انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قانون تفريق میں اسلام كا اعتدال warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح طلاق و تفریق کے باب میں بھی اسلام کے قوانین اعتدال و توازن اوراصولِ فطرت سے ہم آہنگی میں اپنی مثال آپ ہے،دنیا کے دو بڑے مذاہب ہندومت اور عیسائیت میں رشتہ نکاح کے ایک دفعہ قائم ہوجانے کے بعد پھر ٹوٹ جانے کا تصور نہیں، وہ رشتہ نکاح کو اٹوٹ تصور کرتے ہیں، عیسائی مذہب میں بعد کو چل کر تفریق کی ایک صورت اختیار کی گئی جس کو فراق بدنی کہاجاتا ہے، یعنی بعض خاص صورتوں میں میاں بیوی کا جسمانی رشتہ تو ختم ہوجاتا تھا،لیکن عورت دوسرے نکاح کی مجاز نہیں ہوتی تھی، مذاہب عالم میں شاید اسلام نے پہلی دفعہ نکاح وطلاق کے اُصول نہایت تفصیل کے ساتھ مرتب کئے اوراس میں انسانی فطرت کی پوری پوری رعایت کی، نہ تفریق کو اتنا آسان کیا،جیسا آج کی مغربی عدالتوں نے کیا ہوا ہے کہ مرد و عورت کے خراٹے کی آواز ،کتا پالنے کی خواہش، یہاں تک کہ دوسرے مرد سے ناجائز تعلق اورمرد کی طرف سے اس میں رکاوٹ جیسی باتیں بھی تفریق کے لیے جائز اسباب مان لی گئی ہیں اور نہ اسلام نے یہ صورت اختیار کی کہ مہلک اور متعدی امراض کیوجہ سے باہمی نفرت، شوہر کی طرف سے ظلم و تعدی اورعورت کے واجبی حقوق سے محرومی کے باوجود جبر اوردباؤ کے ساتھ ہر قیمت پر رشتۂ نکاح کو باقی رکھا جائے کہ اس سے نکاح کا اصل مقصود محبت و یگانگت کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو، اس نے ضروریات اورخواہشات میں مناسب اور غیر مناسب اسباب کے درمیان فرق کیا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ آج دنیا کا شاید ہی کوئی قانون ہو جس نے اس شعبہ میں اسلام سے فائدہ نہ اٹھایا ہو،مگر یہی قوانین ہیں جو مغرب کے اہل قلم اوراصحاب فکر کا سب سےز یادہ نشانہ ہیں۔