انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ام حبیبہؓ سے حضورﷺ کا نکاح حضرت اُم حبیبہؓ کا اصلی نام رملہ اور اُم حبیبہ کنیت تھی، وہ بنوامیہ کے سردار ابو سفیان کی بیٹی تھیں اور حضرت امیر معاویہ ؓ کی بہن تھیں، حضرت عثمان ؓ بن عفان کی حقیقی پھوپھی زاد بہن تھیں، حضرت اُم حبیبہؓ اور ان کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش نے اوائل اسلام ہی میں اسلام قبول کر لیاتھا، حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ میں دونوں شریک تھے، حبشہ جا کر ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش نے عیسائیت قبول کر لی، اس نے اپنی رفیق حیات کو بھی اپنے نقش قدم پر چلنے پر مجبو ر کیا مگر اُم حبیبہ ؓ نے مزاحمت کی اور اسلام کا دامن استقامت سے تھامے رکھا، اختلاف مذہب کی بناء پر عبیداللہ بن جحش نے ان سے علحٰدگی اختیار کر لی، حضور اکرم ﷺ حضرت اُم حبیبہ ؓ کو اسلام پر استقامت کا صلہ دینا چاہتے تھے، چنانچہ حضور ﷺ نے عمرو بن امیہ الفہری کے ذریعہ نجاشی کے پاس حضرت اُم حبیبہ ؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا، شاہ حبشہ نجاشی نے ام حبیبہ کو اپنی لونڈی ابرہہ کے ذریعہ پیغام دیا کہ " آنحضرت ﷺ نے مجھ کو تمہارے نکاح کیلئے لکھا ہے، انھوں نے اپنی رضا مندی ظاہر کی" چنانچہ تعمیل حکم میں نجاشی نے خود نکاح پڑھایا اور حضور ﷺکی طرف سے چار سو دینار مہر اپنے پاس سے ادا کیا ، خالد بن سعید اموی کو وکیل مقرر کیااور جعفر بن ابو طالب اور وہاں کے مسلمانوں کو بھی اس نکاح میں شرکت کے لئے بلایا، ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور انگوٹھیاں دیں، تمام لوگوں کے سامنے خالد بن سعید کو مہر کی رقم دی گئی تو لوگوں نے بعد نکاح اٹھنا چاہا لیکن نجاشی نے کہا: دعوت ولیمہ تمام پیغمبروں کی سنت ہے، ابھی بیٹھناچاہیے؛ چنانچہ کھانا آیا اور لوگ دعوت کھا کر رخصت ہوئے ، جب مہر کی رقم حضرت اُم حبیبہ کو ملی تو انھوں نے پچاس دینار ابرہہ کو دئیے؛ لیکن اس نے اس رقم کو اس کنگن کے ساتھ جو پہلے دئے گئے تھے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ بادشاہ نے مجھ کو منع کر دیا ہے ، دوسرے روز ان کی خدمت میں عود‘زعفران اور عنبر وغیرہ لے کر آئی ، جب نکاح کے تمام رسومات ادا ہو گئے تو نجاشی نے ان کو شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ آنحضرت ﷺکی خدمت میں روانہ کر دیا،حضرت اُم حبیبہ ؓ نے ۴۴ ہجری م ۶۶۴ء میں وفات پائی اور مدینہ میں دفن ہوئیں۔