نقشے کا نام کامیابی و ناکامی نہیں،عزت وذلت،آرام وتکلیف ،سکون وپریشانی،صحت وبیماری،انسان کے اندر کے حالات کا نام ہے،ان حالات کے بگڑنے یا بننے کا باہر کے نقشوں سے تعلق بھی نہیں ہے،اللہ جل شانہ ملک ومال کے ساتھ انسان کو ذلیل کرکے دکھادیں اورفقر کے نقشے میں عزت دے کر دکھادیں،انسان کے اندر کی مایہ اس کا یقین اور اس کے اعمال ہیں اورانسان کے اندر کایقین اوراندر سے نکلنے والے عمل اگر ٹھیک ہوں گے تو اللہ جل شانہ اندر کامیابی کی حالت پیدا فرمادیں گے،خواہ چیزوں کا نقشہ کتنا ہی پست ہو۔ (تذکرہ،مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۹۳) ۱۷۔علم سے مراد یہ ہے کہ ہم میں تحقیق کا جذبہ پیدا ہوجائے،میرے اللہ مجھ سے اس حال میں کیا چاہتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے دھیان کے ساتھ اپنے آپ کو اس عمل میں لگادینا یہ ذکر ہے،جو آدمی دین سیکھنے کے لئے سفر کرتا ہے اس کا یہ سفر عبادت میں لکھا جاتا ہے،اس مقصد کے لئے چلنے والے پیروں کے نیچے ستر ہزار فرشتے اپنے پربچھاتے ہیں،زمین وآسمان کی ساری مخلوق ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتی ہے۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۹۵) ۱۸۔اس عالم کے احوال کی سرسبزی اورفروغ کا تعلق براہ راست اللہ رب العزت کے احکامات سے ہے اور تمام احکامات الٰہیہ کی سر سبزی وفروغ کا تعلق ایمان کے لئے جانیں کھپانے اور عالم میں ٹھوکریں کھانے کے ساتھ ہے۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۰۷) ۱۹۔مبارک ہیں وہ لوگ جو عام مخلوق کی بے انتہاء پریشانیوں اورمصائب وبلایا کےوقت اپنی زندگیوں کے جذبات کو قربان کر کے اللہ رب العزت کی رضا کے جذبہ پر اپنے کو نثار کردیں اورخوشنودی باری تعالیٰ کے حصول کے ذریعہ اس عالم کے احوال کی درستگی کا ذریعہ بنی۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۰۸) ۲۰۔شیطان کی طاقت حق ہے اوراللہ رب العزت نے اس کو بنایا ہے اور صرف اس لئے بنایا ہے کہ ان کی طرف بڑھنے والوں کے راستہ میں ابتلاء وامتحان وآزمائش کی گھاٹیاں کھڑی کرکے کچے اور پکوں کا امتحان لیا جائے اورجو لوگ ان گھاٹیوں کو پار کرجائیں اوران میں نہ الجھیں،ان کو اپنی ذات کے تقرب ورضا سے عالی عالی انعامات ودرجات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نوازیں۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۰۸) ۲۱۔کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اورہوتا ہے اس کے دورخ ہیں ایک رخ ظاہر کا ہے اور وہ یہ ہے کہ چیزوں سے چیزیں نکل رہی ہیں اور چیزوں میں سے اثرات اورخواص ظاہر ہورہے ہیں، یہ وہ رخ ہے جو انسان پر بحیثیت انسان ہونے کے کھولا گیا ہے یعنی ہر انسان اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کا مشاہدہ کررہا ہے،دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے اور اس کے حکم سے ہو رہا ہے اوریہ سب اللہ کا نظر نہ آنے والا ہاتھ کررہاہے،یہ رخ انسانوں پر بحیثیت انسان ہونے کے نہیں کھولاگیا اس لئے ہر انسان اس کو دیکھ نہیں پاتا،بلکہ یہ رخ انبیاء کرام ؑ کے ذریعہ انسانوں پر کھولا گیا ہے، یعنی یہ بات انبیاء ؑ نے بتائی ہے کہ جو کچھ چیزوں سے بنتا ہو اورظاہر ہوتا ہوا نظر آتا ہے یہ چیزوں سے نہیں بنتا ؛بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اورامر سے بنتا ہے۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ ،ص:۱۲۸) ۲۲۔بڑی دقت کی بات یہ ہے کہ اپنی غلط کاری کی بنا پر ہمارا ذہن انفرادی بن چکا ہے،دین کے بارے میں بھی اور دنیا کے بارے میں بھی،یہاں کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی،ذہن یہ بن گیا ہے کہ بس اپنی ذات والے حال میں لگا رہے،خواہ دین کا حال ہے یا دنیا کا اس سے اپنا مسئلہ درست ہوجائے گا؛حالانکہ شخصی احوال پر طاقت خرچ کرنے سے بلاومصیبت کم نہیں ہوتی ؛بلکہ اضافی ہی ہوتا ہے، اجتماعی احوال کو جب تک ٹھیک نہ بنایا جائے،اس وقت تک شخصی حالات کا درست ہونا مشکل ہے۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۴۶) ۲۳۔یہ امت بڑی مشقت سے بنی ہے اس کو امت بنانے میں حضورﷺ اورصحابہ کرام ؓ نے بڑی مشقتیں اٹھائی ہیں اوران کے دشمنوں یہود ونصاریٰ نے ہمیشہ اس کی کوششیں کی ہیں کہ مسلمان ایک امت نہ رہیں ؛بلکہ ٹکڑے ٹکڑے ہوں، اب مسلمان اپنا امت پنا (یعنی امت ہونے کی صفت) کھوچکے ہیں، جب تک یہ امت بنے ہوئے تھے چند لاکھ ساری دنیا پر بھاری تھے۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۵۰) ۲۴۔امت کسی ایک قوم اورعلاقہ کے رہنے والوں کا نام نہیں ہے ؛بلکہ سینکڑوں ہزاروں قوموں اورعلاقوں سے جڑ کر امت بنتی ہے جو کوئی کسی ایک قوم یا ایک علاقہ کو اپنا سمجھتا ہے اور دوسروں کو غیر سمجھتا ہے وہ امت کو ذبح کرتا ہے اوراس کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اورحضورﷺ کی اورصحابہؓ کی محنتوں پر پانی پھیرتا ہے۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۵۱) ۲۵۔امت کے بنانے اوربگاڑنے میں جوڑنے اورتوڑنے میں سب سے زیادہ دخل زبان کا ہوتا ہے،یہ زبان دلوں کو جوڑتی بھی ہے اورپھاڑتی بھی ہے زبان سے ایک بات غلط اور فساد کی نکل جاتی ہے اوراس پر لاٹھی چل جاتی ہے اور پورا فساد کھڑا ہوجاتا ہے اورایک ہی بات جوڑ پیدا کردیتی ہے اور پھٹے ہوئے دلوں کو ملادیتی ہے۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۵۴) ۲۶۔دین کی ساری تعلیم اورساری چیزیں جوڑنے والی اورجوڑنے کے لئےہیں،نماز میں جوڑ ہے،روزہ میں جوڑہے،حج میں قوموں اورملکوں اورمختلف زبان والوں کا جوڑ ہے،تعلیم کے حلقے جوڑنے والے ہیں، مسلمانوں کا اکرام اورباہم محبت اور تحفہ و تحائف کا لین دین، یہ سب جوڑنے والی اورجنت میں لے جانے والی چیزیں ہیں اورقیامت میں ان اعمال کے لئے محنتیں کرنے والوں کے چہرے نورانی ہوں گے اور ان کے برخلاف باہم بغض وحسد،غیبت،چغل خوری،توہین وتحقیر اوردل آزاری یہ سب پھوٹ ڈالنے والے اور توڑنے والے اوردوزخ میں لے جانے والے اعمال ہیں اور ان اعمال والے آخرت میں روسیاہ ہوں گے۔ (تذکرہ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۵۶) ۲۷۔اسلام جب بھی چمکا ہے قربانیوں سے چمکا ہے آج بھی قربانیوں ہی سے چمکے گا، اسلام کے لئے اگر قربانیاں ہوں تو یہ دشمنوں کے گھیرے میں بھی چمکتا ہے اور جب قربانیاں نہ ہوں تو اپنی بادشاہت میں مٹ جاتا ہے۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۶۱) ۲۸۔اللہ تعالیٰ کی مدد ذاتوں اورشخصیتوں کی وجہ سے نہیں آتی ؛بلکہ ان کے اعمال اوراخلاق اور اوصاف کی وجہ سے آتی ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی جو مدد فرمائی اس طرح آپ کے صحابہ کرام ؓ اوربعد میں اولیاء کرام پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہوئے اور ان کی جو مددیں فرمائی گئیں وہ ان کی شخصیتوں کی وجہ سے نہیں ؛بلکہ ان کے اعمال اورخاص کر اللہ تعالیٰ کے لئے ان کی قربانیوں اوردین کے راستہ میں ان کی محنتوں کی وجہ سے فرمائی گئیں،آج بھی جو کوئی اللہ کی وہ مددیں چاہے وہ ان کے اعمال اوران کی قربانی اورمحنتوں کے راستہ پر پڑجائے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کو آتا ہوا خود آنکھوں سے دیکھ لےگا۔ (تذکرۂ مولانا محمد یوسف صاحبؒ،ص:۱۸۰) (۱)اگر مسلمان اب بھی ایک امت بن جائیں تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کا بال بیکا نہیں کرسکیں گی ۔ (۲)امت جب بنے گی جب امت کے سب طبقے بلا تفریق اس کام میں لگ جائیں جو حضورﷺ دے گئے ہیں اور یاد رکھو ’امت پنے ‘ کو توڑنے والی چیزیں معاملات اور معاشرت کی خرابیاں ہیں ۔ (۳)امت معاملات اور معاشرت کی اصلاح سے اور سب کا حق ادا کرنے سے اور سب کا اکرام کرنے سے بنےگی ۔ (۴)اگر مسلمانوں میں امت پنا آجکائے تو وہ دنیا میں ہرگز ذلیل نہ ہونگے،اور روس اور امریکہ کی طاقتیں بھی ان کے سامنےجھکیں گی ۔ (۵)امت جب بنے گی کہ جب ہر آدمی یہ طئے کرے کہ میں عزّت کے قابل نہیں ہوں اس لئے مجھے عزّت لینی نہیں ہے بلکہ دوسروں کی عزت کرنی ہے اور دوسرے سب لوگ اس قابل ہیں کہ میں ان کی عزّت کروں اور ان کا اکرام کروں ۔