انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ومسنون طریقۂ نماز عیدین ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں ، جن میں اس قوم کے لوگ اپنی اپنی حيثیت اور سطح کے مطابق اچھالباس پہنتے اور عمدہ کھانا پکاتے ہیں اور دوسرے طریقوں سے بھی اپنی اندرونی مسرت وخوشی کا اظہار کرتے ہیں یہ گویا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اسی لیے انسانوں کا کوئی طبقہ اورفرقہ ایسا نہیں ہے جس کے پاس تہوار اورجشن کے کچھ خاص دن نہ ہوں۔ اسلام میں عید اوراس کی ابتداء اسلام میں بھی ایسے دودن رکھے گئے ہیں ایک عیدالفطر اور دوسرےعیدالاضحیٰ؛ لہٰذا یہی دو عید مسلمانوں کے اصلی مذہبی وملی تہوار ہیں، ان کے علاوہ مسلمان جو تہوار مناتے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت اوربنیاد نہیں ہے؛ بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے ان میں سے اکثر خرافات ہیں،مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ رسول اللہﷺ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے، عيدالفطر اورعیدالاضحی ان دونوں تہواروں کا سلسلہ بھی اسی وقت سے شروع ہوا۔ مدینہ کے لوگ (جن کی کافی تعداد پہلے ہی اسلام قبول کرچکی تھی)سال میں دو دن خوشی کے مناتے تھے، ان دونوں میں خوب کھیل کود ہوتا تھا اورگانے بجانے کی مجلسیں جمتی تھیں رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: یہ دودن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اورحیثیت ہے؟(تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اورتاریخ ہے) انہوں نے عرض کیا : ہم جاہلیت میں اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے(وہی رواج ہے جو اب تک چل رہا ہے) مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب خرافات کو ختم کرکے اللہ کے حکم سے ان کے بدلے دو خوشی کے دن(عید الفطر،عیدالاضحی) مقرر فرمائے۔ (ابوداؤد،باب صلاة العيدين، حدیث نمبر:۹۵۹) ان دنوں میں اظہار مسرت کا مظاہرہ کھیل کود لہو و لعب اورتفریحات کے ذریعہ نہیں کرایا گیا بلکہ اسلام کے ماننے والوں کو حکم ہوا کہ وہ مسرت کا اظہار اس انداز میں کریں کہ وہ خوشی ان کے ظاہر و باطن سے نمایاں ہوسکے،دلوں کی گہرائیوں سے سرور کی خوشبوئیں اٹھیں، ذہن و دماغ کے گوشوں سے عطر بیز ہوائیں پھیلیں اوربدن کا رگ و ریشہ اظہار مسرت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوششیں کرنے لگے؛ ایسی لازوال خوشی کے حصول میں اوراس کے اظہار کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اوروہ یہ ہے کہ انسان جس پروردگار کا بندہ ہے اس کی بندگی کا اظہار کرکے اس کی خوشنودی کا مستحق بن جائے،ظاہر ہے کہ جس بندہ کا آقا اس سے خوش ہوجائے اس کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی اور عید کا موقع اورکیا ہوسکتا ہے؟اسی لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے: "وَرِضْوَانُ مِّنَ اللہِ أَکْبَرْ"۔ (عون المعبود، باب صلاة العيدين:۳/۸۸) اور اللہ کی طرف سے خوشنودی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالی نے خوشی کے موقع پر اہل ایمان کے لیے اظہار بندگی کا حکم دیکر شکرانہ کے طورپر دوگانہ ادا کرنے کی تاکید فرمائی ،یہی عید کی اصل روح ہے، بقیہ جو چیزیں ہیں ،غسل کرنا، خوشبولگانا، نئے کپڑے پہننا وغیرہ یہ سب ضمنی ہیں۔ اس مضمون کے اظہار کے لیے بعض علماء نے اقوال حکمت نقل فرماتے ہیں، ہم یہاں دو قول ذکر کرتے ہیں: (۱)"لیس العید لمن لبس الجدید انما العید لمن امن الوعید"۔ (مرقاة المفاتيح، باب صلاة العيدين:۵/۱۲۳) اصل عید اس کی نہیں جو صرف نئے نئے کپڑے پہن لے بلکہ عید اس کی ہے جو اللہ تعالی کی وعید سے محفوظ ہو جائے یعنی منکرات اور معاصي سے بچے اوراپنے آقا کو راضی کرنے کی کوشش کرے، اس کے برخلاف اگر گناہوں میں مست ہے اورمحض ظاہری طورپر نئے کپڑے پہن کر عید کی خوشی میں شریک ہونا چاہتا ہے، تو اسے حقیقی مسرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ (۲)"لیس العید لمن تبخر بالعود انما العید للتائب الذی لایعود"۔ اصل عید اس کی نہیں جو عود کی خوشبو استعمال کرے؛ بلکہ عید تو اس توبہ کرنے والے کے لیے ہے جو یہ عزم کرلے کہ اب کبھی گناہ نہیں کریگا،مطلب یہ ہے کہ توبہ بھی صرف وقتی نہ ہو بلکہ سچی اورپختہ کرنے والا ہی حقیقی مسرت سے مالا مال ہوسکتا ہے۔ عید کے لیے دنوں کی تعیین عید الفطر رمضان المبارک کے ختم ہونے پر یکم شوال کو اورعیدالاضحی ۱۰/ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے،رمضان المبارک دینی وروحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک مہینہ ہے، اسی ماہ کے مہینہ میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا؛ اسی پورے مہینہ کے روزے فرض کئے گئے؛ اسی کی راتوں میں ایک مستقل باجماعت نماز کا اضافہ کیا گیا اورہر طرح کی نیکیوں میں اضافہ کی ترغیب دی گئی؛ الغرض یہ پورا مہینہ خواہشات کی قربانی ،مجاہدہ اورہرطرح کی طاعات وعبادات کی کثرت کا مہینہ قراردیا گیا ،اب ظاہر ہے کہ اس کے خاتمہ پر جو دن آئے ایمانی اورروحانی برکتوں کے لحاظ سے وہی سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اس امت کے جشن ومسرت کا دن اورتہوار بنایا جائے؛ چنانچہ اسی دن کو عید الفطر قراردیا گیا۔ ۱۰/ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں امت مسلمہ کے موسس و مورث اعلی سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالی کا حکم واشارہ پاکر اپنے لخت جگر سیدنا اسمعیل علیہ اسلام کو ان کی رضا مندی سے قربانی کے لیے اللہ کے حضور میں پیش کرکے اوران کے گلے پر چھری رکھ کراپنی سچی وفاداری اورکامل تسلیم ورضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالی نے عشق ومحبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قراردیکر حضرت اسماعیل کو زندہ و سلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمائی تھی اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے سرپر "إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا" (البقرۃ:۱۲۴) کا تاج رکھ دیا تھا اوران کی اس ادا کی نقل کو قیامت تک کے لیے "رسم عاشقی" قراردیدیا تھا؛لہٰذا اگر کوئی دن کسی عظیم تاریخی واقعہ کی یادگار کی حیثیت سے تہوار قراردیا جاسکتا ہے تو اس امت مسلمہ کے لیے جو ملت ابراہیمی کی وارث اوراسوۂ خلیلی کی نمائندہ ہے، ۱۰/ذی الحجہ کے دن کے مقابلہ میں کوئی دوسرا دن اس کا مستحق نہیں ہوسکتا ، اس لیے دوسری عید ۱۰/ذی الحجہ کو قرار دیا گیا،جس وادی غیر ذی زرع میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس وادی میں پورے عالم اسلامی کے حج کا سالانہ اجتماع اوراس کے مناسک قربانی وغیرہ اس واقعہ کی گویا اصل اور اول درجہ کی یادگار ہے اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عید الاضحی کی تقریبات نماز اورقربانی وغیرہ بھی اس کی گویا نقل اور دوم درجہ کی یاد گار ہے بہر حال ان دونوں (یکم شوال اور ۱۰ ذی الحجہ) کی ان خصوصیات کی وجہ سے ان کو یوم العید اورامت مسلمہ کا تہوار قراردیا گیا۔ عید کی سنتیں (۱)غسل کرنا۱؎ (۲)مسواک کرنا۲؎ (۳)خوشبو لگانا۳؎ (۴)اچھے کپڑے پہننا۴؎ (۵)عیدالفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا۵؎ (۶)عید الاضحی میں عید گاہ سے آکر اپنی قربانی کا گوشت کھانا۶؎ (۷)عیدگاہ پیدل جانا۷؎ (۸)ایک راستہ سے جانا اوردوسرے راستہ سے آنا۸؎ (۹)عيدالاضحی میں ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے والوں کا قربانی کرنے تک ناخن کاٹنے اورسر وغیرہ کے بال نکالنے سے پرہیز کرنا۹؎ (۱۰)عیدین کی راتوں میں عبادات میں مصروف رہنا۱۰؎۔ (۱)"عَنْ الْفَاكِهِ بْنِ سَعْدٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ وَيَوْمَ عَرَفَةَ" ابن ماجہ،باب ماجاء فی الاغتسال فی العیدین، حدیث نمبر:۱۳۰۶۔ (۲،۳)"الغسل والتطيب والاستياك" الفقہ الاسلامی وادلتہ،صلاۃ العیدین: ۲/۵۳۸۔ (۴)"عن ابن عباس قال كان رسول اللهﷺ يلبس يوم العيد بردة حمراء" المعجم الاوسط للطبرانی،باب المیم من اسمہ:محمد، حدیث نمبر:۷۸۲۴۔ (۵)"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ" بخاری،باب الاکل یوم الفطر قبل الخروج، حدیث نمبر:۹۰۰۔ (۶)"عن بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّﷺ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ" ترمذی،باب ماجاء فی الاکل یوم الفطر قبل، حدیث نمبر:۴۹۷۔ "لياکل من الاضحیۃ ان ضحی" الفقہ الاسلامی وادلتہ،سنن العید:۲/۵۳۹۔ (۷)"عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا" ترمذی،باب ماجاء المشی یوم العید، حدیث نمبر:۴۸۷۔ (۸)"عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ" بخاری،باب من خالف الطریق اذارجع یوم العيد، حدیث نمبر:۹۳۳۔ (۹)"عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ تَرْفَعُهُ قَالَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا" مسلم،باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ، حدیث نمبر:۳۶۵۴۔ "عن كردوس قال : قال رسول اللهﷺ :من أحيا ليلتي العيد وليلة النصف من شعبان ، لم يمت قلبه يوم تموت القلوب" معرفۃ الصحابۃ،باب کردوس بن عمرو، حدیث نمبر:۵۳۳۳، جلدنمبر:۱۷/۷۷۔ عید کی نماز عید کی نماز ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز واجب ہے۱؎۔ عیدکی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ایک نیزہ بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے اور زوالِ آفتاب تک باقی رہتا ہے اورنماز عید الفطر میں کسی قدرتا خیر مسنون ہے؛ تاکہ صدقۃ الفطرادا کرنے میں آسانی ہو اورنماز عیدالاضحی میں عجلت بہتر ہے تاکہ قربانی کرنے میں سہولت ہو۲؎۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے مثلا اگرچاند نظر آنے کی اطلاع دیرسے ہوئی ہو یا کوئی ایسا عذر آگیا کہ یکم شوال کو فورا نماز عید نہ پڑھ پائے تو دوسرے دن نماز ادا کی جاسکتي ہے، اس کے بعد نہیں پڑھی جائے گی۳؎۔ (۱)" فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ"الکوثر:۲۔ "تجب صلاة العيدين على من تجب عليه الجمعة بشرائطها المتقدمة سوى الخطبة، فإنها سنة بعدها، ودليلهم على الوجوب: مواظبة النبي صلّى الله عليه وسلم عليها"۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ،صلاۃ العیدین:۲/۵۱۴۔ (۲)"عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَالشَّمْسُ عَلَى قِيدِ رُمْحَيْنِ وَالْأَضْحَى عَلَى قِيدِ رُمْحٍ" التلخیص الحبیر المذیل بالحواشی، باب کتاب صلاۃ العیدین:۲/۱۹۵، حدیث نمبر:۶۸۴۔ "عن ابن الحويرث الليثي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى عمرو بن حزم وهو بنجران: أن عجل الأضحى وأخر الفطر وذكر الناس" مسند الشافعی،باب ان عجل الاضحی واخر الفطر وذکر، حدیث نمبر:۲۹۹۔ (۳)"عن عمومة لي من الأنصار من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : غم علينا هلال شوال فأصبحنا صياما فجاء ركب من آخر النهار فشهدوا عند رسول الله صلى الله عليه و سلم إنهم رأوا الهلال بالأمس فأمر رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يفطروا من يومهم وأن يخرجوا لعيدهم من الغد" مسند احمد بن حنبل،حدیث رجال من الانصار،حدیث نمبر:۲۰۶۰۳۔ عید کی نماز کا مسنون طریقہ گھر سے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے یا نکلتے وقت صدقہ فطر ادا کرتے ہوئے ۱؎ اور تکبیر تشریق (عیدالفطر میں پست آواز سے اورعید الاضحی میں بآواز بلند ) کہتے ہوئے عید گاہ جائے۲؎ اور بغیر اذان واقامت کے دورکعت نماز پڑھی جائے۳؎ عید کی نماز کے لیے یہ نیت کرے کہ میں عید الفطر یا عیدالاضحی کی نماز اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں ۴؎ پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے، ثنا پڑھے پھر دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے اوردونوں ہاتھ چھوڑدے؛ پھر دوسری بار بھی اسی طرح کرے پھر تیسری بار اسی طرح ہاتھ اٹھاکر کہے اور ہاتھ باندھ لے؛ اس کے بعد امام صاحب تعوذ، تسمیہ آہستہ پڑھے اور سورۂ فاتحہ اور سورۃ جہرا پڑھ کر رکوع کرے پھر دوسجدہ کرلے؛ اس کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو کر پہلے قرأت کرے؛ پھر تین زائد تکبیروں کے لیے تین بار "اَللہُ أَکْبَرْ" کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اورچھوڑ دے؛ اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جائے؛ باقی نماز قاعدہ کے موافق پوری کرے۵؎ نماز کے بعد دو خطبے امام صاحب دیں۶؎۔ (۱)"عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْصَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ" بخاری،فرض صدقۃ الفطر، حدیث نمبر:۱۴۰۷۔ (۲)"يندب التكبير سراً في عيد الفطر في الخروج إلى المصلى لحديث خير الذكر الخفي، وخير الرزق ما يكفي ، ويقطعه إذا انتهى إلى المصلى في رواية، وفي رواية: إلى الصلاة وقال الصاحبان يكبر جهراً، واتفقوا على التكبير جهراً في عيد الأضحى في الطريق" الفقہ الاسلامی وادلتہ،حکم التکبیر فی العیدین: ۲/۵۳۱۔ (۳)"عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيدِ فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ" مسلم،باب کتاب العیدین، حدیث نمبر:۱۴۶۷۔ "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفِطْرِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا" بخاری،باب الخطبۃ بعد العید،حدیث نمبر:۹۱۱۔ (۴)"عن عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" بخاری،بدء الوحی، حدیث نمبر:۱۔ (۵)"عن بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَّى بِنَا ، النَّبِيُّﷺ يَوْمَ عِيدٍ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، وَأَرْبَعًا ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ ، قَالَ : لَا تَنْسَوْا ، كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ ، وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ ، وَقَبَضَ إبْهَامَهُ " شرح معانی اللآثار،باب صلاۃ العیدین کیف التکبیر: ۶/۲۵،فھذا حدیث،حسن الاستاد۔ "ودلالتہ علی عدد تکبیرات العید ظاھرۃ، والأربع فی الأولی مجموع تکبیر الاحرام، والزوائد، وفی الأخری مجموع تکبیر الرکوع الزوائد" اعلاء السنن،باب کیفیت صلاۃ العیدین: ۸/۱۲۸۔ "عن علقمة و الأسود بن يزيد : أن ابن مسعود كان يكبر في العيدين تسعا أربعا قبل القراءة ثم يكبر فيركع وفي الثانية يقرأ فإذا فرغ كبر أربعا ثم ركع " المعجم الکبیر،باب عبداللہ بن مسعود ، حدیث نمبر:۹۵۱۷، جلدنمبر:۹/۳۰۴۔ (۶)"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ ثُمَّ يَنْصَرِفُ"بخاری، باب الخروج الی المصلی بغیر منبر، حدیث نمبر:۹۰۳۔