انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شہادت ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر اس خط کوپڑھ کراپنی ماں حضرت اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ: میرے پاس اب کوئی آدمی نہیں رہا، برائے نام صرف پانچ آدمی باقی ہیں جومیرا ساتھ دینے پر بظاہر آمادہ ہیں، لوگوں نے میرے ساتھ اسی طرح دھوکے کا برتاؤ کیا جیسا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا؛ لیکن ان کے بیٹے جب تک زندہ رہے باپ کے سامنے تلوار لے کردشمنوں سے لڑتے رہے، میرے بیٹے اس فاسق کی امان میں چلے گئے، اب حجاج کہتا ہے کہ تم بھی امان میں آجاؤ اور جوکچھ مانگو ہم دینے کوتیار ہیں؛ پس میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں؟۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ: تم اپنے معاملے کومجھ سے بہتر سمجھتے ہو؛ اگرتم حق پرہو اور حق کی طرف لوگوں کوبلاتے ہوتواس کام میں برابر مصروف رہو، تمہارے ساتھی بھی راہِ حق میں شہید ہوئے اور تم بھی اسی راہ پرگامزن رہ کرشہادت حاصل کرو؛ اگرتم نے دنیا حاصل کرنے کا قصد کیا تھا توتم بہت ہی نالائق آدمی ہو، تم خود بھی ہلاکت میں پڑے اور تم نے اپنے ہمراہیوں کوبھی ہلاکت میں ڈالا، میری رائے یہ ہے کہ تم اپنے آپ کوبنواُمیہ کے حوالے نہ کرو، موت اپنے وقت پرضرور آجائے گی تم کومردوں کی طرح جینا اور مردوں کی طرح مرنا چاہیے، تمہارا یہ کہنا کہ میں حق پرتھا اور لوگوں نے مجھ کودھوکا دے کرکمزور کردیا، ایک ایسی شکایت ہے جونیک آدمیوں کی زبان پرنہیں آیا کرتی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: مجھ کواس بات کا ڈر ہے کہ وہ لوگ قتل کرنے کے بعد مجھ کومثلہ کریں گے اورصلیب پرلٹکائیں گے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ: بیٹا! جب بکری ذبح کرڈالی گئی توپھر اسے اس کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے کہ اس کی کھال کھینچی جاتی ہے، تم جوکچھ کررہے ہو بصیرت کے ساتھ کیے جاؤ اور اللہ سے امداد طلب کرتے رہو۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ماں کے سرکابوسہ لیا اور عرض کیا کہ: میری بھی یہی رائے تھی جواپنی رائے آپ نے ظاہر فرمائی، مجھ کودنیا کی خواہش اور حکومت کی تمنا بالکل نہ تھی، میں نے اس کام کوصرف اس لیے اختیار کیا تھا کہ خدائے تعالیٰ کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی تھی اور ممنوعات سے لوگ بچتے نہ تھے، جب تک میرے دم میں دم ہے میں حق کے لیے لڑتا رہوں گا، میں نے آپ سے مشورہ لینا ضروری سمجھا اور آپ کی باتوں نے میری بصیرت کوبہت کچھ بڑھا دیا اور اماں جان! میں آج ضرور مارا جاؤں گا، تم زیادہ مغموم نہ ہونا، تم مجھ کوخدائے تعالیٰ کے سپرد کردو، میں نے کبھی کسی ناجائز کام کا قصد نہیں کیا اور نہ کسی سے بدعہدی کی، نہ کسی پرظلم کیا، نہ ظالم کا معاون بنا؛ حتی الامکان خدائے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا؛ الہٰی! میں نے یہ باتیں فخر کی راہ سے نہیں کہیں؛ بلکہ صرف اس لیے کہ میری ماں کوتسکین خاطر حاصل ہو، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بولیں: مجھ کوامید ہے کہ خدائے تعالیٰ تم کواس کا اجر عطا فرمائے گا، تم اللہ تعالیٰ کا نام لے کردشمنوں پرحملہ کرو۔ بیٹے کورخصت کرتے وقت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے گلے سے لگایا توہاتھ زرہ پرپڑا، پوچھا تم نے یہ زرہ کس ارادہ سے پہن رکھی ہے، کہا صرف اطمینان ومضبوطی کی غرض سے، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: اسے اُتاردو اور معمولی کپڑے پہنے ہوئے دشمنوں سے لڑو، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے وہیں زرہ اُتار کرپھینک دی، قمیص کے دامن اُٹھاکر کمر سے باندھے، دونوں آستینیں اوپرچڑھائیں اور گھر سے باہر نکل آئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ: اے آلِ زبیر رضی اللہ عنہ! تم تلوار کی جھنکار سے خوف زدہ نہ ہونا؛ کیونکہ زخم میں دوا لگانے کی تکلیف زیادہ ہوتی ہے، بمقابلہ اس تکلیف کے جوزخم کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، تم لوگ اپنی اپنی تلواریں تول لو، جس طرح اپنے چہروں کوبچاتے ہو؛ اسی طرح ان کوبھی خونِ ناحق سے بچاؤ؛ اپنی آنکھیں نیچی کرلو کہ تلواروں کی چمک سے چکاچوند نہ ہوجاؤ، ہرشخص اپنے مقابل پرحملہ آور ہو، تم مجھے ڈھونڈتے نہ پھرنا اور اگرمیری تلاش ہی ہوتومیں سب سے آگے دشمنوں سے لڑتا ہوا ملوں گا۔ یہ کہہ کرشامویں پرایک سخت حملہ کیا، صفوں کوچیرتے، لوگوں کومارتے اور گراتے ہوئے شامیوں کی پچھلی صفوں تک پہنچ گئے اور پھراسی طرح لشکر شام کے سمندر میں تیرتے ہوئے واپس آگئے۔ حجاج ہرچند لوگوں کوترغیب دے رہا تھا؛ مگرکوئی شخص عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابل ہونے کی جرأت نہ کرتا تھا، آخر حجاج نے خود پیدل فوج لے کرحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے علمبردار کوگھیرلیا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فوراً حملہ کرکے اپنے علمبردار کودشمنوں کے نرغے سے نکالا اور حجاج کوپیچھے ہٹادیا، واپس آکرمقامِ ابراہیم پردورکعت نماز ادا کی، حجاج نے پھرحملہ کیا اور باب بنوشیبہ پرحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا علمبردار مارا گیا، مسجد حرام کے کل دروازوں پرشامی ڈٹے ہوئے تھے، مکہ معظمہ کی بھی انہوں نے ناکہ بندی کرلی تھی، حجاج وطارق نے ابطخ کی جانب مروہ تک گھیرلیا تھا، ابنِ زبیر کبھی ایک طرف، کبھی دوسری طرف حملہ کررہے تھے، نماز سے فارغ ہوکر پھرلڑنے لگے تھے، بابِ صفا کی طرف آپ نے حملہ کیا اور شامیوں کوہٹاتے ہوئے دور تک لے گئے، کوہِ صفا کے اوپر سے ایک شخص نے تیرمارا جوپیشانی پرلگا، خون بہنے لگا، آپ اسی حالت میں برابر لڑتے رہے؛ غرض آپ نے اور آپ کے ہمراہیوں نے صبح سے بعد ظہر تک شامیوں کے قتل کرنے میں وہ چابکدستی اور حیرت انگیز شجاعت دکھائی کہ چشمِ فلک نے آج تک نہ دیکھی تھی، آخر ایک ایک کرکے تمام ہمراہی کام آئے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پردشمنوں نے چاروں طرف سے پتھروں اور تیروں کی بارش شروع کردی؛ حالانکہ نیزے اور تلواریں اس سے پیشتر اپنی اپنی کاٹ دکھا چکے تھے؛ بالآخر یومِ سہ شنبہ ماہ جمادی الثانی سنہ۷۳ھ کودنیا کا عظیم الشان بہادر ومتقی انسان شہید ہوا، بہادری وشجاعت، زہد وعبادت اور ہمت وشرافت وغیرہ کے سوا کوئی انسان اس میدان میں ان کی لاش پرکفِ افسوس ملنے والا نہ تھا، لشکر شام نے اس مردہ شیرببر کا سرکاٹنے میں بڑی عجلت وچابک دستی سے کام لیا، حجاج کے سامنے لے گئے تواسی وقت اس نے سجدہ شکر ادا کیا اور لشکر سے نعرۂ تکبیر بلند ہوا؛ لاش اسی جگہ یعنی مقامِ جیحون میں دار پرلٹکادی گئی اور سرعبدالملک کے پاس بھیجا گیا اور دوسری روایت کے موافق سرعبدالملک کے پاس نہیں بھیجا گیا؛ بلکہ خانہ کعبہ کی دیوار یاپرنالہ پرلٹکادیا گیا۔ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنہ نے لاش کے دفن کرنے کی اجازت چاہی؛ مگران کوحجاج نے اس کی اجازت نہ دی، عبدالملک کوجب یہ حال معلوم ہوا تواس نے حجاج کوملامت کی اور لاش دفن کرنے کی اجازت دی، چند روز کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا۔ حجاج شہادتِ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے بعد خانہ کعبہ میں داخل ہوا، پتھروں کی بڑی کثرت تھی جوباہر سے خانہ کعبہ پرپھینکے گئے تھے، فرشِ مبارک پرخون کے جابجا نشانات تھے، پتھروں کواُٹھوایا اور خون کودھلوایا، اہلِ مکہ سے خلافتِ عبدالملک کی بیعت لی، اس کے بعد مدینہ منوّرہ کوواپس ہوا وہاں دومہینے تک ٹھہرا رہا وہاں تمام اہلِ مدینہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھ کرسختیاں شروع کیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوسخت آزاد پہنچائی، وہاں سے پھر مکہ معظمہ کی جانب آیا، حضرت عبداللہ بن زبیر کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کوڈھاکر پھرازسرنوخانہ کعبہ کی تعمیر کی، عبدالملک بن مروان نے حجاج کوملکِ حجاز کا گورنر مقرر کیا اور اس نے طارق کی جگہ مدینہ منورہ میں رہنا شروع کیا۔