انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خطابت مذہبی علوم کے علاوہ آپ کو اس زمانہ کے مروجہ فنون میں بھی درک تھا خطابت اورشاعری اس زمانہ کے بڑے کمالات تھے،حضرت حسنؓ عرب کے اخطب الخطباء کے فرزند تھے،اس لیے خطابت آپ کو ورثے میں ملی تھی اور آپ میں بچپن ہی سے خطابت کا مادہ تھا، اس زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے آپ سے کہا کہ تم خطبہ دو، میں اس کو سنوں، حضرت حسنؓ نے کہا ،آپ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے حجاب معلوم ہوتا ہے،یہ سن کر حضرت علیؓ آڑ میں چلے گئے اورحضرت حسنؓ نے کھڑے ہوکر نہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیا، حضرت علیؓ نے سن کر فرمایا کیوں نہ ہوبیٹے میں باپ کا اثر ہوتا ہی ہے (البدایہ والنہایہ:۸/۳۷) خطابت کا یہ کمال عمر کے ساتھ ساتھ اور ترقی کرتا گیا اورآپ کے خطبات فصاحت وبلاغت کے ساتھ اخلاق وحکمت اورپند وموعظت کا دفترہیں، حضرت علیؓ کی وفات کے بعد آپ نے متعدد خطبات دیئے ہیں ان میں سے ایک نمونۃً نقل کیا جاتا ہے،اس سے آپ کی خطابت کا پورا اندازہ ہوگا۔ (اسد الغابہ:۲/۱۳) فقال بعد حمد الله عز وجل: إنا والله ما ثنانا عن أهل الشام شك ولا ندم، وإنما كنا نقاتل أهل الشام بالسلامة والصبر، فسلبت السلامة بالعداوة، والصبر بالجزع، وكنتم في منتدبكم إلى صفين ودينكم أمام دنياكم، فأصبحتم اليوم ودنياكم أمام دينكم، ألا وإنا لكم كما كنا، ولستم لنا كما كنتم، ألا وقد أصبحتم بين قتيلين: قتيل بصفين تبكون له، وقتيل بالنهروان تطلبون بثأره، فأما الباقي فخاذل، وأما الباكي فثائر، ألا وإن معاوية دعانا إلى أمر ليس فيه عز ولا نصفة، فإن أردتم الموت رددناه عليه، وحاكمناه إلى الله عز وجل بظبا السيوف، وإن أردتم الحياة قبلناه وأخذنا لكم الرضا (اسد الغابۃ،باب الحسن بن علی:۱/۲۶۱) حمد الہی کے بعد آپ نے یہ تقریر کی کہ ہم کسی شک و شبہ یا شرم و ندامت کی وجہ سے شامیوں کے مقابل سے نہیں لوٹ آئے ؛بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ پہلے ہم شامیوں سے صاف دلی اورصبر کے ساتھ جنگ کرتے تھے؛ لیکن اب وہ حالت باقی نہیں رہی صاف دلی کی جگہ عداوت نے اورصبر وثبات کی جگہ بےچینی نے لے لی ،صفین میں جب تم لوگ بلائے گئے تھے تو تمہارا دین تمہاری دنیا پر مقدم تھا اور اب حالت اس کے برعکس ہے ہم اب بھی تمہارے لئے ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے؛ لیکن تم ہمارے لئے ویسے نہیں رہے جیسے پہلے تھے، ہاں اب تمہارے سامنے دو قسم کے مقتول ہیں ایک صفین کے مقتول جن کیلئے تم رو رہے ہو دوسرے نہروان کے مقتول جن کا تم بدلہ لینا چاہتے ہو؛ لیکن رونے والا بدلہ پاگیا اورباقی ناکام رہے گا ،معاویہؓ ہمیں ایسے امر کی طرف بلاتے ہیں جو عزت اورانصاف دونوں کے خلاف ہے پس اب اس کا فیصلہ تمہاری رائے پر ہے اگر تم موت چاہتے ہو تو ہم اس کو معاویہؓ ہی کی طرف لوٹا دیں اور تلواروں کی دھار کے ذریعہ سے خدا سے اس کا فیصلہ چاہیں اور اگر تم زندگی چاہتے ہو تو ہم اسے بھی منظور کریں اورتمہارے لئے رضا حاصل کریں۔