انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابن طبا طبا اور ابوالسریٰ کا خروج ابوالسرایا سریٰ بن منصور قبیلۂ بنوشیبان سے تعلق رکھتا تھا، خلافتِ امین کے زمانہ میں وہ عاملِ جزیرہ کی فوج میں تھا، وہاں اس نے بنوتمیم کے ایک شخص کوقتل کرڈالا، عامل جزیرہ نے قصاص کی غرض سے اس کی گرفتاری کا حکم دیا تووہ فرار ہوکر رہزنی کرنے لگا، آخر تیس آدمی اس کے ساتھ اس رہزنی میں شریک ہوگئے، چند روز کے بعد وہ معہ اپنے گروہ یزید بن مزید کے پاس آرمینیا چلا گیا، یزید بن مزید نے اُس کوسپہ سالاری کا عہدہ عطا کردیا، یزید بن مزید فوت ہوگیا تواس کے لڑکے اسد بن یزید کے پاس رہنے لگا، جب اسف آرمینیا کی حکومت سے معزول ہوا توابوالسرایا احمد بن مزید کے پاس چلا گیا، امین نے احمد بن مزید کوجنگِ ہرثمہ پرمامو کیا تواحمد بن مزید نے ابوالسرایا کواپنے لشکر کے مقدمۃ الجیش کی سرداری عطاکی ہرثمہ نے اس سے سازش کرلی اور ہرثمہ کے پاس چلا گیا۔ ہرثمہ کے پاس جاکر اس نے جزیرہ سے اپنے قبیلہ بنو شیبان کے آدمیوں کوبلایا وہ دوہزار کی تعداد میں جزیرہ سے آکر ہرثمہ کے لشکر میں بھرتی ہوگئے، ابوالسرایا نے ہرثمہ سے کہہ کر ان کے بڑے بڑے روزینے مقرر کرائے، جب امین مقتول ہوا توہرثمہ نے بنوشیبان کے روزینے دینے سے انکار کیا، ابوالسرایا نے ناراض ہوکر ہرثمہ سے حج کی اجازت چاہی، ہرثمہ نے اجازت دے دی اور بیس ہزار درہم سفرخرچ عطا کیا، ابوالسرایا نے یہ بیس ہزار درہم اپنے ہمراہیوں کوتقسیم کردیئے اور کہا کہ تم لوگ بھی ایک ایک دودو کرکے میرے پاس چلے آنا؛ چنانچہ ابوالسرایا ہرثمہ سے رخصت ہوکر بظاہر حج کے ارادے سے روانہ ہوا، راستے میں قیام کردیا اور وہیں دوسوآدمی آآکر اُس کے پاس جمع ہوگئے، ان لوگوں کومرتب کرکے ابوالسرایا نے عین التمر پرحملہ کیا اور وہاں کے عاملوں کوگرفتار کرکے عین التمر کوخوب لوٹا، مالِ غنیمت اپنے ہمراہیوں کوتقسیم کردیا؛ پھراس نے اپنی لوٹ مار کے سلسلے کوجاری رکھ کرکئی مقامات سے سرکاری خزانے لوٹے۔ ہرثمہ نے اس کی سرکوبی وگرفتاری کے لیے فوج بھیجی، ابوالسرایا نے اس کوشکست دے کربھگادیا، اس کے بقیہ ہمراہی بھی اُس سے آملے اور اس کی جمعیت بڑھ گئی، اس کے بعد ابوالسرایا نے وقوقا کے عامل کوشکست دے کروہاں کا خزانہ لوٹا؛ پھرانبار کا قصدکیا وہاں کے عامل ابراہیم شروی کوقتل کرکے انبار کوخوب لوٹا اور مالِ غنیمت اپنے ہمراہیوں کوتقسیم کرکے چل دیا، انبار سے رواہ ہوکر طوق بن مالک تغلبی کے پاس گیا وہاں سے رقہ کی جانب روانہ ہوا وہاں اتفاقاً محمد بن ابراہیم بن اسماعیل بن ابرایم بن حسن مثنی بن علی سے ملاقات ہوگئی جومدعی خلافت بن کراُٹھے اور اپنے گروہ کولے کررقہ سے نکلے تھے، ان کے باپ ابراہیم طبا طبا کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے، اس لیے یہ ابن طبا طبا مشہور تھے۔ اب یہ وہ زمانہ تھا کہ حسن بن سہل عراق وحجاز ویمن وغیرہ کا حاکم مقرر ہوکر بغداد میں آچکا تھا اور عام طور پراہلِ عرب کی اقتدار کوخطرہ اور نفرت کے نظر سے دیکھ رہے تھے اور مامون کی خلافت کواپنے لیے مضر سمجھنے لگے تھے، علوی لوگ جابجا اس حالت سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے، اُدھر نصر بن شیث نے اعلان کردیا تھا کہ میں خاندانِ عباسیہ کا مخالف اور دشمن نہیں ہوں؛ بلکہ موجودہ حکومت کی اس لیے مخالفت کررہا ہوں کہ اس حکومت نے اہلِ عجم کواہلِ عرب پرمقدم کردیا ہے، اس اعلان کا یہ اثر تھا کہ نصر بن شیث کے مقابلہ میں مامون کے عرب سردارانِ فوج کی سرگرمیاں سست پڑگئی تھیں۔ ہرثمہ کوبھی اسی زمانے میں حسن بن سہل نے ناخوش ہوکر خراسان کی جانب رخصت کیا تھا، ابوالسرایا نے محمد بن ابراہیم (ابن طبا طبا) کے وجود کوبہت غنیمت سمجھا اور فوراً ان کے ہاتھ پربیعت کرلی، ابن طبا طبا نے ابوالسرایا کوبراہِ دریا کوفہ کی جانب روانہ کیا اور خود براہِ خشکی کوفہ کی جانب روانہ ہوئے، قرار داد کے موافق ۱۵/جمادی الثانی سنہ۱۹۹ھ کوایک طرف سے ابوالسرایا اور دوسری طرف سے ابن طبا طبا کوفہ میں داخل ہوئے اور قصرِ عباس جوموسیٰ بن عیسیٰ کوکہ یہی گونرکوفہ کی قیام گاہ تھا اور یہیں شاہی خزانہ بھی تھا لوٹ لیا تمام شہر پرقبضہ حاصل ہوگیا اور اہلِ کوفہ نے ابن طبا طبا کے ہاتھ پربیعت کرلی۔ حسن بن سہل نے کوفہ پرابوالسرایا اور ابن طبا طبا کے قبضہ کا حال سن کرزہیر بن مسیب کودس ہزار کی جمعیت سے کوفہ کی جانب روانہ کیا، ابوالسرایا اور ابنِ طبا طبا نے کوفہ سے نکل کرزہیر بن مسیب کا مقابلہ کیا، زہیر کی فوج کوشکست ہوئی ابوالسرایا نے زہیر کے لشکر گاہ کولوٹا اور قتل وغارت میں بے رحمی سے کام لیا، ابن طبا طبا ابوالسرایا کوبے رحمی اور قتل وغارت سے منع کیا، ابوالسرایا جوشروع سے قتل وغارت اور آزادی کا عادی تھا، اس روک تھام اور دخلِ غیر کوبرداشت نہ کرسکا، اس نے ابن طبا طبا کوزہر دلوادیا، اگلے دن وہ مردہ پائے گئے اور ان کی حکومت وملک گیری کا زمانہ بہت ہی جلد ختم ہوگیا، ابوالسرایا نے فوراً ایک نوعمر لڑکے محمد بن بن جعفر بن محمد بن زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کوابن طبا طبا کا قائم مقام بناکر بیعت کی اور خود تمام کاموں کوخود مختارانہ طور پرانجام دینے لگا۔