انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسترشد باللہ مسترشد باللہ بن مستظہر باللہ ربیع الاوّل سنہ۴۸۵ھ میں پیدا ہوا اور بعمر ۲۷/سال اپنے باپ کے بعد سنہ۵۱۲ھ، ۱۵/ربیع الآخر کوتخت نشین ہوا، خلیفہ مسترشد کے بھائی امیرابوالحسن بن مستظہر نے بیعت نہیں کی اور بغداد سے واسط چلا گیا، سال بھر کے بعد گرفتار ہوکر آیا اور خلیفہ نے اس کا قصور معاف کرکے قصرِ خلافت میں ٹھہرایا، خَیفہ مسترشد کی تخت نشینی کے دوسرے مہینے مسعود بن سلطان محمدسلجوقی برادر سلطان محمود نے جوموصل میں مقیم تھا، خروج کیا اور اپنے ساتھ قسیم الدولہ زنگی بن آقسنفر والیٔ بخارا اور ابوالہیجا والیٔ اربل کوبھی ملایا اور بغداد میں آکر اپنا عمل دخل بڑھایا، ادھر سلطان محمود کا تیسرا بھائی سلطان طغرل بن سلطان محمد اپنے باپ کے زمانے سے زنجان کا حاکم تھا، سلطان محمود نے ملک طغرل پرچڑھائی کی، ملک طغرل زنجان سے بھاگ گیا، سلطان محمود نے زنجان کولوٹ لیا۔ جب سلطان محمد کا انتقال ہوا اور سلطان محمود تخت نشین ہوا تو اس نے سلطان محمد کا بھائی یعنی سلطان محمود کا چچا سنجر ماوراءالنہر کا حاکم تھا، سلطان سنجر کا لقب پہلے ناصرالدین تھا، سلطان محمود کے انتقال کے بعد سلطان سنجر نے ماوراءالنہر کے ہمراہ امیرابوالفضل والی سجستان، خوارزم شاہ محمد امیرنزد اور علاؤالدولہ یزد وغیرہ سردار بھی تھے، اس معرکہ میں سلطان محمود کوشکست اور سلطان سنجر کوفتح حاصل ہوئی اور اس نے بڑھ کرہمدان پرقبضہ کیا، یہ خبر جب بغداد میں پہنچی تویہاں سلطان سنجر کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ سلطان محمود نے بعد شکست اصفہان میں جاکر دم لیا، آخرسلطان سنجر کی ماں نے کوشش کرکے دونوں میں صلح کرادی، شرط یہ قرار پائی کہ سلطان سنجر، سلطان محمود کواپنا ولی عہد تسلیم کرے اور خطبوں میں سنجر کے بعد محمود کا نام لیا جائے؛ چنانچہ اس شرط کے موافق سلطان سنجر نے ماوراءالنہر، غزنہ، خراسان وغیرہ اپنے ممالک میں سلطان محمود کی ولی عہدی کے فرامین بھیج دیے، صرف رَے کا علاقہ سلطان سنجر نے سلطان محمود کے مقبوضہ ممالک سے اپنے قبضہ میں لے کرباقی تمام ممالک پراس کی حکومت کوتسلیم کیا، ادھر سلطان محمود نے اپنے بھائی سلطان مسعود سے صلح کرکے اس کوموصل وآذربائیجان کے صوبے دے دیے اور اس نے موصل کواپنا مستقر حکومت بنایا۔ سنہ۵۱۳ھ میں سلطان محمود نے اپنی خودمختاری اور سلطان محمود کی مخالفت کا عَلم بلندکیا، ۱۵/ربیع الاوّل سنہ۵۱۴ھ میں بغذاد واپس آگیا اور سلطان مسعود پھرموصل میں حکومت کرنے لگا، سنہ۵۱۵ھ میں سلطان محمود نے موصل کی حکومت آقسنفر برسقی کودی اور مسعود کے پاس آذربائیجان کا صوبہ رہا، سلطان طغرل کا ذکر اوپر گزرچکا ہے کہ وہ سلطان محمود سے شکست کھاکر گنجہ میں چلا آیا تھا، سنہ۵۱۶ھ میں سلطان محمود اور سلطان طغرل کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا، اس کے بعد سلطان محمود نے آقسنفر برسقی کوموصل کے علاوہ واسط کا علاقہ بھی جاگیری میں دے دیا، آقسنفر برسقی نے اپنی طرف سے قسیم الدولہ، عمادالدین زنگی بن آقسنفر کوواسط کی حکومت پرمامور کیا، سنہ۵۱۷ھ میں سلطان محمود نے اپنے وزیرشمس الملک کوقتل کردیا اور شمس الملک کے بھائی نظام الدولہ کوخلیفہ مسترشد نے اپنی وزارت سے معزول کیا۔ ماہ ذوالحجہ سنہ۵۱۷ھ میں خَیفہ مسترشد نے خود فوج تیار کرکے دبیس بن صدقہ کی سرکوبی کے لیے بغداد سے کوچ کیا، موصل وواسط کی فوجیں بھی خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، مقام مبارکہ میں لڑائی ہوئی، اس لڑائی میں عمادالدین زندگی بن آقسنفر والی واسط نے بڑی بہادری اور جان فروشی دکھائی اور خلیفہ منصور نے فتح پائی،۔ ۱۰/محرم الحرام سنہ۵۱۸ھ کوخلیفہ مظفر ومنصور بغداد میں داخل ہوا، یہ غالباً پہلی جنگ تھی جوعرصہ دراز کے بعد عباسی خلیفہ کی سپ سالاری میں ہوئی، اس کے بعد معلوم ہوا کہ دبیس بن صدقہ بصرہ کولوٹنا چاہتا تھا؛ چنانچہ عماد الدین زندگی بن آقسنفر بصرہ کی حفاظت کے لیے مامور ہوکر روانہ ہوا اور دبیس وہاں سے ناکام ونامراد ہوکر ملک طغرل بن سلطان محمود کے پاس چلا گیا؛ اسی سال یعنی سنہ۵۱۸ھ میں آقسنفر برسقی نے جوشحنہ عراق مقرر ہوچکا تھا اور موصل میں رومیوں کے حملوں کوروکنے کی تدابیر میں مصروف تھا، عمادالدین زنگی بن آقسنفر کوبصرہ کی حکومت سے اپنے پاس موصل طلب کیا، عمادالدین زندگی بصرہ سے روانہ ہوکر موصل تونہیں گیا؛ بلکہ سلطان محمود کے پاس اصفہان پہنچا، سلطان محمود نے وہاں سے اس کوبصرہ کی سند حکومت دے کربصرہ کی طرف واپس کردیا، دبیس بن صدقہ جب سلطان طغرل کے پاس پہنچا تواس نے اس کواپنے مصاحبین میں داخل کرلیا، دبیس نے طغرل کواُبھارکر عراق پرچڑھائی کرادی۔ سنہ۵۱۹ھ کوفوج لے کربغداد سے بہ غرض مقابلہ کوچ کیا، نہروان میں مقابلہ ہوا مگر دبیس اور طغرل دونوں خراسان میں سلطان سنجر کے پاس پہنچے، رجب سنہ۵۳۰ھ میں یرتقش زکوی کوتوال بغداد سلطان محمود کے پاس اصفہان پہنچا اور کہا کہ خلیفہ مسترشد نے فوجیں مرتب کرلی ہیں، سامان جنگ بھی کافی فراہم ہے اور مالی حالت بھی خلیفہ کی کافی اچھی ہوگئی ہے، اندیشہ ہے کہ خلیفہ قابو سے نہ نکل جائے، یہ سن کرسلطان محمود نے فوجیں آراستہ کرکے خود بغداد کی جانب کوچ کیا، خلیہ مسترشد نے جب یہ سنا کہ سلطان محمود بغداد کی جانب آرہا ہے تواس کولکھا کہ تمہارے اس طرف آنے کی ضرورت نہیں، تم دبیس وغیرہ کے سرکشوں کی سرکوبی کے لیے واپس جاؤ، اس سے سلطان محمود کا شبہ یقین کے درجہ کوپہنچ گیا اور اس نے سمجھا کہ خلیفہ ضرور میرے اثر واقتدار سے آزاد ہونا چاہتا ہے؛ چنانچہ وہ اور بھی تیزی سے بغداد کی جانب سفر طے کرنے لگا، ۱۷/ذی الحجہ سنہ۵۲۰ھ کوسلطان محمود بغداد میں داخل ہوا اور خلیفہ غربی بغداد میں چلا گیا، یکم محرم سنہ۵۲۱ھ کوسلطان محمود کے ہمراہیوں نے قصرِخلافت کولوٹا، اہلِ بغداد تیس ہزار کی تعداد میں خلیفہ مسترشد کے پاس جمع ہوگئے، دریائے دجلہ کے ساحل پرلڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، بہت سی لڑائیوں اور زور آزمائیوں کے بعد خلیفہ اور سلطان محمود میں صلح ہوگئی، ربیع الثانی سنہ۵۲۱ھ کوسلطان محمود بغداد سے ہمدان کی جانب روانہ ہوا اور عمادالدین زنگی کوبصرہ کی حکومت سے بلاکر بغداد کی شحنگی پرمامور کیا، اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ دبیس اور طغرل دونوں سنجر کے پاس خراسان پہنچ گئے تھے؛ انہوں نے سنجر کوخلیفہ مسترشد اور سلطان محمود کی طرف سے برافروختہ وبدگمان کرنے کی کوشش کی، آخرسلطان سنجر خراسان سے فوجیں لے کر رَے کی جانب روانہ ہوا، رَے پہنچ کرسلطان محمود کوہمدان سے اپنے پاس ملاقات کے لیے بلوایا، اس طلبی سے مدعا یہ تھا کہ اگرسلطان محمود مخالف نہیں ہوا توچلا آئے گا؛ ورنہ انکار کرے گا؛ چنانچہ سلطان محمود اپنے چچاسنجر کے پاس بلاتوقف چلا گیا، سنجر نے بڑی عزت کا برتاؤ کیا اور دبیس کی سفارش کرکے محمود کے ساتھ کردیا، محمود دبیس کوہمراہ لے کرہمدان واپس آیا اور ۹/محرم سنہ۵۲۳ھ کومع دبیس بغداد میں داخل ہوا، دربارِ خلافت میں دبیس کوپیش کرکے عفو تقصیر کی سفارش کی، خلیفہ نے دبیس کی خطامعاف کردی، سلطان محمود نے بغداد کی شحنگی پربہروز کومامور کیا اور عمادالدین زنگی کوموصل کی گورنری پرمامور کرکے بھیج دیا۔ جمادی الثانی سنہ۵۲۳ھ میں سلطان محمود بغداد سے ہمدان کی جانب روانہ ہوا، دبیس کوموقع مل گیا، اس نے بغداد سے روانہ ہوکر حلہ پرقبضہ کرلیا اور خلیفہ کی مخالفت وبغداد کا عَلم بلند کیا، خلیفہ نے اس کے مقابلہ کے لیے فوج روانہ کی، ابھی مقابلہ جاری تھا کہ ذیقعدہ سنہ۵۲۳ھ کوسلطان محمود بھی دبیس کی سرکشی کا حال سن کربغداد پہنچ گیا، دبیس حلہ چھوڑ کربصرہ کی طرف روانہ ہوا، بصرہ کوخوب لوٹ کرپہاڑوں میں جاچھپا اور سلطان محمود ہمدان واپس چلا گیا۔ سنہ۵۲۵ھ میں شوال کے مہینے میں سلطان محمود نے انتقال کیا، اس کی جگہ اس کا بیٹا داؤد تحت نشین ہوا، بلادِ جبل وآذربائیجان میں اس کے نام کا خطبہ پڑھاگیا، ماہِ ذیقعدہ سنہ۵۲۵ھ میں داؤد نے ہمدان سے زنجان کی جانب کوچ کیا؛ اسی اثنا میں خبر سنی کہ سلطان محمود نے جرجان سے آکر تبریز پرقبضہ کرلیا ہے، داؤد نے فوراً تبریز کی جانب کوچ کیا اور محرم سنہ۵۲۶ھ میں تبریز کا محاصرہ کرلیا، چچا بھتیجے میں لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا، آخردونوں میں مصالحت ہوگئی، داؤد تبریز سے ہمدان چلا آیا، مسعود نے تبریز سے نکل کرلشکرفراہم کرنا شروع کیا اور جب ایک عظیم الشان لشکر فراہم ہوگیا توخلیفہ مسترشد کے پاس بغداد میں پیغام بھیجا کہ میرے نام کا خطبہ پڑھوایا جائے، خلیفہ نے جواب دیا کہ فی الحال خطبہ میں سلطان سنجر کا نام لیا جاتا ہے، تمہارا اور داؤد دونوں کا نام فی الحال نہیں لیا جائے گا؛ اسی عرصہ میں سلجوق شاہ ابن سلطان محمد نے فوج فراہم کرکے بغداد میں آکرقیام کیا، خلیفہ نے اس کے ساتھ عزت کا برتاؤ کیا، ادھر عمادالدین زنگی سلطان مسعود کے پاس پہنچا، سلطان مسعود اور عمادالدین زنگی دونوں بغداد کی طرف روانہ ہوئے اور مقام عباسیہ میں قیام کیا، سلجوق شاہ نے مقابلہ کی تیاری کی اور قراجاساقی کومقابلہ پرروانہ کیا، ادھر سے عمادالدین زنگی مقابلہ پرآیا، ایک خوں ریز جنگ کے بعد زنگی کے لشکر کوشکست ہوئی، عمادالدین زنگی شکست کھاکر تکریت کی طرف گیا، تکریت میں ان دنوں نجم الدین ایوب پدرسلطان صلاح الدین حاکم تھا، اس نے عمادالدین زنگی کے اترنے کوکشتیاں بھی فراہم کیں اور پل بھی بندھوایا، زنگی نے دریا کوعبور کرکے موصل کا راستہ لیا، سلطان مسعود نے خط وکتابت شروع کرکے سلجوق شاہ اور خلیفہ کے بات پررضامند کرلیا کہ عراق کی حکومت سلطان مسعود کے قبضے میں رہے اور عراق کی حکومت وسلطنت کے علاوہ خطبہ میں سلطان مسعود کے بعد سلجوق شاہ کا نام لیا جائے، اس قرار داد کے موافق سلطان مسعود جمادی الاویٰ سنہ۵۳۶ھ میں داخلِ بغداد ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا اوپرذکر ہوچکا ہے کہ سلطان طغرل اپنے چچا سلطان سنجر کے ہمراہ ہے، دبیس جوپہاڑوں میں جاچھپا تھا، وہ بھی سلطان سنجر کے پاس پہنچ گیا ہے، اب ان حالات سے مطلع ہوکر سلطان سنجر مع طغرل ودبیس رَے کی طرف بڑھا، وہاں سے ہمدان کی طرف چلا، ادھر سے مسعود شاہ اور سلجوق شاہ مع قراجاساقی سنجر کی روک تھام کے لیے بغداد سے روانہ ہوئے، سنجر نے استرآباد سے آگے بڑھ کرمسعود وسلجوق شاہ کا مقابلہ کیا اور اس کوشکست دے کربھگادیا۔ سلطان سنجر نے مسعود وسلجوق کی خطا معاف کردی اور ان کواپنے پاس بلاکر عزت واحترام سے رکھا اور اپنے بھتیجے طغرل کوعراق کی حکومت سپرد کی اور اس کے نام کا خطبہ جاری کیا؛ اسی اثناء میں یعنی ذوالحجہ سنہ۵۲۷ھ میں خبر پہنچی کہ والی ماوراءالنہر نے عَلم بغاوت بلند کرکے فوجی تیاریاں شروع کردی ہیں، ملک سنجر کوفوراً خراسان کی طرف روانہ ہونا پڑا، اس زمانے میں سلطان داؤد بن محمود بلاد آذربائیجان کی طرف تھا، وہ فوجیں فراہم کرکے ہمدان کی طرف بڑھا، ادھر سے طغرل مقابلہ پرپہنچا، داؤدکوشکست ہوئی اور وہ شکست کھاکر بغداد کی طرف گیا، سلطان مسعود بھی سلطان سنجر سے رخصت ہوکر بغداد کوآیا، داؤد ومسعود دونوں نے ملک کرخلیفہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم کوصوبہ آذربائیجان پرقبضہ کرلینے کی اجازت ہو، اجازت ہوئی اور دونوں نے ملک طغرل کے اہل کاروں کونکال کرآدربائیجان پرقبضہ کرلیا، طغرل مقابلہ پرآیا؛ مگرشکست کھا کربھاگا، سلطان مسعود نے ہمدان پرقبضہ کرلیا اور سلطان داؤد آذربائیجان پرمتصرف رہا، سلطان مسعود کوہمدان میں معلوم ہوا کہ سلطان داؤد نے آذربائیجان میں خود مختاری وسرکشی کا اعلان کردیا ہے، اس لیے وہ آذربائیجان کی طرف روانہ ہوا، ملک طغرل نے موقع پاکر فوجیں فراہم کیں اور بلادِ جبل کوفتح کرنا شروع کیا، سلطان مسعود مقابلہ پرآیا، طغرل نے مسعود کوماہِ رمضان سنہ۵۲۸ھ میں شکست دے کربھگادیا، سلطان مسعود شکست کھاکربغداد آیا اور طغرل ہمدان میں آکرمقیم ہوا؛ غرض سلجوقیوں کی آپس کی خانہ جنگی کا قصہ بہت طویل اور بے مزہ ہے، سلطان طغرل فوت ہوا اور سلطان مسعود عراق پرقابض ہوکرمتصرف ہوا، خلیفہ مسترشد اور سلطان مسعود کی ان بن ہوگئی، خلیفہ مقابلہ کے لیے نکلا، دونوں فوجوں نے خوب جدال وقتال کیا، خلیفہ کے لشکر نے نمک حرامی کی اور خلیفہ کا ساتھ چھوڑ دیا، خلیفہ نے شکست کھائی اور ہمدان کے ایک قلعہ میں قید کردیا گیا، یہ خبر بغداد میں پہنچی تواہلِ بغداد میں غمناک شوربرپا ہوگیا، انہیں ایام میں متواتر عراق وخراسان میں کئی روز تک زلزلے آتے رہے، سلطان سنجر نے اپنے بھتیجے سلطان مسعود کولکھا کہ تم خود خلیفہ کے پاس جاؤ اور معافی مانگو، یہ زلزلہ کا آنا اور لوگوں کا مسجدوں میں نمازوں کے لیے نہ آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، امیرالمؤمنین کونہایت عزت وحرمت کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں پہنچاؤ، سلطان مسعود نے، سلطان سنجر کے حکم کی تعمیل کی اور خلیفہ کی خدمت میں خود حاضر ہوا، جولشکر سلطان مسعود کے ساتھ تھا اس میں سترہ آدمی قرامطہ یاباطنی فرقہ کے بھی شامل تھے، جن کی سلطان مسعود کوخبر نہ تھی، ان باطنیوں نے خلیفہ کے خیمے میں پہنچ کرخلیفہ پرحملہ کیا اور قتل کرڈالا، خلیفہ کے اس طرح قتل ہونے کا حال جب یکایک لوگوں کومعلوم ہوا توباطنیوں کوگرفتار کیا اور وہ سب کے سب قتل کیے گئے، سلطان مسعود کوصدمہ ہوا۔ یہ واقعہ ۱۶/ذیقعدہ سنہ۵۲۹ھ بروز پنجشنبہ وقوع پذیر ہوا، یہ خبر جب بغداد میں پہنچی تواور بھی حشر برپا ہوگیا اور شہر میں بڑا کہرام مچا اور خلیفہ مسترشد کا بیٹا ابوجعفر منصور تختِ خلافت پربیٹھا اور اس نے اپنا لقب راشد باللہ مقرر کیا۔