انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت صدیقی کے اہم واقعات سقیفۂ بنو ساعدہ اوربیعت خلافت اوپر بیان ہوچکا ہے کہ مسجدنبوی میں صدیق اکبرؓ تقریر فرما کرلوگوں کی حیر ت دُورفرماچکے تھے کہ سقیفۂ بنو ساعدہ میں انصار کے مجتمع ہونے اور بلا مشاورتِ مہاجرین کسی امیر یا خلیفہ کے انتخاب کی نسبت گفتگو کرنے کی خبر پہنچی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام پر یہ سب سے زیادہ نازک وقت تھا،اگر اس خبر کو سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ خاموش رہتے اوراس طرف متوجہ نہ ہوتے تو سخت اندیشہ تھا، کہ مہاجرین وانصار کی محبت واخوت ذراسی دیر میں برباد ہوکر جمعیت اسلامی پارہ پارہ ہوجاتی، مگر چونکہ خدائے تعالیٰ اپنے دین کا خود حافظ وناصر تھا، اس نے صدیق اکبرؓ کو ہمت واستقامت عطا فرمائی کہ ہر ایک خطرہ اور ہر ایک اندیشہ ان کی بصیرت وقوت کے آگے فوز واصلاح سے تبدیل ہوگیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم اورایک ہی خاندان بنادیا تھا، اور نورایمان کے محیر العقول اثر سے قبیلوں ،خاندانوں اور ملکوں کے امتیازات یک سر بربادو منہدم ہوچکے تھےاور ان کی حقیقت اس سے زیادہ باقی نہ رہی تھی کہ قبیلوں اورخاندانوں کے نام سے لوگوں کی شناخت میں اور پتہ دینے میں آسانی ہوتی تھی اور بس۔ وفات نبوی کے بعد اوراس روح اعظم کے ملاء اعلیٰ کی طرف متوجہ ہونے پر ذراسی دیر کے لئے اس تفریق قومی کے ابتلاء کا کروٹ لینا کوئی حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ہے،دیکھنا یہ ہے کہ صحابۂ کرام کی پاک ومطہر جماعت نے اس ابتلاء کو اپنے لئے موجب اصطفا بنایایا سامان بربادی، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی تعداد انصار کے مقابلے میں کم تھی،لیکن انصار بھی دو حصوں میں منقسم تھے یعنی اوس اورخزرج، اسلام سے پہلے قدیم سے ایک دوسرے کے حریف اور رقیب چلے آتے تھے اس طرح مدینہ منورہ کے موجودہ مسلمانوں کو تین بڑے بڑے حصوں میں منقسم سمجھا جاسکتا تھا،اوس خزرج قریش یا مہاجرین مکی،قبیلہ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہ تھے،ان کے مکان سے متعلق ایک وسیع نشست گاہ تھی جس کی صورت یہ تھی کہ ایک وسیع چبوترہ تھا، اُس کے اوپر سائبان پڑا ہوا تھا، اسی کو سقیفۂ بنی ساعدہ کہتے تھے۔