انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سفرِ طائف غرض قریش کی ضددم بدم ترقی کرتی گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابو طالب ہی کے زمانے سے قریش کے سوا باہر کے لوگوں میں جبکہ وہ حج کے لئے مکہ آتے تھے تبلیغ کا کام شروع کردیا تھا جس کا کوئی معتدبہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا،اب مکہ والوں کو حد سے زیادہ سخت اور اسلام سے متنفر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا تھا کہ طائف والوں کو دعوتِ اسلام دیں،طائف مکہ سے تین منزل یعنی ساٹھ میل کے فاصلہ پر مکہ ہی کی برابر بڑا شہر تھا،وہاں ثقیف آباد تھے جو لات کی پرستش کرتے تھے،وہاں لات کا مندر تھا اورسارا شہر اُسی مندر کا پجاری تھا،۱۰ نبوی شوال کے مہینے میں یعنی حضرت خدیجہؓ کی وفات کے ایک مہینہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارث کو ہمراہ لے کر پیدل طائف میں پہنچے،وہاں پہنچنے سے پہلے راستہ میں اوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی بکر میں تشریف لے گئے،جب ان کو بھی مکہ والوں کا ساتھی اورہم خیال پایا تو قوم قحطان کے پاس گئے،اُن کو بھی سنگ دلی میں قریش کے ہمسر پایا تو طائف میں پہنچے،طائف میں داخل ہوکر اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کے رؤسا سے ملے،طائف کے سرداروں میں عبدیالیل بن عمر بن عمیر اوراُس کے دونوں بھائی مسعود وحبیب سب سے زیادہ بااثر اوربنی ثقیف کے رئیس سمجھے جاتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تینوں سے ملے اوراسلام کی طرف دعوت دی،یہ بڑے مغرور ومتکبر تھے،ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر تجھ کو خدا اپنا رسول بناتا تو یوں ہی پیدل جوتیاں چٹخاتا پھرتا،دوسرے نے کہا کیا خدا کو کوئی اورآدمی نہ ملا جو تجھ کو رسول بنایا"وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ"تیسرا بولا میں تجھ سے کلام کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اگر تو اپنے قول کے موافق خدا کا رسول ہے تو تیرے کلام کا رد کرنا خطرناک بات ہے اور اگر تو خدا پر جھوٹ بولتا ہے تو مناسب نہیں کہ ایسے شخص سے کلام کیا جائے۔