انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مصر میں ابنِ زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت مصر کا حاکم عبدالرحمن بن خجدم تھا، اس نے جب معاویہ بن یزید کے انتقال کی خبرسنی توفوراً بذریعہ وفد عبداللہ بن زبیر کی بیعت کی، حمص کے گورنرنعمان بن بشیراور قنسرین کے حاکم ظفربن حارث تھے، ان دونوں نے بھی معاویہ بن یزید کی وفات کا حال سن کرعبداللہ بن زبیر ہی کی خلافت کوتسلیم کرلینا مناسب سمجھا، معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد چونکہ جلد خلیفہ کا انتخاب نہیں ہوسکا؛ لہٰذا اہلِ دمشق نے ضحاک بن قیس کے ہاتھ پراس اقرار کے ساتھ بیعت کی تھی کہ جب تک مسلمانوں کا کوئی امیر اور خلیفہ منتخب ومتعین نہ ہو، اس وقت تک ہم آپ کواپنا امیرمانیں گے اور آپ کے احکام کی فرماں برداری کریں گے، یہ ضحاک بن قیس بھی خلافت کے لیے عبداللہ بن زبیر ہی کوسب سے بہتر سمجھتے تھے، فلسطین کا گورنرحسان بن مالک تھا وہ البتہ اس امرکا خواہاں تھا کہ آئندہ بھی جوخلیفہ منتخب ہووہ بنی اُمیہ میں سے ہو؛ غرض معاویہ بن یزید کی وفات پرتمام عالمِ اسلام حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت پرمتفق ہوچکا تھا اور بنوامیہ کے سوا تمام باثراشخاص وراثت کوخلافت سے مٹانے اور عبداللہ بن زبیر کوخلیفہ بنانے پرآمادہ پائے جاتے تھے۔ عبیداللہ بن زیاد کی یزید کے بعد عراق میں جوحالت ہوئی اوپر پڑھ چکے ہو، اب اس کے بھائی مسلم بن زیاد کا حال سنو، جوخراسان کا گورنر تھا۔ خراسان میں جب یزید کے مرنے کی خبر پہنچی تومسلم بن زیاد نے اہلِ خراسان سے کہاکہ یزید کا انتقال ہوگیا ہے، جب تک کوئی دوسرا خلیفہ مقرر ہوکراحکامات جاری کرے، اس وقت تک کے لیے تم میرے ہاتھ پربیعت کرلو، اہلِ خراسان نے خوشی سے بیعت کرلی؛ لیکن چند روز بعد انہوں نے اس بیعت کوفسخ کردیا، مسلم بن زیاد کا بھی قریباً وہی حشر ہوا، جوعبیداللہ بن زیاد اس کے بھائی کا عراق میں ہوا تھا، مسلم بن زیاد نے اپنی جگہ مہلب بن ابی صفرہ کوحاکمِ خراسان مقرر کرکے خود دمشق کا قصد کیا، راستے میں اس کوعبداللہ بن حازم ملا، اس نے عبداللہ بن حازم کواپنی طرف سے حاکم خراسان مقرر کردیا اور مہلب بن ابی صفرہ بدستور سپہ سالارِ افواج رہا، عبداللہ بن حازم نے خراسان پہنچ کرتمام سرکشوں اور باغیوں کودرست کردیا، ادھر دمشق میں خلافت کا فیصلہ ہورہا تھا، ادھر عبداللہ بن حازم ترکوں اور مغلوں کوشکستیں دے کراسلامی حکومت کا سکہ دلوں پربٹھارہا تھا۔ اگرعبداللہ بن زبیر حصین بن نمیر کا مشورہ قبول کرلیتے اور شام کے ملک میں تشریف لے آتے تویقیناً ان کی خلافت کے قیام واستحکام میں کوئی شک وشبہ باقی نہ تھا اور وہ تنہا عالمِ اسلامی کے خلیفہ بن کرضرور ان برائیوں کوجن کی بنیاد پڑچکی تھی، کلیۃً مٹادینے میں کامیاب ہوجاتے؛ مگرشدنی اُمور اس کے خلاف تھے جوہوکررہے۔