انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صحابہ حضرت ابرہہ نام ونسب ابرہہ نام،شام یاحبشہ کے رہنے والے اور مذہباً عیسائی تھے، نام ونسب کے متعلق اور کوئی تفصیل کتب رجال میں نہیں ملتی۔ (حافظ ابنِ حجر نے اصابہ میں اس نام کودونام شمار کرکے ایک جگہ ابرہۃ الحبشی اور دوسری جگہ ابرہۃ آخر کی سرخی قائم کی ہے؛ لیکن غالباً یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اسدالغابہ تجرید اور دوسری کتب طبقات میں ایک ہی نام شمار کیا گیا ہے، اصابہ:۱۷) (اکثر کتب طبقات میں ان کا نام شامی ہونا درج ہے، حافظ ابن حجر نے بھی اصابہ میں احدالثمانیۃ الشامیین لکھا ہے؛ مگرجہاں انھوں نے ان کے دوسرے احباب کے حالات لکھے ہیں وہاں ان کوشامی کے بجائے حبشی لکھا ہے، مثلاً اشرف کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: أحد الثمانية الذين قدموا من رهبان الحبشة (الإصابة في معرفة الصحابة:۱/۸۷، شاملہ، موقع الوراق) یا ادریس کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: أحد الثمانية المهاجرين من الحبشة (الإصابة في معرفة الصحابة:۱/۱۰، شاملہ، موقع الوراق) اس سے قیاس ہوتا ہے کہ غالبا ان کے اجداد شامی ہوں گے اور اہلِ حبشہ کے ہم عقیدہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور سے یامستقلاً حبشہ آگئے ہوں گے اور وہیں اسلام قبول کیا ہوگا، یمن سے ملوک حمیر کا جووفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا اس میں بھی ایک ابرہہ کا ذکر آتا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ وہی ہوں، واللہ اعلم بالصواب (شمس العلوم:۹۳)) اسلام ان کے قبولِ اسلام کے متعلق یہ تومتعین طور سے نہیں بتایا جاسکتا کہ کب اور کہاں قبول کیا مگرقرائن سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ جب بہت سے صحابہ مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ گئے اور ان کونجاشی رضی اللہ عنہ کے دربار میں درخور حاصل ہوا اور ان کے ذریعہ اہلِ حبشہ کواسلام سے واقف ہونے کا موقع ملا، توخود نجاشی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ بہت سے علمائے نصاریٰ نے اسلام قبول کیا۔ (چالیس آدمیوں تک کے اسلام قبول کرنے کا ذکر ہے؛ اگرچہ ان کے ناموں کی تصریح بہت کم ملتی ہے (اصابہ:۱۷)) غالباً ان ہی اسلام قبول کرنے والوں میں حضرت ابرہہؓ اور ان کے دوسرے رفقاء بھی تھے (آپ کے دوسرے رفقاء کے تذکرے آگے آتے ہیں، حالات لکھتے وقت اشارہ کردیا جائے گا)۔ خدمتِ نبوی میں حاضری اہلِ حبشہ میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، ان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا بیحد اشتیاق تھا، اتفاق سے اسی درمیان میں مہاجرین حبشہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ واپس آرہے تھے؛ اسی قافلہ کے ساتھ حضرت ابرہہ بھی مدینہ آئے اور زیارتِ نبوی سے مشرف ہوئے۔ غزوات کسی غزوہ میں شرکت صحیح طور سے ثابت نہیں ہے (اسدالغابہ میں ہے کہ جب غزوۂ بدر میں مسلمانوں کوفتح نصیب ہوئی اور اس کی خبر حبشہ تک پہنچی توجولوگ اہلِ حبشہ میں اسلام لاچکے تھے؛ انھوں نے مدینہ جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کی خواہش نجاشی سے ظاہر کی؛ چنانچہ وہ اجازت لے کر مدینہ آئے اور غزوۂ احد میں شرکت بھی کی، اس میں حضرت ابرہہ بھی تھے، اصابہ میں بھی اس قسم کی ایک روایت ہے؛ مگرامام ذہبی نے تجرید میں یہ تصریح کی ہے کہ عَنْ مقاتل انہ اشھد احدا وہذا لایثبت :روایت ہے کہ وہ احد میں شریک ہوئے؛ مگریہ صحیح نہیں ہے، بعض روایتوں میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے ایک وفد کے آنے کا ذکر ہے؛ مگراہلِ رجال نے یہ تصریح کردی ہے کہ وہ مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی دریا میں غرق ہوگیا (اسدالغابہ:۱/۶۲))۔ فضائل آپ کا شمار ان اہلِ کتاب صحابہ میں ہے جن کے بارہ میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں: الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ۔ (القصص:۵۲) ترجمہ:جن لوگوں کوہم نے قرآن سے پہلے کتابیں دیں وہ اس پرایمان لاتے ہیں (اور قرآن پربھی ایمان رکھتے ہیں)۔ أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا۔ (القصص:۵۴) ترجمہ: یہی لوگ ہیں جن کوان کے صبر کی وجہ سے دوہرا ثواب ملے گا۔ (بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت رفاعۃ القرظی اور ان کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن سلام مرادہیں، بعض روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نزول عام ہے اور یہی صحیح ہے)۔ گوآپ کے نام کی تصریح نہیں ہے؛ مگرمفسرین لکھتے ہیں کہ حبشہ سے علمائے نصاریٰ کا جووفد آیا تھا اسی کے بارے میں یہ آیتیں بھی نازل ہوئیں اور آپ بہرحال اسی وفد میں تھے۔ (اصابہ:۱/۱۷۔ اسدالغابہ:۱/۶۲) وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَo وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ۔ (المائدۃ:۸۲،۸۳) ترجمہ:مسلمانوں سے محبت رکھنے میں قریب ترآپ ان لوگوں کوپائیں گے جواپنے آپ کونصاریٰ کہتے ہیں یہ اس لیے کہ ان میں بہت سے عالم اور بہت سے زاہد ودرویش ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے، جب وہ سنتے ہیں ا س کوجو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اُتارا گیا (قرآن) توآپ دیکھیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے حق کوپہچان لیا۔ سنہ وفات اور زندگی کے دوسرے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔