انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کیا دنیا سے منقطع ہوچکے تھے تاریخ الیہود کے مصنف اسرائیل دلفنسوں نے لکھا ہے کہ عراق، مصر، یونان اور اس کے علاوہ جہاں بھی یہودیوں کی آبادی تھی، وہاں کے یہود کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے، یہی نہیں بلکہ انھوں نے تاریخ میں اپنے سیاسی وتمدنی آثار کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں سے ان کے گوناگوں تعلقات تھے؛ لیکن جزیرۂ عرب کے یہود دُنیا سے بالکل منقطع ہوگئے تھے اور عربوں میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ دونوں کی تہذیب ومعاشرت میں کوئی نمایاں فرق باقی نہیں تھا اور نہ دوسرے ممالک کے یہود کی طرح ان کے کوئی قابل ذکر تمدنی اور علمی آثار موجود تھے؛ لیکن واقعات کی روشنی میں یہ خیال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ (۱)یہ بات کہ وہ عربوں میں بالکل گھل مل گئے تھے اور دونوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں تھا؛ بالکلیہ صحیح نہیں ہے، جزیرۂ عرب میں جہاں یہود منتشر طور پرموجود تھے، وہاں واقعی ان کی کوئی نمایاں حیثیت نہیں تھی؛ لیکن جوان کے مرکزی مقامات مثلاً یثرب، خیبر، وادی القریٰ اور تیماء وغیرہ تھے، وہاں وہ ہرنقطۂ نظر سے عربوں سے ممتاز تھے، پوری تفصیل آگے آتی ہے۔ (۲)دنیا کے دوسرے حصوں سے ان کا تعلق نہیں تھا، یہ غلط فہمی ویسی ہی ہے جیسے کہ خود عربوں کے متعلق یہ خیال کہ وہ دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھے؛ لیکن یہ خیال نہ توعربوں کے متعلق صحیح ہے اور نہ یہود کے متعلق، عربوں اور حجاز اور یمن کے یہود کے تجارتی اور معاشرتی تعلقات دوسرے ملکوں سے قدیم زمانہ سے تھے، ذکرآچکا ہے کہ یمن کے یہود تجارت کی غرض سے برابرشام کا سفر کرتے رہتے تھے، جزیرۂ عرب کے جتنے تجارتی مرکز تھے وہ سب یہودیوں کے قبضہ میں تھے، یمن کی حمیری حکومت اور حبشہ کی عیسائی حکومت کے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک برابر سیاسی چشمک جاری رہی، خصوصیت سے شام کے یہودیوں سے تواُن کے بعض معاشرتی تعلقات بھی تھے، شام کے یہودی مدینہ کے یہودیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات دریافت کیا کرتے تھے، بنوقینقاع جلاوطن کیے گئے تووہ یہاں سے ازراعات جوشام کے علاقہ میں ہے، چلے گئے؛ اسی طرح دوسرے یہودی قبائل کا بھی شام کی طرف جانا ثابت ہے، حجاز سے مدینہ کوجوراستہ جاتا ہے، اس شاہراہ پرجتنے مرکزی مقامات تھے، ان میں یہودیوں کی آبادیاں ملتی ہیں اور پھریہ کیسے ممکن ہے کہ قریش توتجارت کے لیے شام تک کاسفر کریں اور یہود جوجزیرۂ عرب کے سب سے زیادہ تاجر اور مالدار باشندے تھے، شام کا تجارتی سفر نہ کرتے ہوں اورپھرمزید برآں یہ کہ شام ہی میں ان کا قبلہ اور سب سے مقدس عبادت خانہ تھا، ان وجودہ کی بناپریہ خیال کرنا صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ یہود سے منقطع ہوکر بالکل قبائلی زندگی گذار رہے تھے۔ (۳)تمدنی اور علمی حیثیت سے بھی عرب کے یہود ممتاز تھے، ان کے تمدنی وسیاسی اثرات پربحث آگے آئے گی؛ البتہ علمی حیثیت کے متعلق کچھ باتیں یہاں کہی جاتی ہیں: جزیرۂ عرب کے یہود کے علمی امتیاز کے لیے یہی ثبوت بہت ہے کہ ان میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ابن سلام، حضرت زید رضی اللہ عنہ بن سعنہ، حضرت مخریق رضی اللہ عنہ، حضرت مامون بن یامین رضی اللہ عنہ، کعب احبار، محمدبن کعب القرظی، وہب بن منبہ جیسے علماء اور کعب بن اشرف اور سمئول جیسے شعراء موجود تھے، حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت یوسف نے اپنی ایک علمی یادگار تھی چھوڑی تھی، ان کے متعدد مدارس قائم تھے، خود مدینہ میں بیت المدارس کے نام سے ان کی ایک مشہور درسگاہ تھی۔ جزیرۂ عرب میں سب سے زیادہ لکھے پڑھے یہودی ہوتے تھے، مدینہ میں غالباً سب سے پہلے تحریر کا رواج یہود ہی کے ذریعے ہوا، وہ صرف اپنی مذہبی زبان عبرانی ہی نہیں بلکہ عربی سے بھی بخوبی واقف تھے اور اپنے بچوں کواس کی تعلیم دیتے تھے اور روز مرہ کی زبان بھی یہی تھی، پوری تفصیل آگے آئے گی؛ غالباً یہود ہی کا اثر تھا کہ ظہورِ اسلام کے وقت متعدد صحابہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، بعض صحابہ توعربی کے ساتھ عبرانی سے بھی واقف تھے۔ بہرنوع یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ عرب کے یہود تمدنی اور سیاسی حیثیت سے کوئی ممتاز حیثیت نہیں رکھتےت ھے، یاوہ علمی حیثیت سے دوسرے مقامات کے یہود سے پست تھے۔