انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبادہ بن صامت نام ونسب عبادہ نام، ابو الولید کنیت، قبیلۂ خزرج کے خاندان سالم سے ہیں نسب نامہ یہ ہے ،عبادہ بن صامت بن قیس بن اصرم بن فہر بن قیس بن ثعلبہ بن غنم (قوقل) بن سالم بن عوف بن عمرو بن عوف بن خزرج ،والدہ کا نام قرۃ العین تھا، جو عبادہ بن نضلہ بن مالک بن عجلان کی بیٹی تھیں، قرۃ العین کے جگر گوشہ کا نام اپنے نانا کے نام پر رکھا گیا۔ بنو سالم کے مکانات مدینہ کے غربی سنگستان کے کنارہ قبأ سے متصل واقع تھے یہاں ان کے کئی قلعے بھی تھے، جو اطم قوافل کے نام سے مشہور ہیں،اس بناء پر حضرت عبادہؓ کا مکان مدینہ سے باہر تھا۔ اسلام ابھی عنفوانِ شباب تھا، کہ مکہ سے اسلام کی صدا بلند ہوئی، جن خوش نصیب لوگوں نے اس کی پہلی آواز کو رغبت کے کانوں سے سنا، حضرت عبادہؓ انہی میں سے ہیں، انصار کے وفد ۳ سال تک مدینہ سے مکہ آئے تھے، وہ سب میں شامل تھے، پہلا وفد جو دس آدمیوں پر مشتمل تھا وہ اس میں داخل تھے اور چھ شخصوں کے ساتھ آنحضرتﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ارباب علم کی ایک جماعت کا یہی خیال ہے (فتح الباری:۷/۱۷۲،اورزرقانی:۱/۳۶۱) اگرچہ کثرت رائے ان کے اسلام کو دوسری بیعت تک موقوف سمجھتی ہے، جس میں بارہ آدمیوں (مسند احمد:۵/۳۲۳) نے مذہب اسلام قبول کیا تھا، تیسری بیعت جس میں ۷۲ اشخاص شامل تھے،حضرت عبادہؓ کی اس میں بھی شرکت تھی۔ (مسند:۵/۳۱۶) اخیر بیعت میں ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آنحضرتﷺ نے ان کو خاندان توافل کا نقیب تجویز فرمایا۔ غزوات ودیگر حالات حضرت عبادہؓ کی زندگی ابتدا ہی سے ولولہ انگیز ہے مکہ سے مسلمان ہوکر پلٹے تو مکان پہنچتے ہی والدہ کو مشرف باسلام کیا، (زرقانی:۱/۳۶۱) کعب بن عجرہ ایک دوست تھے اور ہنوز مسلمان نہ ہوئے تھے،ان کے گھر میں ایک بڑا سا بت رکھا تھا، حضرت عبادہؓ کو فکر تھی کہ کسی صورت سے یہ گھر بھی شرک سے پاک ہو، موقع پاکر اندر گئے اور بت کو بسولے سے توڑ ڈالا، کعب کو ہدایت غیبی ہوئی اور وہ جمیعت اسلام میں آملے۔ (نزہتہ الابرار فی الاسلامی ومناقب الاخیار قلمی ورق:۱۶۳) آنحضرتﷺ نے مدینہ پہونچ کر انصار و مہاجرین میں برادری قائم کی تو حضرت ابو مرثد غنویؓ کو ان کا بھائی تجویز فرمایا حضرت ابو مرثدؓ نہایت قدیم الاسلام صحابی اور حضرت حمزہؓ رسول اللہ ﷺ کے حلیف تھے، اس بناء پر ان کا تعلق خود خاندانِ رسالت سے تھا۔ ۲ھ میں غزوۂ بدر واقع ہوا، حضرت عبادہؓ نے اس میں شرکت کی، اسی سنہ میں بنو قینقاع عبداللہ بن ابی کے اشارے سے رسول اللہ ﷺ سے بغاوت پر آمادہ ہوئے ، دربار نبوت سے جلاوطنی کا فرمان صادر ہوا، حضرت عبادہؓ نے حلف کا دیرینہ تعلق ان لوگوں سے قطع کردیا تھا، اخراج البلد کا کام بھی انہی کے متعلق ہوا، (طبقات،صفحہ۳۰،قسم اول،جزء۲،حصہ مغازی)قرآن کی یہ آیت ،"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى"اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ مشاہد عہد نبوت میں بیعت الرضوان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، وہ اس بیعت (مسند :۵/۳۱۹) میں بھی شریک تھے، خلافت صدیقی میں شام کی بعض لڑائیوں میں شریک تھے، خلافت فاروقی میں مصر کے فتح ہونے میں دیر ہوئی تو عمرو بن عاصؓ نے حضرت عمرؓ کو مزید کمک کے لئے خط لکھا، حضرت عمرؓ نے ۴ ہزار فوج روانہ کی جس میں ایک ہزارفوج کے حضرت عبادہؓ افسر تھے اور جواب میں لکھا کہ ان افسروں میں ہر شخص ایک ہزار آدمیوں (کنز العمال:۲/۱۵۱،بحوالہ ابن عبدالحکم) کے برابر ہے،یہ کمک مصر پہنچی تو عمروبن عاصؓ نے تمام فوج کو یکجا کرکے ایک پراثر تقریر کی اورحضرت عبادہؓ کو بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کو دیجئے، خود سر سے امامہ اتارا اور نیزہ پر لگاکر ان کے حوالہ کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں ،خدا کی شان کہ پہلے ہی حملہ میں شہر فتح ہوگیا۔ ملکی خدمات خدمات ملکی کے سلسلہ میں تین چیزیں قابل ذکر ہیں صدقات کی افسری فلسطین کی قضاءت اورحمص کی امارت۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے اخیر عہد میں صدقہ کے عمال تمام اضلاع عراق روانہ کئے تھے، حضرت عبادہؓ کو بھی کسی مقام کا عامل بنایا تھا، وصیت کے طورپر فرمایا کہ خدا سے ڈرنا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن چو پائے تک فریاد ہوکر آئیں انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں دو آدمیوں پر بھی عامل بننے کا خواہشمند نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں فلسطین کا قاضی بنایا تھا اس زمانہ میں یہ صوبہ حضرت امیر معاویہؓ کی ماتحتی میں تھا، کسی بات پر دونوں میں اختلاف ہوگیا جس میں حضرت امیر معاویہؓ نے سخت کلامی کی تو انہوں نے کہا کہ آئندہ تم جہاں ہوگے میں نہ رہوں گا، ناراض ہوکر فلسطین سے مدینہ آئے،حضرت عمرؓ نے دیکھا تو پوچھا کیوں؟ انہوں نے سارا قصہ دہرایا فرمایا کہ آپ اپنی جگہ پر جایے دنیا آپ ہی جیسے لوگوں سے قائم ہے، جہاں آپ لوگ نہ ہونگے خدا اس زمین کو خراب کردے گا ، اس کے بعد امیر معاویہؓ کو ایک خط لکھا کہ عبادہؓ کو تمہاری ماتحتی سے الگ کرتا ہوں، قضاءت فلسطین کا یہ پہلا عہدہ تھا جو حضرت عبادہؓ کو تفویض ہوا اسی زمانہ میں حضرت ابو عبیدہؓ نے کہ شام کے امیر تھے ان کو حمص کا نائب بنایا حمص کے زمانہ قیام میں انہوں نے لاذقیہ فتح کیا اور اس میں ایک خاص فوجی ایجاد کی یعنی بڑے بڑے گڈھے کھدوائے جن میں ایک شخص مع اپنے گھوڑے کے چھپ سکتا تھا یہ طریقہ آج یورپ میں بھی رائج ہے۔ (بلاذری فتوح البلدان:۱۳۹) وفات حضرت عبادہ ؓ تادم مرگ شام میں سکونت پذیر رہے، ۳۴ھ میں پیغام اجل آیا اس وقت ان کا سن ۷۲ سال کا تھا وفات سے پہلے بیمار رہے ،لوگ عیادت کو آتے تھے شداد بنؓ اوس کچھ آدمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر آئے پوچھا کیسا مزاج ہے، فرمایا خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ وفات کے قریب بیٹا آیا اور درخواست کی کہ وصیت کیجئے، فرمایا مجھے اٹھا کے بٹھلاؤ اس کے بعد کہا بیٹا! تقدیر پر یقین رکھنا ورنہ ایمان کی خیریت نہیں۔ (مسند:۵/۳۱۷) اسی حالت میں صنا بحی پہنچے، دیکھا تو استاد جاں بلب تھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بیتاب ہوکر زار وقطار رونے لگے ،استاد شفیق نے رونے سے منع کیا اورکہا کہ ہر طرح سے راضی ہوں، شفاعت کی ضرورت ہوگی تو شفاعت کروں گا، شہادت کیلئے چاہو گے تو شہادت دونگا، غرض حتی الوسع تم کو نفع پہنچاؤں گا اس کے بعد فرمایا کہ جتنی حدیثیں ضروری تھیں تم لوگوں تک پہنچا چکا ، البتہ ایک حدیث باقی تھی، اس کو اب بیان کئے دیتا ہوں، (مسند:۵/۳۱۸) حدیث بیان کرچکے تو روح ،جسم کو وداع کہہ کر جو اررحمت میں پرواز کر گئی یہ حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت کا واقعہ ہے۔ مدفن کے متعلق اختلاف ہے ،ابن سعد نے رملہ لکھا ہے ،دوسری روایتوں میں بیت المقدس کا نام آیا ہے اور لکھا کہ ان کی قبر وہاں اب تک مشہور ہے، امام بخاری نے فلسطین کو مدفن قرار دیا ہے، لیکن اصل یہ ہے کہ فلسطین ایک صوبہ تھا جس کے رملہ اور بیت المقدس اضلاع تھے۔ حلیہ حلیہ یہ تھا، قد دراز (۱۰ بالش طول تھا) بدن دوہرا، رنگ ملیح، نہایت جمیل تھے ۔ اولاد اولاد کے نام یہ ہیں ،ولید، عبداللہ، داؤد ،ان میں سے ولید کے دوبیٹے ،عبادہ اور یحییٰ اور موخرالذکر کے لڑکے اسحاق حدیث کے مشہور راویوں میں ہیں۔ فضل وکمال حضرت عبادہؓ فضلائے صحابہ میں تھے،قرأت ان کا خاص فن تھا، انہوں نے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں پورا قرآن حفظ کرلیا تھا، اسلام کا پہلا مدرسۂ قرأت جو عہد نبوی میں اصحابِ صفہ کے لئے قائم ہوا تھا انہی کے زیر ریاست تھا اہل صفہ وہ صحابہ کبار تھے،ان سے تعلیم پاتے تھے یہاں قرآن کے ساتھ لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا؛ چنانچہ بہت سے لوگ قرأت اورکتابت سیکھ کر یہاں سے نکلے تھے۔ (مسند:۵/۲۱۵) بعض تلامذہ کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام بھی استاد کے متعلق ہوتا تھا اس قسم کے بہت سے لوگ آتے تھے،ایک شخص کی نسبت مذکور ہے کہ ان کے گھر میں رہتا تھا اور شام کا کھانا بھی ان کے ساتھ کھاتا تھا، مکان جانے کا قصد کیا تھا تو ایک عمدہ کمان استاد کے نذر کی،انہوں نے آنحضرتﷺ سے ذکر کیا، آپ نے اس کے قبول کرنے سے منع فرمایا۔ (مسند:۵/۲۲۴) عہد نبوی کے بعد جب شام کے مسلمانوں کو تعلیم قرآن کی ضرورت ہوئی تو حضرت عمرؓ نے ان کو شام روانہ کیا وہ پہلے حمص گئے لیکن کچھ زمانہ کے بعد فلسطین کو اپنا مستقر بنایا۔ حدیث میں حضرت عبادہؓ بعض اولیات کے موجد ہوئے،صحابہؓ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ تک سلسلۂ حدیث پہنچانے کا یہ طرز تھا کہ صحابی کہتا تھا کہ میں نے اس کو رسول اللہ ﷺ سے سنا،لیکن بعض بزرگ ایسے بھی تھے ،جنہوں نے الفاظ روایت میں وہ مدارج قائم کئے جو بعد میں روایت حدیث کا جزء قرار پا گئے،حضرت عبادہؓ نے بھی ان الفاظ میں ایک اضافہ کیا، ایک شخص سے حدیث بیان کی تو فرمایا: قال رسول اللہ ﷺ من فی الی فی لااقول حدثنی فلاں ولا فلاں یعنی رسول اللہ ﷺ نے میرے سامنے فرمایا، میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے فلاں فلاں لوگوں نے حدیث بیان کی۔ (مسند:۵/۲۲۴) اسی طرح ایک مجمع میں خطبہ دیا اور حضرت امیر معاویہؓ نے ایک حدیث سے انکار ظاہر کیا تو فرمایا : اشھدانی سمت رسول اللہ ﷺ میں گواہ ہوں کہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا۔ اشاعتِ حدیث کا خاص اہتمام تھا مجامع وعظ مجالسِ علم، نجی مجالس ہر جگہ اس کا چرچا رہتا تھا، کبھی گرجے میں جاتے تو وہاں بھی رسول اللہ ﷺ کا کلام مسلمانوں اور عیسائیوں کے گوش گذار کرتے تھے۔ (مسند:۵/۳۱۹،۳۲۰) مرویات کی تعداد ۱۸۱ تک پہنچتی ہے جس کے روایت کرنے والے اکابر صحابہ اور نبلاء تابعین ہیں ،چنانچہ وابستگانِ نبوت میں حضرت انسؓ بن مالک حضرت جابرؓ بن عبداللہ حضرت ابو امامہؓ حضرت سلمہؓ بن محیق محمود بن ؓ ربیع ،حضرت مقدام بن ؓ معد یکرب، حضرت رفاعہؓ بن رافع ،حضرت اوسؓ بن عبداللہ ثقفی، شرجیل بنؓ حسنہ اور تابعین باحسان میں عبدالرحمن بن عسیلہ صنابجی جطان بن عبداللہ رقاشی، ابوالاشعث صفانی، جبیر بن نضیر جنادہ بن ابی امیہ اسود بن ثعلبہ، عبداللہ بن محیریز ربیعہ بن ناجد، عطا بن یسار، قبیصہ بن ذویب، نافع بن محمود بن ربیعہ، یعلی بن شداد بن اوس، ابو مسلم خولانی، ابو ادریس خولانی، اس مخزن علم سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ فقہ میں کمال علمی مسلم تھا اور تمام صحابہؓ اس کا اعتراف کرتے تھے،شام کے مسلمانوں کو قرآن اور فقہ کی تعلیم کی ضرورت ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اس کام کے لئے انہی کا انتخاب کیا۔ حضرت امیر معاویہؓ نے طاعون عمواس کا خطبہ میں ذخر کیا تو کہا کہ مجھ سے اور عبادہؓ سے اس مسئلہ میں گفتگو ہوچکی ہے، لیکن بات وہی ٹھیک تھی جو انہوں نے کہی تھی تم لوگ ان سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ فقیہ ہیں۔ جنادہ حضرت عبادہؓ سے ملاقات کو گئے تو بیان کرتے ہیں کہ: وکان قد تفقہ فی دین اللہ وہ دین الہی میں فقیہ تھے۔ اخلاق وعادات امراء کے مقابلہ میں حق گوئی:حضرت عبادہؓ کے تاج فضیلت کا طرہ رہی ہے وہ نہایت جوش سے اس فرض کو ادا کرتے تھے، شام گئے اور وہاں بیع شراء میں شرعی خرابیاں دیکھیں تو ایک خطبہ دیا جس سے تمام مجمع میں ہلچل پڑگئی، حضرت امیر معاویہؓ بھی موجود تھے بولے کہ عبادہؓ سے آنحضرتﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا، اب ان کے طیش کو کون روک سکتا تھا فرمایا کہ مجھے معاویہؓ کے ساتھ رہنے کی بالکل پرواہ نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ (مسند:۵/۳۱۹) یہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کا واقعہ تھا؛ لیکن عہد عثمانی میں حضرت امیر معاویہؓ نے دربار خلافت میں شکایت لکھی کہ عبادہ نے تمام شام بگاڑ رکھا ہے یا تو ان کو مدینہ بلائیے یا میں شام چھوڑدونگا، امیر المومنین نے جواب میں لکھا کہ ان کو یہاں روانہ کردو ،مدینہ پہنچ کر سیدھے حضرت عثمانؓ کے کاشانہ میں پہنچے،جہاں صرف ایک شخص تھا جو مہاجر اور تابعی تھا،لیکن باہر بہت سے لوگ جمع تھے اندر جاکر ایک گوشہ یں بیٹھ گئے حضرت عثمانؓ کی نظر اٹھی تو حضرت عبادہؓ سامنے تھے،پوچھا کیا معاملہ ہے،پیکر حق اب بھی راست گوئی کا وہی جذبہ رکھتا تھا، کھڑے ہوکر مجمع سے مخاطب ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امراء منکر کو معروف اور معروف کو منکر سے بدل دیں گے،لیکن معصیت میں طاعت جائز نہیں، تم لوگ بدی میں ہر گز آلودہ نہ ہونا۔ (مسند:۵/۳۱۹) حضرت ابو ہریرہؓ نے کسی بات میں داخل دیا تو فرمایا کہ جب ہم نے آنحضرتﷺ سے بیعت کی تھی تم اس وقت موجود نہ تھے (پھر تم ناحق بیچ میں پڑتے ہو) ہم نے آنحضرتﷺ سے ان شرائط پر بیعت کی تھی کہ چستی اور کاہلی میں آپ کا کہنا مانیں گے فراخی اور تنگی میں مالی امداد دیں گے، اچھی باتیں پہنچائیں گے، بری باتوں سے روکیں گے سچ کہنے میں کسی سے نہ ڈریں گے،آنحضرتﷺ یثرب تشریف لائیں گے تو مدد کریں گے اور جان ومال اور اولاد کی طرح آپ کی نگہبانی کریں گے، ان سب باتوں کا صلہ جنت کی صورت میں دیا جائے گا، پس ہم کو ان باتوں پر پورے طور سے عمل کرنا چاہیے اور جو نہ کرے وہ اپنا آپ ذمہ دار ہے۔ (مسند:۵/۳۲۵) اس فرض امر معروف کو وہ راستہ چلتے بھی ادا کرتے تھے،ایک دفعہ کسی سمت جارہے تھے عبداللہ بن عباد زرقی کو دیکھا کہ چڑیاں پکڑ رہے ہیں ،چڑیا ہاتھ سے چھین کر اڑادی اور کہا بیٹا یہ حر م میں داخل ہے یہاں شکار جائزنہیں۔ حب رسول کا یہ عالم تھا کہ بیعت کرنے کے بعد ۲ مرتبہ مکہ جاکر رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی آنحضرتﷺ مدنیہ تشریف لائے تو کوئی غزوہ اور واقعہ ایسا نہ تھا جس کی شرکت کا شرف انہیں حاصل نہ ہوا ہو، انہی وجوہ سے آنحضرتﷺ کو ان سے خاص محبت تھی۔ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَعُودُهُ فِي مَرَضِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَعْلَمُونَ مَنْ الشَّهِيدُ مِنْ أُمَّتِي فَأَرَمَّ الْقَوْمُ فَقَالَ عُبَادَةُ سَانِدُونِي فَأَسْنَدُوهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الصَّابِرُ الْمُحْتَسِبُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ شَهَادَةٌ وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ وَالنُّفَسَاءُ يَجُرُّهَا وَلَدُهَا بِسُرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ۔ (مسند احمد،حدیث راشد بن حبیش،حدیث نمبر:۱۵۴۲۶) ایک مرتبہ وہ بیمار پڑے تو خود سردار دو عالمﷺ عیادت کو آئے، انصار کے کچھ لوگ ہمرکاب تھے، فرمایا جانتے ہو شہید کون ہے؟ لوگ خاموش رہے،حضرت عبادہؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ذرا مجھے تکیہ سے لگا کر بیٹھاؤ، بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے سوال کا جواب دیا کہ جو مسلمان ہو ہجرت کرے اور معرکہ میں قتل ہو ، آپ نے فرمایا نہیں ،اس صورت میں تو شہیدوں کی تعداد بہت کم ہوگی قتل ہونا، ہیضہ میں مرنا، غرق آب ہونا اور عورت کا زچگی میں مرجانا یہ سب شہادت میں داخل ہے۔ (مسند:۳۱۷) رسول اللہ ﷺ علیل ہوئے تو صبح و شام دیکھنے جاتے تھے ،آپ نے اسی حالت میں ان کو ایک دعا بتائی اور فرمایا کہ مجھ کو جبرئیل علیہ السلام نے تلقین کی تھی۔ (مسند:۳۲۳)