انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مجدد الف ثانی امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ (م:۱۶۲۴ھ) ۱۔جب تک وہ موت جو معروف موت سے پہلے ہے اور اہل اللہ اس کو فنا سے تعبیر کرتے ہیں ثابت نہ ہوجائے اللہ تعالیٰ کی جناب میں پہنچنا محال ہے؛بلکہ جھوٹے آفائی خداؤں کی پرستش سے نجات نہیں مل سکتی،اس کے سوا نہ تو اسلام کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے اورنہ ہی کمال ایمان میسر آتا ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر اول ،مکتوب :۲۱،ص:۲۴) ۲۔مستحب کی رعایت کرنا اورمکروہ سے بچنا اگرچہ تنزیہی ہو ذکر و فکر،مراقبہ اورتوجہ سے کئی درجہ بہتر ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتراول،مکتوب ۲۹،ص:۲۶) ۳۔علم دو مجاہدوں کے درمیان ہے،ایک وہ مجاہدہ جو علم کے حاصل ہونے سے پہلے اس کی طلب میں ہوتا ہے،دوسرا وہ مجاہدہ جو علم حاصل ہونے کےبعد اس کے استعمال میں ہوتا ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر اول ،مکتوب :۲۹ ص:۲۷) ۴۔سیروسلوک سے مقصود نفس امارہ کا تزکیہ اورپاک کرنا ہے تاکہ جھوٹے خداؤں کی عبادت سے جو نفسانی خواہشات کے وجود سے پیدا ہوتی ہیں نجات حاصل ہوجائے اورحقیقت میں خدائے واحد وبرحق کے سوا کوئی توجہ کا قبلہ نہ رہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتر اول ،مکتوب :۳۵،ص:۳۲) ۵۔شریعت کے تین جز ہیں:علم، عمل اور اخلاص،جب تک یہ تینوں جز متحقق نہ ہوں شریعت متحقق نہیں ہوتی اورجب شریعت حاصل ہوگئی تو گویا حق تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوگئی جو دنیا اورآخرت کی تمام سعادتوں سے بڑھ کر ہے،شریعت دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے اور کوئی ایسا مطلب باقی نہیں جس کے حاصل کرنے کے لئے شریعت کے سوا کسی اور چیز کی طرف حاجت پڑے،طریقت اورحقیقت جن سے صوفیاء ممتاز ہیں شریعت کے تیسرے جز و یعنی اخلاص کے کامل کرنے میں شریعت کے خادم ہیں، پس ان دونوں کی تکمیل سے مقصود شریعت کی تکمیل ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر اول ،مکتوب،۳۶،ص:۳۲) ۶۔بدنی نیک عملوں کے بجالانے کے بغیر دل کی سلامتی کا دعوی کرنا باطل ہے،جس طرح اس جہاں میں بدن کے بغیر روح کا ہونا ناممکن ہے ویسے ہی دل کے احوال بدنی نیک اعمال کے بغیر محال ہیں، اس زمانے میں اکثر ملحد اس قسم کے دعوے کئے بیٹھے ہیں۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر اول،مکتوب:۳۹،ص:۳۸) ۷۔دنیا ظاہر میں میٹھی ہے اور صورت میں تازگی رکھتی ہے،لیکن حقیقت میں زہر قاتل جھوٹا سبب اوربے ہودہ گرفتاری ہے، اس کا مقبول خوار اوراس کا عاشق مجنون ہے،اس کا حکم اس نجاست کا سا ہے جو سونے منڈھی ہو، اس کی مثال اس زہر کی سی ہے جو شکر میں ملا ہوا ہو، عقل مند وہ ہے جو ایسے کھوٹے متاع پر فریفتہ نہ ہو اور ایسے خراب اسباب کا گرفتار نہ ہو، داناؤں نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ میرا مال زمانہ میں سے کسی عقل مند کو دیں تو زاہد کو دینا چاہئے جو دنیا سے بے رغبت ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر اول،مکتوب :۵۰، ص:۴۲) ۸۔بزرگی،سنت کی تابعداری پر منحصر ہے اورزیادتی شریعت کی آوری پر منحصر ہے،مثلاً دوپہر کا سونا جو اس تابعداری کے باعث واقع ہو، کروڑہا کروڑ شب بیداریوں سے جو اس تابعداری کے موافق نہ ہوں اولیٰ وافضل ہے، اسی طرح عید الفطر کا کھانا جس کا شریعت نے حکم دیا ہے خلاف شریعت دائمی روزہ رکھنے سے بہتر ہے،شارع علیہ السلام کے حکم پر پیتل کا دینا اپنی خواہش سے سونے کا پہاڑ خرچ کرنے سے بر تر ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتر اول،مکتوب:۱۱۴،ص:۸۴) ۹۔گمراہ لوگوں یعنی ہنود نے بہت ریاضات اورمجاہدے کئے ہیں لیکن جب شریعت کے موافق نہیں ہے سب بے اعتبار اورخوار ہیں، اگر ان سخت اعمال پر کچھ اجر ثابت ہو بھی جائے تو کسی دنیاوی نفع پر ہی منحصر ہے اورتمام دنیا ہے ہی کیا کہ اس کے نفع کا اعتبار کیا جائے،ان کی مثال خاکروبوں کی سی ہے جن کا کام سب سے زیادہ ہے اور مزدوری سب سے کم ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتر اول ،مکتوب :۱۱۴،ص:۸۴) ۱۰۔لوگوں کے کہنے سننے سے آزردہ نہ ہوں، وہ باتیں جو آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں جب آپ میں نہ ہوں تو کچھ غم نہیں،یہ کس قدر بڑی دولت ہے کہ لوگ کسی کو برا جانیں اوروہ حقیقت میں نیک ہو، ہاں اگر اس قضیہ کا عکس ثابت ہو تو پھر سراسر خطرے کا مقام ہے (یعنی لوگ کسی کو نیک جانیں اوروہ حقیقت میں بد ہو) (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر اول ،مکتوب:۱۴۹،ص:۸۴) ۱۱۔سعادت مند آدمی وہ ہے جس کا دل دنیا کی محبت سے سرد ہوگیا ہو اورحق سبحانہ کی محبت کی گرمی سے گرم ہوگیا ہو،دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے اوراس کا ترک کرنا تمام عبادتوں کا سردار ،کیونکہ دنیا حق تعالیٰ کی مغضوبہ ہے اورجب سے اس کو پیدا کیا ہے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتر اول، مکتوب:۱۹۷،ص:۱۲۱) ۱۲۔دنیا کے ترک کی حقیقت سے مراد اس میں رغبت کا ترک کرنا ہے اوررغبت کا ترک کرنا اس وقت ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کا ہونا اورنہ ہونا برابر ہوجائے اوراس مطلب کا حاصل ہونا جمعیت والے لوگوں کی صحبت کے بغیر مشکل ہے،ان بزرگوں کی صحبت اگر حاصل ہوجائے تو غنیمت جاننا چاہئے اوراپنے آپ کو ان کے سپرد کرنا چاہئے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی ،دفتر اول ،مکتوب:۱۹۷،ص:۱۲۲) ۱۳۔آپ خوب سمجھ لیں کہ اس گروہ یعنی اہل اللہ کا انکار زہر قاتل ہے اوربزرگوں کے اقوال وافعال پر اعتراض کرنا زہر افعی ہے جو ہمیشہ کی موت اور دائمی ہلاکت میں ڈالتا ہے،خاص کر جب یہ اعتراض وانکار پیر کی طرف عائد ہو اورپیر کی ایذاء کا سبب ہو۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتر اول ،مکتوب:۳۱۳،ص:۲۰۹) ۱۴۔خدا کی معرفت اس شخص پر حرام ہے جس کے باطن میں دنیا کی محبت رائی کے دانہ جتنی بھی ہو، باقی رہا ظاہر اس کا ظاہر جو باطن سے کئی منزلیں دور پڑا ہے اورآخرت سے دنیا میں آیا ہے اوراس نے لوگوں کے ساتھ اختلاف پیدا کیا ہے تاکہ وہ مناسبت حاصل ہو جو افادہ اوراستفادہ سے مشروط ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر دوم ،مکتوب:۳۸،ص:۲۵۹) ۱۵۔کمال محبت کی علامت شریعت کی کمال اطاعت ہے اورشریعت کی کمال اطاعت علم وعمل واخلاص پر منحصر ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتردوم،مکتوب:۴۲،ص:۲۶۶) ۱۶۔بلا تعصب و تکلف کہا جاسکتا ہے کہ اس مذہب حنفی کی نورانیت کشفی نظر میں دریائے عظیم کی طرح دکھائی دیتی ہے اوردوسرے تمام مذاہب حوضوں اورنہروں کی طرح نظر آتے ہیں اور ظاہر میں بھی جب ملاحظہ کیا جاتا ہے تو اہل اسلام سے سواد اعظم یعنی بہت زیادہ لوگ امام ابو حنیفہ ؒ کے تابعدار ہیں، یہ مذہب باوجود بہت سے تابع داروں کے اصول و فروع میں تمام مذہبوں سے الگ ہے اور استنباط میں اس کا طریق علیحدہ ہے اوریہ معنی اس کی حقیقت یعنی حق ہونے کا پتہ بتاتے ہیں۔ (ارشادات مجدد الف ثانی، دفتر دوم مکتوب :۵۵،ص:۲۸۴) ۱۷۔اللہ تعالی نے اپنے کمال کرم سے اپنے بندوں پر مباحات کا دائرہ وسیع کیا ہے،وہ شخص بہت ہی بد بخت ہے جو اپنی تنگ دلی کے باعث اس وسعت کو تنگ خیال کرکے اس دائرہ وسیع کے باہر قدم رکھے اور حدود شرعیہ سے نکل کر مشتبہ اور محرم میں جاپڑے،حدود شرعیہ کو لازم پکڑنا چاہئے اوران حدود سے سرموتجاوز نہ کرنا چاہئے،رسم وعادت کے طور پر نماز پڑھنے والے اورروزہ رکھنے والے بہت ہیں لیکن پرہیز گار جو حدود شرعیہ کی محافظت کریں بہت کم ہیں، وہ فرق کرنے والی شے جو حق کو باطل سےا ورجھوٹے کو سچے سے جدا کرے یہی پرہیز گاری ہے کیونکہ روزہ تو سچا اورجھوٹا دونوں رکھتے ہیں۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر دوم ،مکتوب:۸۱،ص:۳۱۴) ۱۸۔جوانی کے زمانہ کا آغاز جس طرح ہویٰ وہوس کا وقت ہے اسی طرح علم وعمل کے حاصل کرنے کا بھی یہی وقت ہے،وہ عمل جو اس وقت میں نفس کی غضبی اورشہوانی رکاوٹوں کے غالب ہونے کے باوجود شریعت مطہرہ کے مطابق کیا جائے اس عمل سے جو جوانی کے سوا اور وقت میں ادا کیا جائے کئی گنا زیادہ اور اعتبار واعتماد رکھتا ہے؛کیونکہ رکاوٹ کا ہونا جو رنج ومحنت کا باعث ہے عمل کی شان کو آسمان تک بلند کردیتا ہے اور مانع کا نہ ہونا جس میں کسی قسم کی کوشش و تکلیف نہیں عمل کے معاملہ کو زمین پر ڈال دیتا ہے،یہی وجہ ہے کہ خواص انسان وخواص فرشتوں سے افضل ہیں؛کیونکہ انسان کی طاعت موانع کے ساتھ ہے اورفرشتوں کی طاعت موانع کے بغیر ہے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی ،دفتر سوم ،مکتوب:۳۵،ص:۳۹۵) ۱۹۔مسلمانی اورمہربانی کا طریق یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے کوئی ایسا کلمہ صادر ہوا ہو جو بظاہر علوم شرعیہ کے مخالف ہو تو دیکھنا چاہئے کہ اس کا کہنے والا کون ہے؟ اگر ملحد وزندیق ہو تو اس کو رد کرنا چاہئے اوراس کی اصلاح میں کوشش نہ کرنی چاہئےاور اگر اس کلمہ کا کہنے والا مسلمان ہو اوراللہ ورسول پر ایمان رکھتا ہو تو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اوراس کے واسطے محمل صحیح پیدا کرنا چاہئے یا اس کے کہنے والے سے اس کا حل طلب کرنا چاہئے، اگر اس کے حل کرنے سے عاجز ہو تو اس کو نصیحت کرنا چاہئے اورنرمی کے ساتھ امربالمعروف اورنہی عن المنکر کرنا چاہئے۔ (ارشادات مجدد الف ثانی،دفتر سوم،مکتوب:۱۲۱،ص:۴۳۷) بارہ ضروری نصائح ۱۔اپنے عقائد کو فرقہ ناجیہ یعنی اہل سنت والجماعۃ کے عقائد کے مطابق درست کریں۔ ۲۔عقائد کے درست کرنے کے بعد احکام فقہیہ کے مطابق عمل بجالائیں؛کیونکہ جس چیز کا امر ہوچکا ہے اس کا بجالانا ضروری ہےاور جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے ہٹ جانا لازم ہے۔ ۳۔پنچ وقت نماز کو سستی اورکاہلی کے بغیر شرائط اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کریں۔ ۴۔نصاب کے حاصل ہونے پر زکوۃ ادا کریں،امام اعظمؒ نے عورتوں کے زیور پر بھی زکوۃ کا ادا کرنا فرمایا۔ ۵۔اپنے اوقات کھیل کود میں صرف نہ کریں اورقیمتی عمر کو بے ہودہ امور میں ضائع نہ کریں۔ ۶۔سرود ونغمہ یعنی گانے بجانے کی خواہش نہ کریں اوراس کی لذت پر فریفتہ نہ ہوں۔ یہ ایک قسم کا زہر ہے جو شہد میں ملا ہوا ہے اور سم قاتل ہے جو شکر سے آلودہ ہے۔ ۷۔لوگوں کی غیبت اور سخن چینی سے اپنے آپ کو بچائیں،شریعت میں ان دونوں بری خصلتوں کے حق میں بڑی وعید آئی ہے۔ ۸۔جہاں تک ہوسکے جھوٹ بولنے اوربہتان لگانے سے پرہیز کریں؛ کیونکہ یہ دونوں بری عادتیں تمام مذاہب میں حرام ہیں اوران کے کرنے والے پر بڑی وعید آئی ہے۔ ۹۔لوگوں کے عیبوں اورگناہوں کا ڈھانپنا اوران کے قصوروں سے درگزر کرنا اورانہیں معاف کرنابڑے عالی حوصلہ والے لوگوں کا کام ہے۔ ۱۰۔غلاموں اورماتحتوں پر مشفق اورمہربان رہنا چاہئے اوران کے قصوروں پر مواخذہ نہ کرنا چاہئے اورموقع وبے موقع ان بے چاروں کو مارنا،کوٹنا ،گالی دینا اورایذا پہنچانا مناسب نہیں ہے۔ ۱۱۔اپنی کوتاہیوں کو نظر کے سامنے رکھنا چاہئے جو ہر ساعت حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی نسبت وقوع میں آرہی ہیں اورحق تعالیٰ ان کے مواخذہ میں جلدی نہیں کرتا اور روزی کو نہیں روکتا۔ ۱۲۔عقائد کے درست کرنے اوراحکام فقہیہ کو بجالانے کے بعد اپنے اوقات کو ذکر الہی میں بسر کریں اور جس طرح کا طریق سیکھا ہوا ہے اسی طرح عمل میں لائیں اورجو کچھ اس کے منافی ہو اور اس کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے اجتناب کریں۔ (ارشادات مجدد الف ثانی ،دفتر سوم، مکتوب: ۳۴،ص:۳۹۳،۳۹۴) مزید ملفوظات حضرت مجددالف ثانی (۱)ایک حکمِ شرعی پر عمل ہزار سالہ ریاضت سے زیادہ نافع ہے ۔ (۲)اتباعِ سنّت میں خوابِ نیم روز(قیلولہ کرنا)بغیر اتباع کےاحیائے لیل(شب بیداری)سے افضل ہے ۔ (۳)شریعت تمام دنیوی و اخروی سعادتوں کی ضامن ہے ، کوئی مطلوب ایسا نہیں کہ اس کی تکمیل کے لئے شریعت کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت پیش آئے ۔ (۴)نوافل کی فرائض کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے ، اپنے وقت پر کسی فرض کی ادائیگی ایک ہزار سال کے نوافل سے بہتر ہے ،اگرچہ وہ نیت خالص کے ساتھ ادا کئے جائیں۔ (۵)زکوۃ کا ایک پیسہ ادا کرنا اپنی طرف سے سونے کا پہاڑ خرچ کردینے سے افضل ہے ۔ (۶)صوفیہ کا عمل حلت و حرمت میں سند نہیں ، کتاب و سنت اور کتبِ فقہ کی دلیل چاہئے ، اس معاملہ میں ہم صوفیہ کو معذور رکھیں اور ان پر ملامت نہ کریں ، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں ۔ (۷)تمام اوقات کو ذکر الٰہی میں مشغول رکھنا چاہئے ، جو بھی عمل شریعت ِ غرّا کے موافق ہوگا وہ داخلِ ذکر ہے اگرچہ بیع و شراء ہو ، پس تمام حرکات و سکنات میں احکامِ شرعیہ کی مراعات ہونی چاہئے ۔ (۸)آپ سے پوچھا گیا کہ اگر محفلِ میلاد محظورات (ممنوعات اور برائیوں )سےخالی ہو تو اس میں کیا حرج ہے ؟ جواب میں ارشاد ہوا کہ اس فقیر کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ جب تک کہ اس کا دروازہ مطلقاً بند نہ کردیا جائے گا اہلِ ہوس اس سے باز نہیں رہیں گے اگر ذرا بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا تو رفتہ رفتہ بات کہیں سے کہیں پہونچ جائے گی ۔ (۹)اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ آزمائش کا وقت اگرچہ تلخ اور بے مزہ ہے لیکن اگر توفیق ہو تو بہت غنیمت ہے ، آج کل جب کہ آپ کو فرصت میسر ہےخدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول رہو ، فرصت کا ایک لمحہ اور ایک لحظہ بھی بے کار ضائع مت کرو ؛ تین چیزیں ہیں ایک تلاوتِ قرآن ِ مجید دوسرے طویل قرأت کے ساتھ ادائے نماز اور تیسرے کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ کا ورد، ان میں کسی ایک کا ورد ہر وقت رکھو ، کلمۂ ’’لا‘‘سے نفس کے معبودوں کی نفی کرو ، اپنے مقاصد اور اپنی مرادوں کو دفع کرو ، اپنی مراد مانگنا بھی اپنی معبودیت کا دعویٰ ہے ۔(فائدہ :یہ نصیحتیں ہم سب کے لئے کار آمد ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے )۔