انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ایک دلچسپ گفتگو حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ اپنی کتاب "دین وشریعت" میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک ایسے صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے جو اللہ کی ہستی کے بارے میں شک رکھتے تھے اور اس پر بحث کرنا چاہتے تھے، راقم سطور نے اپنی جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کے ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس کاغذپر حروف کسی لکھنے والے نے نہیں لکھے ہیں بلکہ اپنے آپ سے لکھے گئے ہیں، تو کیا آپ میری اس بات کو مان لیں گے یا اس کا امکان بھی تسلیم کریں گے؟ انہوں نے کہا:نہیں، یہ بالکل ناممکن ہے۔ پھر میں نے کہا:اور اگر اسی طرح میں اپنی اس گھڑی کے متعلق آپ سے کہوں کہ یہ کسی بنانے والے نے بنائی نہیں ہے بلکہ اپنے آپ سے بن گئی ہے یا اپنے اس فونٹن پن کے بارے میں دعویٰ کروں کہ یہ کسی بنانے والے نے نہیں بنایا ہے بلکہ یوںہی آسمان سے گرپڑاہے یا اگر کسی تیز چلتی ہوئی گاڑی سے متعلق میں آپ سے کہوںکہ اس کو کسی نے بنایا نہیں ہے بلکہ خودہی بن گئی آپ میری ان باتوں کو باور کرسکیں گے(سمجھ سکیں گے)؟۔ ان صاحب نے جواب دیا کہ ان میں سے تو کسی بات کوبھی عقل تسلیم نہیں کرسکتی، میں نے ان سے کہا:کہ اللہ کے بندے! موٹر فونٹین پن اور گھڑی جیسی چیزوں کے متعلق تو آپ کی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ یہ خودہی بن گئی ہیں اور ان کاغذپر لکھے ہوئے ان چند حروف کے متعلق بھی آپ کی عقل کسی طرح نہیں مان سکتی کہ یہ اپنے آپ سے لکھے گئے ہیں لیکن چاندسورج جو ایک حیرت انگیز حکیمانہ نظام کے ساتھ چل رہے ہیں اور ان سے بھی عجیب کہ انسان کی ہستی، اس کا دل، دماغ اور اس کی آنکھیں اور ان کے کان اور اس کی زبان ان سب کے متعلق آپ کی عقل یہ مان سکتی ہے کہ یہ بغیرکسی کے بنائے اپنے آپ ہی بن گئے ہیں؟ پھر میں نے ان سے کہا کہ جس طرح آپ کے نزدیک یہ بات بالکل بدیہی اور ناقابل بحث ہے کہ کاغذ کے اس پرزے پر جوکچھ لکھا ہوا ہے اسے کسی لکھنے والے نے لکھا ہے اور اس گھڑی اور فونیٹن پن کو کسی بنانے والے ہی نے بنایاہے اور موٹربھی کسی کارخانہ میں بنی ہے؛ اسی طرح یہ بات اس سے بھی زیادہ بدیہی اور قطعاً ناقابل بحث ہے کہ چاندسورج اور انسان وحیوانات اور یہ ساری کائنات حکیم وخبیر اور کسی کامل ہستی کی بنائی ہوئی ہے اور اس میں شک اور بحث کرنا اپنی فطرت کے مسخ ہوجانے، یا اپنی عقل سے بالکل کورے ہونے کا ثبوت دینا ہے؛ بہرحال میرا خیال بلکہ یقین یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا مسئلہ چونکہ انسانوں کے لیے بالکل فطری اور بدیہی مسئلہ تھا، اس لیے قرآن پاک میں اس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی بلکہ مذکورہ بالا قسم کے استدلالی ارشادات کو کافی سمجھاگیا اور یہی ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ کسی بدیہی مسئلہ کو موضوع بحث واستدلال بنانا اور اس پر لمبے چوڑے دلائل پیش کرنا اصولِ حکمت کے خلاف ہے اور ایسا کرنے سے آسان مسئلہ خواہ مخواہ مشکل اور نظری بن جاتا ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ کی ہستی کا مسئلہ انسانی فطرت کے لیے شک اور بحث کے قابل ہے ہی نہیں اور اسی لیے یہ گمراہی کبھی بھی انسانوں میں زیادہ نہیں پھیلی، بلکہ بسااوقات تو ایسابھی دیکھا گیا ہے کہ بظاہر اللہ کا انکار کرنے والوں کو جب ٹٹولاگیا تو اندازہ ہواکہ ان کے بھی دل کے کسی گوشہ میںاللہ تعالیٰکی ہستی کا اقرار چھپاہوا موجود ہے۔ (دین وشریعت:۳۳، ۳۴، مصنف:مولانا محمدمنظور نعمانی رحمہ اللہ)