انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سعدبنؓ حبتہ نام ونسب سعد نام، ابن حبتہ عرف قبیلہ بجیلہ سے ہیں اورعمرو بن عوف کے حلیف ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے،سعد بن بجیر بن معاویہ بن نفیل بن سدوس بن عبدمناف بن ابی اسامہ بن لحمہ بن سعد بن عبداللہ بن قذاذ بن معاویہ بن زید بن غوث بن انمار بن اراش والدہ کا نام حبتہ بنت مالک تھا اور قبیلۂ عمرو بن عوف سے تھیں، اسلام کا زمانہ پایا اور مسلمان ہوئیں۔ اسلام حضرت سعدؓ بھی ان کے ساتھ اسلام لائے۔ غزوات غزوۂ بدر اوراحد میں کم سنی کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے (استیعاب:۲/۵۶۹) غزوۂ خندق میں شرکت کی اس وقت ۱۵ برس کا سن تھا، نہایت جوش سے لڑے آنحضرتﷺ نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے بولے "سعد بن حبۃ" فرمایا :اسعداللہ جدک ،خدا تمہیں خوش نصیب کرے ،پھر پاس بلا کر ان کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ (اسدالغابہ:۲/۲۷۰) ۶ھ میں غابہ نامی ایک مقام پر غزوہ کے لئے گئے، یہاں آنحضرتﷺ کی ۲۰ اونٹنیاں چرنے کے لئے گئی تھیں، عینیہ بن حصن کے ۴۰ سوار آکر ان کو ہانک لے گئے، ایک شخص دوڑتا ہوا مدینہ آیا کھڑے ہوکر فریاد کی ،الفزع الفزع ،آنحضرتﷺ نے آواز سن کر سواروں کو امداد کے لئے بھیجا؛ لیکن سواروں کی روانگی سے قبل عمرو بن عوف میں آواز پہونچ گئی تھی اوروہاں سے ابو قتادہؓ اور سعد بن حبتہؓ وغیرہ روانہ ہوچکے تھے موقع پر پہونچ کر مقابلہ ہوا ،ابو قتادہ نے دشمن پرحملہ کیا اورابن حبتہ نے اس کو مارکر گرادیا۔ (طبقات ابن سعد،صفحہ۵۸،قسم اول،جلد۲،اصابہ:۳/۷۲) مصنف اصابہ نے اس واقعہ کو احد سے متعلق بتایا ہے،لیکن وہ ابن کلبی کی روایت ہے اوربخاری ومسلم کے علاوہ تمام کتب سیر کے خلاف ہے ،غزوۂ ذی قرد کے (ہیرو) حضرت سلمہؓ بن اکوع ہیں جن سے صحیح مسلم میں ایک طویل روایت منقول ہے، اس کا ایک فقرہ یہ ہے۔ فَوَاللَّهِ مَا لَبِثْنَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ حَتَّى خَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم،باب غزوۃ قرد وغیرھا،حدیث نمبر:۳۳۷۲) غزوہ ذی قرد کے بعد ۳ دن بھی نہ گذرے تھے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ خیبر کی لڑائی پر ہم لوگ روانہ ہوئے ۔ صحیح بخاری سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،باب غزوہ ذات القرد میں ہے: وَهِيَ الْغَزْوَةُ الَّتِي أَغَارُوا عَلَى لِقَاحِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ خَيْبَرَ بِثَلَاثٍ (بخاری،باب غزوۃ ذی قرد،۱۳/۹۳) ذی قردوہ غزوہ ہے جس میں کفار نے آنحضرتﷺ کی اونٹنیون پر خیبر سے ۳ روز قبل لوٹ ڈالی تھی۔ مسلم کی روایت میں ایک اور جملہ مذکور ہے: ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ (مسلم،باب غزوۃ ذی قرد وغیرھا،حدیث نمبر:۳۳۷۲) ہم (یعنی سلمہ)حدیبیہ سے مدینہ آئے تو آنحضرتﷺ نے اپنی اونٹنیاں رباح کے ہاتھ جو آپ کے غلام تھے (غابہ) روانہ کیں میں بھی رباح کے ساتھ چلا۔ ان روایتوں سے حسب ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے: ۱۔غزوہ غابہ،حدیبیہ کے بعد ہوا۔ ۲۔حضرت سلمہؓ لڑائی اورلوٹ سے پہلے غابہ میں موجود تھے۔ ۳۔غزوۂ غابہ کے ۳ دن بعد خیبر کی مہم پیش آئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ۶ھ یا ۷ھ کا ہے کیونکہ صلح حدیبیہ ۶ھ اورخیبر اوائل ۷ھ میں پیش آیا تھا، اس لئے اس کو غزوۂ احد سے ملحق سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں۔ وفات عہدِ نبوت کے بعد کوفہ میں اقامت کی اور یہیں انتقال کیا، حضرت زید بنؓ ارقم نے نمازجنازہ پڑھائی اور۵ تکبیریں کہیں۔ اولاد ۳ بیٹے اور ایک لڑکی یاد گار چھوڑی،فقہ حنفی کے دستِ راست اوراسلام کے سب سے پہلے قاضی القضاۃ حضرت امام ابو یوسفؓ انہی کی اولاد ہیں۔ (اصابہ:۳/۷۲) فضل وکمال روایتیں بہت کم ہیں،آنحضرتﷺ کے علاوہ حضرت علیؓ اورحضرت زید بنؓ ارقم سے بھی حدیثیں سنی تھیں راویوں میں ان کے ایک بیٹے نعمان ہیں۔