انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث بیان کرنے والے سے مزید شہادت لینا ثقہ راوی کی روایت ازخود شہادت ہے اس پر مزید شہادت کی ضرورت نہیں نہ اسے قسم کھلانے کی ضرورت ہے؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ اصولِ حدیث سب اجتہادی ہیں، مقصود صحیح بات کوپالینا ہے، وہ جس طرح بھی میسر آسکے اور یقین بڑھاسکے، خطیب بغدادی اصولِ حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "وجب الاجتہاد فی علم اصولہا" (الکفایہ فی علوم الروایہ:۳) جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع کی ہربات میں اجتہاد سے کام لیا گیا ہے، فقہاء حدیث نے اپنے اپنے تفقہ کی روشنی میں اس کے اصول طے کئے ہیں؛ سواگر کسی خاص موضوع پر اس روایت کی مزید شہادت طلب کی جائے یاکوئی شخص کسی راوی حدیث سے قسم بھی کھلائے تواس میں مضائقہ نہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میراث جنین کی روایت میں حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت پر اکتفا نہ کی جب تک کہ محمدبن مسلمہ سے اس کی تائید نہ سن لی، حضرت عمرؓ نے استیذان میں حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ کی روایت پر اکتفا نہ کی؛ یہاں تک کہ حضرت ابوسعید نے بھی اس کی شہادت دی، حضرت ام المؤمنینؓ نے زندوں کے رونے سے میت کوعذاب ہونے کی حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت میں تردد کا اظہار فرمایا تواس کی یہ وجہ نہیں کہ ان اکابر کے ہاں ثقہ راوی کی خبر واحد حجت نہ تھی؛ بلکہ اس مزید توثیق کی تلاش میں کوئی حرج نہیں، شیخ الاسلام علامہ عثمانی رحمہ اللہ اس بحث میں لکھتے ہیں کہ: "واجیب بان ذلک انما وقع منھم اماعندالارتیاب..... واماعند معارضۃ الدلیل القطعی کما فی انکار عائشۃؓ..... فقد جاء فی بعض طریقہ ان عمر قال لابی موسی اما انی لم اتھمک ولٰکن اردت ان یتجرأ الناس علی الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"۔ (فتح الملہم:۱/۹۷۸)