انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۷۵۔میمون بن مہرانؒ نام ونسب میمون نام،ابوایوب کنیت،اوروالد کا نام مہران تھا،مہران بنی نصربن معاویہ کے مکاتب غلام تھے۔ پیدائش ۴۰ میں پیدا ہوئے،کوفہ کی ایک ازدی عورت کے غلام تھے اس لیے ان کی ابتدائی زندگی غلامی میں بسر ہوئی تھی،آخر میں اس نے ان کو آزاد کردیا تھا۔ جزیرہ کا قیام آزادی کے بعد عرصہ تک کوفہ ہی میں رہے،لیکن ۸۰ میں جب عبدا لرحمن بن اشعث کے ہنگامہ کی وجہ سے کوفہ میں شورش بپا ہوئی تو میمون کوفہ چھوڑکر جزیرہ چلے گئے اوریہیں بودوباش اختیار کرلی۔ بیت المال کی نگرانی کا منصب محمد بن مروان کی ولایتِ خراسان کے زمانہ میں بیت المال کی نگرانی کا منصب سپرد ہوا۔ عہدۂ خراج بیت المال کی نگرانی کے سلسلہ میں انہیں مالیات کا کافی تجربہ ہوگیا تھا،اس لیے عمر بن عبدالعزیزؓ نے ان کو جزیرہ کے خراج کا عامل بنادیا اور ان کے لڑکے عمر کو دفتر کا محافظ مقرر کیا،میمون طبعاً حکومت کے عہدوں اورخصوصاً مالیات کی ذمہ داریوں کو پسند نہ کرتے تھے؛ لیکن اس وقت انکار نہ کرسکے،مگر چند ہی دنوں کے بعد برداشتہ خاطر ہوکر استعفاء پیش کردیا،عمر بن عبدالعزیزؓ نے قبول نہ کیا اورکہا اس عہد ے میں سوائے اس کے اورکیا ہے کہ جائز طریقہ سے روپیہ وصول کیا جائے اور جائز مصرف میں صرف کیا جائے،اس میں استعفیٰ کی کیا وجہ ہے، عمربن عبدالعزیز کے لکھنے پر استعفیٰ واپس لے لیا اوران کی زندگی بھر اس عہدے پر رہے۔ عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن ملک کے زمانہ میں بھی چند دنوں تک یہ خدمت انجام دیتے رہے،لیکن یہ کام طبعاً پسند نہ تھا، عمر بن عبدالعزیزؓ کے اصرار سے اس بنا پر گوارا کرلیا تھا کہ ا ن کے زمانہ کی ملکی خدمت میں خدمت اسلام تھی، لیکن عمر بن عبدالعزیز کے بعد جب خلافت کے تمام شعبے پھر دنیاوی حکومت کے رنگ پر آگئے تو میمون بددل ہوکر مستعفی ہوگئے اور گذشتہ زمانہ پر بہت متاسف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ گوارا تھا کہ میں اندھا ہوگیا ہوتا،لیکن عمر بن عبدالعزیز وغیرہ کا دیا ہوا عہد قبول نہ کیا ہوتا۔ (یہ تمام حالات ابن سعد،ج ۷،ق ۲،ص۱۷۷،۱۷۸ سے ماخوذ ہیں) فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے ممتاز تابعین اورجزیرہ کے بڑے علماء میں تھے ،حافظ ذہبی انہیں امام قدوہ اورعالم جزیرہ لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۶)ان کے دور کے علماء میں ان کا علمی مرتبہ مسلم تھا،ابوالملیح کہتے تھے کہ میں نے میمون سے افضل کسی کو نہیں پایا (ایضاً)سمعان بن موسیٰ کا بیان ہے کہ اس عہد کے چار اشخاص بڑے عالم مانے جاتے تھے،ان میں ایک میمون بن مہران تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۹۱) حدیث حدیث کے حافظ تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: صحابہ میں انہوں نے ابوہریرہؓ،ابن عباسؓ،ابن عمرؓ،ابن زبیرؓ،سعید بن جبیرؓ،عائشہ صدیقہؓ اورام الدرداء سے اور تابعین میں نافع مولی بن عمر،مقسم مولی ابن عباس ،یزید بن عاصم اور سعید بن جبیر وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱۷۷) تلامذہ حمید الطویل،ایوب،جعفر بن برقان،جعفر بن ابی وحشیہ،حبیب بن شہید،علی بن حکم البنانی،حکم بن عتیبہ،ابوفردہ،یزیدبن سنان،حجاج بن تمیم،سالم بن ابی المہاجر اورابو الملیح وغیرہ ان کے خوشہ چینیوں میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۳۹) فقہ فقہ میں وہ تمام علمائے جزیرہ میں ممتاز تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ فقہ وفتاویٰ میں تمام اہل جزیرہ پر فائق تھے (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص۱۷۸)ان کے تفقہ کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے صاحب نظر نے عہد خراج کے زمانہ میں جزیرہ کے قضاء کی خدمت بھی ان کے سپرد کی تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۶) فضائل اخلاق اس علم کے ساتھ فضائل اخلاق سے بھی آراستہ تھے۔ منہیات سے اجتناب نواہی سے بچنے میں زیادہ اہتمام تھا،ان کے لڑکے کا بیان ہے کہ والد (اعتدال سے)زیادہ روزہ نماز نہیں کرتے تھے،لیکن خدا کی معصیت میں مبتلا ہونا بہت ناپسند کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۳۹۱) عبادت اگرچہ معمولاً وہ فرائض وسنن کے علاوہ زیادہ عبادت نہ کرتے تھے،لیکن کبھی کبھی ہزار ہزار رکعتیں روزانہ پڑھتے تھے، ایک مرتبہ سترہ دن میں سترہ ہزار رکعتیں پڑھیں۔ (تذکرۃ الحفاظ،ج اول،ص۸۷) انکساروتواضع اتنے خاکسار اورمتواضع تھے کہ کسی بڑائی اورامتیاز کا انتساب اپنی جانب پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے ان سے کہا،ابوایوب جب تک خدا آپ کو زندہ رکھے گا اس وقت تک لوگ بھلائی میں رہیں گے، انہوں نے جواب دیا، ایسی باتوں کا تذکرہ نہ کرولوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ اپنے سے ڈرتے رہیں گے۔ (ایضاً) حضرت علیؓ پر حضرت عثمان کی فضیلت کا ایک دل نشین استدلال پہلے وہ حضرت عثمانؓ کے مقابلہ میں حضرت علیؓ کی فضیلت کے قائل تھے،لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے ایک استدلال پر حضرت عثمانؓ کی فضیلت کے قائل ہوگئے تھے، ایک مرتبہ عمر بن عبدالعزیز نے ان سے پوچھا تم دو آدمیوں میں سے کسی کو زیادہ پسند کرتے ہو، اس شخص کو جس نے صرف مال میں عجلت کی یا اس شخص کو جس نے خونریزی میں عجلت کی،اس دلیل کے بعد انہوں نے اپنے سابق خیال سے رجوع کرلیا،حضرت عثمان پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ان کے زمانہ میں بیت المال میں بے جا تصرفات ہوئے اورحضرت علیؓ کے دور سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۹۱) وفات ۱۱۷ھ میں وفات پائی۔ (ایضاً)