انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حمزہ ؓبن عمرو نام ونسب حمزہ نام، ابو صالح کنیت، نسب نامہ یہ ہے حمزہ بن عمرو بن عویمربن حارث الاعرج ابن سعد بن زرج بن عدی بن سہل بن مازن بن حارث بن سلامان بن اسلم بن افصی بن حارثہ اسلمیٰ ۔ اسلام فتح مکہ یا اس کے بعد مشرف باسلام ہوئے ،اسلام لانے کے بعد سب سے اول غزوہ تبوک میں شریک ہوئے۔ آنحضرتﷺ کی رضا جوئی صحابہ کرام کے لیے سب سے بڑی دولت تھی وہ نہ صرف اپنے لیے اس دولت کے حصول پر بلکہ دوسروں کے حصولِ سعادت پر بھی وفور مسرت سے معمور ہوجاتے تھے، ایک صحابی حضرت کعبؓ بنی مالک انصاری غزوۂ تبوک میں نہ شریک ہوسکے تھے، بہت سے منافق بھی جو ہمیشہ ایسے موقع پر پہلو تہی کرجاتے تھے تبوک میں شریک نہ ہوئے اورآنحضرت ﷺ کے تبوک سے واپس تشریف لانے کے بعد آپ سے جھوٹی معذرت کرلی، آپ نے ان کی معذرت قبول کرلی، کعبؓ ایک راسخ العقیدہ اورسچے مسلمان تھے اس لیے وہ اپنی کوتاہی پر حقیقۃ بہت نادم اورشرمسار تھے،انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر صحیح صحیح واقعہ بیان کردیا، آپ نے ان کی معذرت بھی قبول فرمائی ؛لیکن وحی الہی کی شہادت تک عام مسلمانوں کو ان کے ساتھ ملنے جلنے سے منع کردیا، حتیٰ کہ ان کی بیوی کو بھی ممانعت ہوگئی اورکعب چند دنوں تک نہایت حزن وملال کی زندگی بسر کرتے رہے، جب ان کی صفائی میں وحی نازل ہوئی تو صحابہ کی جماعت میں مسرت کی ایک لہڑ دوڑ گئی اوروہ کعب کو یہ مژدہ سنانے کے لیے چاروں طرف سے دوڑ پڑے،حمزہ اس قدر مسرور تھے کہ سب سے پہلے اپنی زبان سے برأت کا مژدہ سنانا چاہتے تھےاس لیے اس پہاڑی پر چڑھ گئے اور وہیں سے چلا کر کعب کو مژدہ سنایا، اورسب سے پہلے ان ہی کی زبان نے کعب کے کانوں تک براءت کی خوشخبری پہنچائی تھی پھر پہاڑی سے اتر کر اطمینان سے کعب کے پاس گئے،کعب اس مژدہ پر اس قدر مسرور ہوئے کہ اپنا لباس اتارکر حمزہ کو پہنادیا۔ فتوحات شام عہدِ فاروقی میں شام کی فوج کشی میں شریک ہوئے اجنادین کی فتح کا مژدہ بھی لائے تھے۔ (تہذیب الکمال:۶۳) فتوحات شام وفات ۶۱ھ میں ۷۱ سال کی عمر میں وفات پائی۔ (تہذیب الکمال:۶۳) فضل وکمال گو علمی حیثیت سے حمزہ کا کوئی خاص درجہ نہیں ہے،تاہم ان سے ۹ حدیثیں مروی ہیں ان سے روایت کرنے والوں میں ان کے لڑکے محمد اور سلیمان بن یسار قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب الکمال:۶۳) روزوں سے شغف حضرت حمزہ کو روزوں سے غیر معمولی شغف تھا، سفر میں بھی افطار کرنا ان کے لیے شاق تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ سے سفر کے روزہ کے بارے میں پوچھا ،آپ نے فرمایا تم کو اختیار ہے چاہے رکھو چاہے افطار کرو۔ (اسد الغابہ:۲/۵۰)