انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ابو عبداللہ محمد منصور کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابو عبداللہ محمد ماہِ صفر ۵۹۵ھ میں بعمر سترہ سال تخت نشین ہوا اور اپنا لقب ناصر الدین اللہ رکھا،بادشاہ ناصر کے عہد حکومت میں مراقش کے مشرق ممالک میں بغاوت وبدامنی پیدا ہوئی اورسلطنت مرابطین کے بعض متوسلین نے جمعیت فراہم کرکے ملکوں پر قبضہ کرنا شروع کیا،ناصر اس بغاوت وبدامنی کے رفع کرنے کو مراقش میں مقیم رہا، اُدھر سلطان صلاح الدین ایوبی سے شام وفلسطین کے میدانوں میں شکست کھا کر جو بقیۃ السیف عیسائی یورپ کے ملکوں میں واپس آئے انہوں نے شام و فلسطین کے ہزیمتوں کا انتقام اندلس ومراقش کی اسلامی سلطنت سے لینا چاہا اوربرشلونہ وکٹیل ولیون وغیرہ کے عیسائی سلاطین کے پاس یورپ کے ہر ملک سے عیسائی جنگ جو آ آ کر جمع ہوئے، روم کے پوپ نے سلطنت موحدین کے خلاف جہاد کا عام اعلان کیا،انہیں ایام میں انگلستان کے بادشاہ جان کے خلاف انگلستانی امراء نے کوشش شروع کی اورپوپ انوسنٹ سوم نے بادشاہ جان کے ملّتِ عیسوی سے خارج ہونے کا اعلان کیا،جان نے اپنے تین سرداروں کا ایک وفد ناصر لدین اللہ کے پاس مراقش روانہ کیا، اس سفارت میں ٹامس ہارڈنگٹن، ریلف فرنکولس اورلندن کا پادری رابرٹ شامل تھے، یہ سفارت ۶۰۶ھ میں مراقش پہنچی ارکانِ سفارت ،کئی ایوان اورڈیوڑھیوں میں سے گذرتے ہوئے جن کے دونوں طرف شاہی خدام کی صفیں استادہ تھیں، امیر ناصر لدین اللہ کے سامنے پہنچے،اس وقت امیر موصوف مطالعۂ کتب میں مصروف تھا،ارکانِ وفد نے شاہِ انگلستان کا خط پیش کیا، اس خط میں لکھا تھا کہ آپ میری مدد کریں اور میرے ملک کی بغاوت فرو کرنے کے لئے فوجیں بھیج دیں، یہ بھی لکھا تھا کہ میں دین عیسوی کو ترک کرکے مسلمان ہونے پر آمادہ ہوں، پادری رابرٹ اس سفارت کا پیشوا تھا، اُس نے بھی امیر ناصر سے ایس باتیں کیس جس سے امیر ناصر کو یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ یہ لوگ دنیوی مقاصد کے لئے بطور رشوت تبدیلی مذہب کا لالچ دیتے ہیں، اس امر کا منتظر رہا کہ شاہِ انگلستان اگر اسلام کی صداقت کو تسلیم کرچکا ہے تو وہ ضرور میری اس کم التفاتی کے بعد بھی اپنے اسلام کا اعلان کرے گا اوراُس وقت اس کی امداد کے لئے جنگی بیڑہ روانہ کردیا جائےگا۔ امیر ناصر بہت دھیمی طبیعت کا آدمی تھا،جنگ وپیکار کے ہنگامے برپاکرنے کا اُس کو شوق نہ تھا،اس لئے وہ فوج جو اس کے باپ کے زمانے میں بری طاقتور اورباہمت تھی،امیر ناصر کی کم التفاقی سے اس کے سردار بددل ہو رہے تھے، علاوہ ازیں سابق امیر کے عہدِ حکومت میں فوج کے ہر سپاہی کو علاوہ مقررتنخواہ کے ہر سہ ماہی ہر بادشاہ کی طرف سے انعامات ملا کرتے تھے،امیر ناصر کے عہد میں ان انعامات کے موقوف ہونے سے سپاہی افسردہ خاطر تھے،۶۰۸ھ میں امیر ناصر افریقہ کی مہمات سے فارغ ہوکر اندلس کی جانب متوجہ ہوا، یہاں طلیطلہ میں شاہ کیٹسل الفا نسو کے گرد یورپ کے ہر ملک اور ہر حصے سے عیسائی لوگ جوق در جوق آ آ کر جمع ہو رہے تھے اور بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام براعظم یورپ کی پوری طاقت اورشاہانِ یورپ کے جمیع جنگی سامان اسلام کشی کے لئے جزیرہ نمائے اندلس میں فراہم ہوگئے تھے، شام و فلسطین کے مقابلہ میں اندلس یورپ سے قریب بھی تھا،اوراندلس کے ہموار میدانوں تک عیسائی ریاستوں کی حدود پھیلی ہوئی تھیں، اس لئے وسطِ اندلس میں عیسائی طاقت کی یہ سب سے بڑی نمائش بآسانی ممکن ہوئی۔ ناصرلدین اللہ نے عیسائیوں کی اس عظیم الشان تیاری اور یورپ کے ہر ملک میں مسلمانوں کے خلاف اعلانِ جہاد کا حال سُن کر مراقش واندلس سے فوجوں کو فراہم کیا اورجہاد کا اعلان کرایا،نتیجہ یہ ہوا کہ چھ لاکھ کے قریب منظم فوج اورمجاہدین اشبیلیہ میں جمع ہوگئے،اس لشکر کو لے کر امیر ناصر شہرجیان کی طرف روانہ ہوا،اُدھر الفانسو اپنے لا تعداد لشکر کو لئے ہوئے شہر سالم کے قریب مقام العقاب میں آکر خیمہ زن ہوا،اُدھر سے اسلامی لشکر بھی شہر جیان سے العقاب میں آیا ، عیسائی انتقام کے جوش میں ازخود رفتہ ہورہے تھے اور ملکِ شام کی ناکامیوں کا بدلہ اندلس میں مسلمانوں سے لینا چاہتے تھے،ادھر اسلامی لشکر کی حالت عجیب تھی،باقاعدہ فوج جو اچھی طرح مقابلہ کی قابلیت رکھتی تھی،سب اپنے امیر سے برگشتہ تھی،کیونکہ ان کو کئی مہینے سے تنخواہ نہیں ملی تھی،فوجی افسروں کی خواہش یہ تھی کہ اس لڑائی میں ان کے بادشاہ کو شکست ہو اور وہ اس تلخ تجربہ کے بعد فوج پر روپیہ صرف کرنے اور انعام واکرام دینے میں بخل کو کام میں نہ لائے؛چنانچہ ۱۵ماہ ۶۰۹ ھ کو جب لڑائی شروع ہوئی تو اسلامی لشکر سے بعض سردار اپنی ماتحت جمعیتوں کو لے کر جُدا ہوگئے، بعض سرداروں اورسپاہیوں نے حملے کے وقت دانستہ سردار اپنی ماتحت جمعیتوں کو لے کر جُدا ہوگئے،بعض سرداروں اور سپاہیوں نے حملے کے وقت دانستہ اپنے نیزوں کو ٹیڑھا کرکے بجائے اس کے کہ دشمنوں کے سیندوں کو چھید تے،زمین میں گاڑ ا اورتلواروں کو دشمنوں کی طرف پھینک دیا،بعض نے عجیب و غریب تمسخر انگیز حرکات کا اظہار کیا اورمعرکۂ جنگ شروع ہونے کے بعد امیر ناصر کے احکام کی تعمیل ترک کردی،زبردست اورباقاعدہ مسلح فوج کی یہ نامعقول وناستودہ حرکات دیکھ کر مجاہدین کے بھی حوصلے پست ہوگئے،امیر ناصر کے بخل کا یہ خطرناک نتیجہ اورمراقشی وبربری لشکر کی یہ رذیلانہ غداری اسلام اور مسلمانوں کے لئے بے حد مضر ثابت ہوئی،اندلس کے کسی میدان میں آج تک اتنی بڑی فوجیں نبرد آزمانہ ہوئی تھیں، عین معرکۂ جنگ میں اسلامی لشکر کا ایک بڑا حصہ یہ غداری نہ دکھاتا تو یورپ کی اس عظیم الشان اورمتفقہ فوج کو یقیناً مسلمانوں کے ہاتھ ہزیمت اُٹھانی پڑتی اورآئندہ کبھی عیسائیوں کو مسلمانوں کے مقابلے کی ہمت نہ ہوتی،کیونکہ جو انجام وہ شام و فلسطین میں دیکھ کر آئے تھے،اس سے بد تر انجام ان کا اندلس میں ہوتا، مگر حسرت وافسوس کے ساتھ بیان کرنا پڑتا ہے کہ اس چھ لاکھ کے اسلامی لشکر کا انجام یہ ہوا کہ اپنے امیر کی نافرمانی کرکے سب کا سب عیسائیوں کے ہاتھ سے قتل ہوا،امیر ناصر نے شمیشر زنی مطلق کوتاہی نہیں کی اور اکثرمجاہدین نے اپنے امیر کا ساتھ دیا، صر ف ایک ہزار آدمی اس چھ لاکھ کے لشکر میں زند بچے اوروہ بہ مشکل امیر ناصر کو میدانِ جنگ سے واپس لانے میں کامیاب ہوئے،باقی سب یا تو میدانِ جنگ میں لڑ کر شہید ہوئے یا عیسائیوں کےہاتھ میں قید و گرفتار ہوگئے،گرفتار ہونے والوں کو توقع تھی کہ ہم کو آزاد کرالیا جائے گا،مگر عیسائیوں نے اُسی میدان العقاب میں سب کو ذبح کرڈالا۔ امیر ناصر اشبیلیہ میں شکست خوردہ واپس آیا اور عیسائیوں نے اندلس کے شہروں کو لوٹنا اورمسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا،شہر جیان کی تمام مسلم آبادی کو گرفتار کرکے مردوں ،بچوں اور بوڑہوں عورتوں کو قتل کرڈالا، الفانسو نے جب دیکھا کہ عیسائی مجاہدین تمام ملک کو تہ تیغ کرنے اور اموال واسباب کے لوٹنے میں مطلق العنان ہیں تو اُس نے اُن کو روکنا اوراپنے زیرِ اقتدار رکھنا چاہا،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سے ناراض ہو ہوکر دوسرے ممالک کے عیسائی اپنے اپنے ملکوں کو واپس ہونے لگے جس کو الفانسو نے بہت ہی غنیمت سمجھا،جنگ العقاب نے اندلس میں اسلامی سلطنت کی جڑوں کو ہلادیا،اس کے بعد سلطنت موحدین اورمغرب میں مسلمانوں کی حکومت جلد جلد زوال پذیر ہونے لگی، ساقش میں بہت سے قصبے اورگاؤں اس لڑائی کے بعد ویران ہوگئے،کیونکہ اُن کے باشندے اس لڑائی میں کام آگئے تھے، امیر ناصر چند روز اشبیلیہ میں مقیم رہ کر مراقش میں آیا اور ۱۰ شعبان ۶۱۰ ھ بروز چہارشنبہ فوت ہوکر اگلے روز بروز پنجشنبہ مدفون ہوا۔