انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت صفوان ؓبن امیہ نام ونسب صفوان نام، ابو وہب کنیت، نسب نامہ یہ ہے، صفوان بن امیہ بن خلف بن وہب ابن حمج قرشی،زمانہ جاہلیت میں صفوان کا خاندان نہایت معزز اورمفتخر تھا، ایسا ر یعنی تیروں سے پانسہ ڈالنے کا عہدہ ان ہی کے گھر میں تھا، کوئی پبلک کام اس وقت تک نہ ہوسکتا تھا، جب تک پانسہ سے اس کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ قریش کے دوسرے معززین کی طرح صفوان کا باپ امیہ بھی اسلام کا سخت مخالف تھا، حضرت بلالؓ اسی کی غلامی میں تھے، جن کو وہ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے بڑی عبرت انگیز سزائیں دیتا تھا ،بدر میں اس کا سارا کنبہ مسلمانوں کے استیصال کے ارادہ سے نکلا، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے امیہ کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا، لیکن میدان جنگ میں حضرت بلالؓ کی نظر اس پر پڑ گئی یہ چلائے کہ دشمنِ اسلام امیہ کو لینا ان کی آواز پر مسلمان چاروں طرف سے امیہ پر ٹوٹ پڑے،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بچانے کے لیے امیہ کے اوپر لیٹ گئے،لیکن بلالؓ کی فریاد کے سامنے ان کی کسی نے نہ سنی اورتیروں سے چھید چھید کر امیہ کا کام تمام کردیا، اس کی مدافعت میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی زخمی ہوئے۔ (بخاری کتاب الوکالہ) بدر میں مشرکین کی شکست اورباپ کے قتل نے صفوان کو بہت زیادہ مشتعل کردیا، ایک دن یہ اور عمیر بن وہب بیٹھے ہوئےبدر کے واقعات کا تذکرہ کررہے تھے، صفوان نے کہا مقتولین بدر کے بعد زندگی کا مزہ جاتا رہا، عمیر نے جواب دیا سچ کہتے ہو، کیا کہیں اگر قرض کا بار نہ ہوتا اور بال بچوں کے مستقبل کی فکر نہ ہوتی تو محمدﷺ کو قتل کرکے یہ قصہ ہی ختم کردیتا، صفوان باپ کے خون کے انتقام کے لیے بیتاب تھے، بولے یہ کون سی بڑی بات ہے، میں ابھی تمہارا قرض چکائے دیتا ہوں، رہا اہل وعیال کا معاملہ تو ان کے متعلق بھی یقین دلاتا ہوں کہ تمہارے بعد اپنے بال بچوں کی طرح ان کی کفالت اورخبر گیری کروں گا؛چنانچہ عمیر کو آمادہ کرکے انہیں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار دیکر آنحضرتﷺ کا قصہ چکانے کے لیے مدینہ بھیجا، مگر مدینہ پہنچنے کے بعد جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے تو راز فاش ہوگیا، اور عمیر مسلمان ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ عمیر بن وہب) اس سازش کی ناکامی کے بعد صفوان نے جن جن کے اعزہ بدر میں مارے گئے تھے، انہیں ساتھ لیکر ابو سفیان کو بدلہ لینے پر آمادہ کیا، اس کا نتیجہ احد کی صورت میں ظاہر ہوا، ابو سفیان مسلمانوں کی عارضی شکست کے بعد مکہ واپس ہورہا تھا، مگر پھر یہ خیال کرکے کہ اس وقت مسلمان کمزور ہیں ان سے پورا بدلہ لینا چاہا، لیکن صفوان نے کہا کہ اس مرتبہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں، ممکن ہے آیندہ خلاف نتیجہ نکلے، اس لیے لوٹنا مناسب نہیں ہے، اس کے سمجھانے پر ابوسفیان لوٹ آیا۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۷۱۱) ۳ھ میں بعض نو مسلم قبائل کی درخواست پر آنحضرتﷺ نے ان کی تعلیم کے لیے قاری صحابہ کی ایک جماعت بھیجی تھی،راستہ میں بنی لحیان نے ان پر حملہ کردیا، اس حملہ میں چند صحابہ شہید ہوئے اورچند زندہ گرفتار کئے گئے، گرفتار ہونے والوں میں ایک صحابی زید بن دستہ تھے،ان کو بیچنے کے لیے مکہ لایا گیا، صفوان نے خرید کر اپنے باپ کے بدلہ میں قتل کیا۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۷۱۱) اس کے بعد صفوان کو اسلام سے پہلے سی پرخاش باقی نہ رہی ؛بلکہ اندرونی طور پر وہ متاثر ہونے لگے؛چنانچہ ۷ھ میں جب غزوۂ خیبر پیش آیا تو دوسرے آلاتِ حرب تو مسلمانوں کو مہیا ہوگئے،لیکن زرہیں نہ تھیں، آنحضرتﷺ نے صفوان سے مانگ بھیجیں،انہوں نے کہا عاریۃ یا غصباً، فرمایا عاریۃً؛چنانچہ صفوان نے چند زر ہیں، عاریۃً دیں یہ پہلا موقع تھا کہ ان کے جیسے دشمن اسلام کی جانب سے اس کی امداد کا کوئی کام ہوا، ان زر ہوں میں سے غزوۂ خیبر میں چند ضائع ہوگئیں،آنحضرتﷺ نے تاوان دینا چاہا، لیکن صفوان نے قبول نہ کیا اورکہا یا رسول اللہ آج اسلام کی جانب میرا میلان ہورہا ہے (مسند آحمد بن حنبل:۳/۴۰۱) لیکن قومی عصبیت نے اس میلان کو دبادیا اور فتح مکہ میں مسلمانوں سے مزاحم ہوئے۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۳۳۸) فتح مکہ کے بعد جب روسائے قریش کا شیرازہ بکھر گیا اور ان کے لیے کو ئی جائے پناہ باقی نہ رہ گئی تو ان میں سے اکثر آنحضرتﷺ کے لطف وکرم اورعفو ودرگذر کو دیکھ کر مشرف باسلام ہوگئے اوربعضوں نے اپنی گذشتہ کرتوتوں کے خوف اور بعضوں نے تعصب کی وجہ سے راہ فرار اختیار کی،صفوان نے بھی جدہ کا راستہ لیا، ان کے عزیز اورقدیم رفیق عمیر بن وہب نے جو بدر کے بعد ہی مشرف باسلام ہوگئے تھے،آنحضرتﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ سردارِ قوم صفوان بن امیہ آپ کے خوف سے بھاگ گئے ہیں، آپ نے فرمایا وہ مامون ہیں، عمیر نے کہا یا رسول اللہ جان بخشی کی کوئی نشانی مرحمت ہو،آپ نے ردائے مبارک دی کہ وہ اسے دکھا کر صفوان کو اسلام کی دعوت دیں اورانہیں آنحضرتﷺ کے پاس بلا لائیں، اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو فبہا ورنہ انہیں غور کرنے کے لئے دو مہینہ کی مہلت دیجائے، عمیر ردائے مبارک لیکر صفوان کی تلاش میں نکلے اورانہیں رداءدکھا کر مدینہ واپس لے آئے اوروہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مجمع عام میں بلند آواز سے آپ سے پوچھا محمد عمیر بن وہب نے مجھ سے تمہاری چادر دکھا کر کہا ہے کہ تم نے مجھ کو بلایا ہے اورمجھے اختیار دیا ہے کہ اگر میں پسند کروں تو اسلام قبول کرلوں، ورنہ دو مہینہ کی مہلت ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا ابو وہب سواری سے اترو، انہوں نے کہا جب تک صاف نہ بتاؤ گے نہ اترونگا،آنحضرتﷺ نے فرمایا دو کے بجائے تم کو چار مہینہ کی مہلت ہے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۱۴۷،موطا امام مالک:۱۱۷) اس عفو ودر گذر اورنرمی وملاطفت کے بعد بھی صفوان اپنے مذہب پر قائم رہے؛ لیکن اسلام کے ساتھ کوئی پرخاش باقی نہیں رہی؛چنانچہ اس کے بعد ہی جنگ حنین اورطائف ہوئی،اس میں بھی انہوں نے اسلحہ سے مسلمانوں کی مدد کی اورخود بھی دونوں لڑائیوں میں شریک ہوئے (موطا امام مالک:۱۱۷)آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت میں سے سو اونٹ انہیں مرحمت فرمائے یہ لطف و مرحمت دیکھ کر صفوان نے کہا ایسی فیاضی نبی ہی کرسکتا ہے (استیعاب:۱/۲۲۸) ان کی بیوی ان سے پہلے مشرف باسلام ہوچکی تھی،لیکن آنحضرتﷺ نے دونوں میں تفریق نہیں کی ۔(ایضاً) اسلام آنحضرتﷺ کے اس طرز عمل سے متاثر ہوکر غزوۂ طائف کے چند دنوں بعد مشرف اسلام ہوگئے،اس وقت آنحضرتﷺ نے نکاح کی تجدید نہیں فرمائی۔ (ایضا:۳۵۳) مدینہ کی ہجرت اورواپسی صفوان تاخیر اسلام کی وجہ سے ہجرت کا شرف حاصل نہ کرسکے تھے، کسی نے ان سے کہا جو ہجرت کے شرف سے محروم رہا وہ ہلاک ہوگیا، صفوان یہ سن کر ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے۔ (استیعاب :۱/۳۲۸) اورحضرت عباسؓ کے یہاں اُترے،آنحضرتﷺ کو ان کی ہجرت کی خبر ہوئی، تو فرمایا،فتح کے بعد ہجرت نہیں ہے اورصفوان سے پوچھا کس کے یہاں اترے ہو، عرض کی عباس کے یہاں، فرمایا ایسے قریش کے ہاں جو قریش کو بہت زیادہ محبوب رکھتا ہے، پھر انہیں مکہ واپس جانے کا حکم دیا، اس حکم پر صفوان مکہ واپس گئے،اوربقیہ زندگی مکہ ہی میں بسر کی۔ (ایضاً) جنگ یرموک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شام کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے، اور اس سلسلہ کی مشہور جنگ یرموک میں ایک دستہ کے افسر تھے۔ (طبری:۲۰۹) وفات امیر معاویہ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی (استیعاب:۲/۳۲۹) وفات کے بعد دو لڑکے امیہ اور عبداللہ یاد گار چھوڑے فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے کوئی خاص مرتبہ نہ تھا، تاہم احادیث سے انکا دامنِ علم خالی نہیں ہے، امیہ ،عبداللہ ،صفوان بن عبداللہ، حمید بن حجیر، سعید بن مسیب،عطاء، طاؤس ،عکرمہ اورطارق بن مرقع وغیرہ نے ان سے روایتیں کی ہیں (تہذیب التہذیب :۴/۴۲۴) البتہ اس عہد کے دوسرے ممتاز علوم میں کمال رکھتے تھے؛چنانچہ خطابت،فصاحت وبلاغت میں جو اس عہد کے کمالات تھے،صفوان کا شمار بلغائے عرب میں تھا۔ (اصابہ:۳/۲۳۷) عام حالات فیاضی اورسیر چشمی ان کی فطرت میں تھی،زمانہ جاہلیت ہی سے وہ قریش کے فیاض اورعالی حوصلہ لوگوں میں تھے اوران کا دسترخوان لوگوں کیلئے صلائے عام تھا۔ (استیعاب:۲/۳۲۹)