انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** چند اصولی باتیں (۱)انبیاء علیہم السلام کا خاص کام(جس کے لیے وہ مبعوث ہوتے ہیں)ہمیں ان باتوں کا بتلانا ہے، جن کے ہم ضرورت مند تو ہیں لیکن اپنے عقل وحواس سے بطور خود ہم ان کو نہیں جان سکتے،یعنی وہ ہماری عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ (۲)انبیاء علیہم السلام کے لیے یقینی علم کا ایک خاص ذریعہ جو دوسرے عام انسانوں کے پاس نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی وحی ہے،ان کو اسی ذریعہ سے ان چیزوں کا علم ہوتا ہے،جس کو ہم اپنی آنکھوں کانوں سے اور اپنی عقل وفہم سے دریافت نہیں کرسکتے، جس طرح دوربین رکھنے والا آدمی بہت دور کی وہ چیزیں دیکھ لیتا ہے،جن کو عام آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے۔ (۳)کسی نبی کو نبی مان لینے اور اس پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اس بات کو تسلیم کرلیا اور پورے یقین کے ساتھ ان کو مان لیا اورقبول کرلیا، کہ وہ ایسی جو بات بتلاتا ہے جس کو ہم خود نہیں جانتے اور نہیں دیکھتے ، وہ اللہ کی وحی سے اس کا علم حاصل کرکے ہمیں بتلاتا ہے اور وہ سب حرف بحرف صحیح ہے اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ (۴)انبیاء دعلیہم السلام کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے، جو عقلانا ممکن اورمحال ہو،ہاں!یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری عقل اورہمارے حواس بطور خود اس کو سمجھ لینے سے عاجز اورقاصر ہوں، بلکہ ایسا ہونا ضروری ہے،اگر انبیاء علیہم السلام صرف وہی باتیں بتلائیں جن کو ہم خود ہی غوروفکر سے معلوم کرسکتے ہوں،تو پھر ان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (۵)انبیاء علیہم السلام نے مابعد الموت یعنی عالم برزخ(عالم قبر)اورعالم آخرت کے متعلق جو کچھ بتلایا ہے اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو عقلانا ممکن اورمحال ہو،ہاں ایسی چیزیں ضرورہیں جن کو ہم اپنے غوروفکر سے ازخود نہیں جان سکتے اوراس دنیامیں ان چیزوں کے نمونے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان کو اس طرح سمجھ بھی نہیں سکتے،جس طرح اس دنیا کی دیکھی بھالی چیزوں کو سمجھ لیتے ہیں۔ (۶)علم کے جو عام فطری ذریعے اوروسیلے ہمیں دئیے گئے ہیں، مثلاً آنکھ ،ناک،کان،عقل و فہم، ظاہر ہے کہ ان کی طاقت اوران کا دائرہ عمل بہت محدود ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جدید آلات کی خارجی مدد سے ان کے ذریعہ بہت سی وہ چیزیں ہمارے علم میں آجاتی ہیں جن کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا،مثلاً پانی میں یا خون میں جو جراثیم پائے جاتےہیں، اب خورد بین کی مدد سے آنکھ ان کو دیکھ لیتی ہے،ریڈیو کی مدد سے کان ہزاروں میل دورتک کی آواز سن لیتے ہیں، اسی طرح کتابی معلومات کی مدد سے پڑھے لکھے انسان کی عقل اس سے زیادہ سوچ لیتی ہے،جتنا کہ آنکھ کان کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات کی مدد سے سوچ سکتی تھی،اس تجربے سے معلوم ہوا کہ کسی حقیقت کا صرف اس بنیاد پر انکار کردینا کہ آج ہم اس کو نہیں دیکھتے،نہیں سنتے،یا ہماری عقل اس کو نہیں سمجھتی،بڑی بے عقلی کی بات ہے "وَمَآ اُوْ تِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً"۔ (الاسراء:۸۵) (۷)انسان دوچیزوں سے مرکب ہے ایک جسم جو ظاہر ہے اورنظر آتاہے،دوسری روح جو اگرچہ آنکھوں سے نظر نہیں آتی،لیکن اس کے ہونے کا ہم سب کو یقین ہے،پھر انسان کے ان دونوں جزوں کا باہمی تعلق اس دنیا میں اس طرح ہے کہ تکلیف ومصیبت،یاراحت ولذت کی جو کیفیت یہاں آتی ہے وہ براہ راست جسم پرآتی ہے اورروح اس سے تبعا متاثر ہوتی ہے،مثلاً:انسان کو چوٹ لگتی ہے،وہ زخمی ہوتا ہے،یا مثلاًوہ کہیں آگ سے جل جاتا ہے،توظاہر ہے کہ چوٹ اورآگ کا تعلق براہ راست اس کے جسم سے ہوتا ہے، لیکن اس کے اثر سے روح کو بھی دکھ ہوتا ہے،اسی طرح کھانے پینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ بھی براہ راست جسم ہی کو ہوتی ہے،لیکن روح بھی اس سے لذت حاصل کرتی ہے۔ الغرض اس دنیا میں انسان کے وجود اوراس کے حالات میں گویا جسم اصل ہے اور روح اس کے تابع ہے، لیکن قرآن وحدیث میں عالم برزخ کے متعلق جو کچھ بتلایا گیا ہے اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں معاملہ اس کے برعکس ہوگا، یعنی اس عالم میں جس پر جواچھی بری واردات ہوگی وہ براہ راست اس کی روح پر ہوگی اورجسم اس سے تبعا متاثر ہوگا،اللہ تعالی نے(شاید اس لیے کہ اس حقیقت کا سمجھنا ہمارے لیے آسان ہوجائے) اس دنیا میں بھی اس کا ایک نمونہ پیدا کردیا ہے اور وہ عالم رویا یعنی خواب ہے،عقل وہوش رکھنے والا ہر انسان اپنی زندگی میں بار بار ایسے خواب میں آدمی مثلاً جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ کوئی لذیذ کھانا کھارہا ہے،تو صرف یہی نہیں دیکھتا کہ میری روح ہی کھارہی ہے، یا خیالی قوت ہی کھارہی ہے؛بلکہ اس وقت وہ یہی دیکھتا ہے کہ بیداری کی طرح وہ اپنے اس جسم والے منہ سے کھارہا ہے جس سے روزانہ کھایا کرتا ہے، اسی طرح خواب میں اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ کسی نے اس کو مارا، تو وہ یہ نہیں دیکھتا، کہ اس کی روح کو مارا گیا؛ بلکہ وہ اس وقت یہی دیکھتا ہے،کہ ماراسکے جسم پر پڑی ہے اور اس کے جسم پر اس وقت ویسی ہی چوٹ لگی، جیسی بیداری میں مار پڑنے سے لگتی ہے؛حالانکہ واقعہ میں جو کچھ گذرتا ہے وہ خواب میں دراصل روح پر گذرتا ہےاور جسم اس سے تبعا متاثر ہوتا ہے؛البتہ کبھی کبھی جسم کا یہ تاثر اتنا محسوس ہوجاتا ہے کہ آدمی بیدار ہونے کے بعد جس پر اس کے نشانات اور اثرات بھی پاتا ہے؛ الغرض نیند کی حالت میں اچھے یا برے خواب دیکھنے والے شخص پر جو کچھ گذرتا ہے اس کی نوعیت یہی ہے کہ وہ براہِ راست اوراصلی طورپر روح پر گزرتا ہے اورجسم پر اس کا اثر تبعاً پڑتا ہے،اسی لیے خواب دیکھنے والے کے قریب والا آدمی بھی اسکے جسم پر کوئی واردات گذرتے ہوئے نہیں دیکھتا؛کیونکہ ہم اس دنیا میں کسی انسان کے ان ہی حالات کو دیکھ سکتے ہیں جن کا تعلق براہ راست اس کے جسم سے ہو؛ پس عالم برزخ میں (یعنی مرنے کے بعد سے قیامت تک کے دور میں)اچھے برے انسانوں پر جو کچھ گزرنے والاہے، اس کی نوعیت بھی یہی ہے کہ وہ اصلی طورپر براہ راست روح پر گزرے گا اور جسم تبعاً اس میں شریک ہوگا اور عالم رؤیا(خواب)کے تجربات کی روشنی میں اس کو سمجھ لینا کسی سمجھنے والے آدمی کے لیے زیادہ مشکل نہیں ۔ امید ہے کہ اس دنیا، اورعالم برزخ کے اس فرق کو جان لینے کے بعد وہ عامیانہ اورجاہلانہ شبہے اوروسوسے پیدانہ ہوں گے، جوقبر کے سوال وجواب اورعذاب وثواب کی حدیثوں کے متعلق بعض ضعیف الایمان اور کم عقل لوگوں کے دلوں میں پیدا ہواکرتے ہیں۔ (معارف الحدیث:۱۲۱)