انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تقوی تقویٰ اور پرہیزگاری کی تعلیم بھی اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے، تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے حساب اورجزاوسزا پر یقین رکھتے ہوئے اور اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے تمام برے کاموں اور بری باتوں سے بچاجائے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلاجائے،یعنی جو چیزیں اللہ تعالی نے ہم پر فرض کی ہیں اور اپنے جن بندوں کے جو حق ہم پر لازم اور مقرر کئے ہیں ان کو ہم ادا کریں اور جن کاموں اور جن باتوں کو حرام اور ناجائز کردیا ہے ہم ان سے بچیں اور ان کے پاس بھی نہ جائیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہیں،قرآن وحدیث میں بڑی تاکید کے ساتھ اور بار بار اس تقوے کی تعلیم دی گئی ہے،ہم صرف چندآیتیں اور حدیثیں یہاں درج کرتے ہیں، سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے: "یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ"۔ (آل عمران:۱۰۲) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنا چاہئے(اورآخری دم تک اسی تقوے کے تحت اس کی فرمانبرداری کرتے رہو)یہاں تک کہ تم کو اسی فرمانبرداری کی حالت میں موت آئے۔ اور سورۂ تغابن میں فرمایا: "فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا"۔ (التغابن:۱۶) اللہ سے ڈرواور تقویٰ اختیارکروجس قدر بھی تم سے ہوسکے اور اس کے سارے حکم سنواورمانو۔ اور سورۂ حشر میں فرمایا گیاہے: "یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍo وَاتَّقُوا اللہَo اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ"۔ (الحشر:۱۸) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو(اورتقویٰ اختیارکرو)اور ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دیکھے اورغورکرے کہ اس نے کل کے لیے (یعنی آخرت کے لیے)کیا عمل کئے ہیں، اور دیکھو اللہ سے ڈرتے رہو،وہ تمہارے سب عملوں سے پوری طرح خبردار ہے۔ قرآن شریف ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جولوگ اللہ تعالی سے ڈریں اور تقویٰ اورپرہیزگاری کے ساتھ زندگی گزاریں،ان پر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی بڑی مدد کرتاہے۔ "وَمَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ"۔ (الطلاق:۲) اور جولوگ ڈریں اللہ سے(اورتقوے والی زندگی گزاریں)تواللہ ان کے لیے مشکلات سے نکلنے کے راستے پیدا کرتا ہے اور ان کو ایسے طریقوں سے رزق دیتا ہے جس کا ان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ قرآن شریف ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں میں تقویٰ ہوتا ہے وہ اللہ کے ولی ہوتے ہیں اور پھر ان کو کسی دوسری چیز کاڈر اور رنج بالکل نہیں ہوتا۔ارشاد ہے: "اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ"۔ (یونس:۶۲) یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کے جو ولی ہوتے ہیں انہیں کوئی خوف اورغم نہیں ہوتا،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سچے مومن اورمتقی ہوں،ان کے واسطے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی۔ ان متقی اورپرہیزگارلوگوں کو جو نعمتیں آخرت میں ملنے والی ہیں ان کا کچھ ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے: "قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْo لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِo وَاللہُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ"۔ (آل عمران:۱۵) (اے رسولﷺ ان لوگوں سے)آپ کہئے کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں جو تمہاری اس دنیا کی تمام مرغوب چیزوں اورلذتوں سے بہت بہتر ہے؟(سنو)ان لوگوں کے لیے جو اللہ سے ڈریں اورتقوے والی زندگی اختیار کریں،ان کے مالک کے پاس ایسے باغہائے جنت ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور ایسی بیبیاں ہیں جو بہت صاف ستھری ہیں(اوران کے لیے) اللہ کی رضا مندی اور خوشنودی ہےاور اللہ تعالی خوب دیکھتا ہے اپنے سب بندوں کو(سب کے ظاہر وباطن کا حال اس کی نظر میں ہے)۔ اس سلسلہ میں سورۂ ص کی یہ آیت اورپڑھ لیجئے: "وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍo جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّہُمُ الْاَبْوَابُo مُتَّکِــــِٕیْنَ فِیْہَا یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍo وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ اَتْرَابٌo ھٰذَا مَاتُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِo اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہٗ مِنْ نَّفَادٍ"۔ (ص:۴۹۔۵۴) اوریقینا متقی بندوں کے لیے بہت ہی اچھا ٹھکانا ہے، باغ ہیں سدابہار ہمیشہ رہنے کے ،کھلے ہوئے ہیں ان کے لیے دروازے،بیٹھے ہیں ان میں تکئے لگائے،منگاتے ہیں(خادموں سے میوے اورشربتاور ان کے پاس عورتیں ہیں نیچی نگاہ والیاں، سب برابر عمر کی،یہ ہے وہ انعام جس کا وعدہ کیا جارہاہے تم سے روز حساب کے لیے ،بیشک یہ ہے ہمارا رزق جس کے لیے کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اور قرآن مجید ہی میں متقی بندوں کو یہ بھی خوش خبری سنائی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کا خاص الخاص قرب ان کو نصیب ہوگا،سورۂ قمر کی آخری آیت ہے: "اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍo فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ"۔ (القمر:۵۴،۵۵) متقی بندے(آخرت میں) جنت کے باغات اورنہروں میں رہیں گے،ایک عمدہ مقام میں کامل اقتداررکھنے والے کائنات کے حقیقی بادشاہ کے قریب۔ قرآن مجید میں یہ بھی اعلان فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک عزت وشرافت کا مداربس تقوے پر ہے۔ "اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ"۔ (الحجرات:۱۳) تم میں سب سے زیادہ باعزت اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تقوے میں بڑاہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی ایک حدیث میں فرمایاہے: مجھ سے زیادہ قریب اور مجھے زیادہ پیارے وہی لوگ ہیں جن میں تقوے کی صفت ہے؛خواہ وہ کسی قوم ونسل سے ہوں اور کسی بھی ملک میں رہتے ہوں"۔ (مسند احمد،حَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْه،حدیث نمبر:۲۱۰۴۰، شاملہ،موقع الإسلام) تقویٰ(یعنی خداکاخوف اورآخرت کی فکر)ساری نیکیوں کی جڑہے،جس شخص میں جتنا تقویٰ ہوگا اس میں اتنی ہی نیکیاں اور اچھائیاں جمع ہوں گی اور اتنا ہی وہ برے کاموں اور بری باتوں سے دورہوگا۔ حدیث شریف میں : "رسول اللہﷺ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ: حضرت!میں نے آپ(ﷺ ) کے بہت سے ارشادات اور بہت سی ہدایات سنی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ یہ ساری ہدایتیں اور نصیحتیں مجھے یاد نہ رہ سکیں اس لیے آپ(ﷺ ) کوئی ایک جامع نصیحت فرمادیں جو میرے لیے کافی ہو؟آپ نے ارشاد فرمایا:اپنے علم اور واقفیت کی حد تک خدا سے ڈرتے رہو(اور اسی ڈراور فکر اورتقوے کے ساتھ زندگی گزارو)"۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَة،حدیث نمبر:۲۶۰۷، شاملہ،موقع الإسلام) یعنی اگریہ ہی ایک بات تم نے یاد رکھی اور عمل کیا تو بس یہی تمہارے لیے کافی ہے،ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: "جسے خوف ہوگاوہ سویرے چل پڑے گااور جو سویرے چل دے گا وہ بروقت منزل پر پہونچ جائے گا"۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،حدیث نمبر:۲۳۷۴، شاملہ،موقع الإسلام) پس خوش نصیب اور کامیاب وہی ہیں جو خداسے ڈریں اورآخرت کی فکر کریں،خداکے خوف سے اور اس کے عذاب کے ڈرسے اگر ایک آنسو بھی آنکھ سے نکل آئے تو اللہ تعالی کے یہاں اس کی بڑی قدرہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ: "اللہ تعالی کو انسان کے دوقطروں اور اس کے دونشانوں سے زیادہ کوئی چیز پیاری نہیں ،پس دوقطرے جو اللہ کو بہت پیارے ہیں ان میں سے ایک تو آنسو کا وہ قطرہ ہے جو اللہ کے خوف سے کسی آنکھ سے نکلاہواور دوسرا خون کاوہ قطرہ ہے جو راہ خدامیں کسی کے جسم سے بہاہواور جودونشان اللہ کو بہت محبوب ہیں ان میں ایک تو وہ نشان ہے جوراہ خدا میں کسی کو لگاہو(یعنی جہادمیں زخم لگا ہو اور اس کا نشان رہ گیا ہو)اوردوسراوہ نشان جو اللہ کے فرائض ادا کرنے سے پڑگیا ہو(جیسا کے نمازیوں کی پیشانیوں اورگھٹنوں میں ہوجاتا ہے)"۔ (ترمذی،باب ماجاء فی فضل المرابط،حدیث نمبر:۱۵۹۲، شاملہ،موقع الإسلام) "ایساآدمی کبھی دوزخ میں نہیں جاسکتا،جواللہ کے خوف سے روتا ہو"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْغُبَارِ فِي سَبِيلِ اللَّه،حدیث نمبر:۱۵۵۷، شاملہ،موقع الإسلام) الغرض خداکا سچاخوف اورآخرت کی فکراگرکسی کو نصیب ہو تو بڑی بات ہے اور اس خوف اورفکرسے آدمی کی زندگی سونابن جاتی ہے۔ بھائیو!خوب سمجھ لو اس چندروزہ دنیا میں جوخدا سے ڈرتارہے گا مرنے کے بعدآخرت کی زندگی میں اس کو کوئی خوف اور رنج وغم نہ ہوگا اور وہ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ہمیشہ ہمیشہ خوش وخرم اور بڑے چین وآرام سے رہےگا اور جویہاں خدا سے نہ ڈرے گا اور آخرت کی فکر نہ کرے گا اور دنیا ہی کی لذتوں میں مست رہے گا وہ آخرت میں بڑے دکھ اٹھائے گا اور ہزاروں برس خون کے آنسو روئے گا۔ تقویٰ یعنی خوف خدا اور فکر آخرت پیدا ہونے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ اللہ کے ان نیک بندوں کی صحبت ہے جو خدا سے ڈرتے ہوں اور اس کے حکموں پر چلتے ہوں،دوسرا ذریعہ دین کی اچھی معتبر کتابوں کا پڑھنا اور سننا ہےاور تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ تنہائی میں بیٹھ بیٹھ کراپنی موت کا خیال کرے اور مرنے کے بعد اللہ کی طرف سے نیکیوں پرجو ثواب اور گناہوں پر جو عذاب ملنے والا ہے اس کو یاد اور اس کا دھیان کیاکرے اور اپنی حالت پر غورکیاکرے اور سوچاکرے کہ قبر میں میرا کیا حال ہوگااور قیامت میں جب سب بندے اٹھائے جائیں گے تو میری کیا حالت ہوگی، اور جب خداکے سامنے پیشی ہوگی اور میرانامہ اعمال میرے سامنے کھولاجائے گا تو میں کیا جواب دوں گااور کہاں منھ چھپاؤں گا۔ جوشخص ان طریقوں کو استعمال کرے گا انشاء اللہ اس کو ضرور تقویٰ نصیب ہوجائے گا،اللہ تعالی ہم سب کو نصیب کرے۔