انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۹۶۔ابووائل بن سلمہؒ نام ونسب شفیق نام،ابووائل کنیت، والد کا نام سلمہ تھا،نسبابیلہ اسد بن خزیمہ سے تھے شفیق اپنے نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں۔ عہد رسالت ابو وائل عہد رسالت میں موجود تھے،لیکن کم سن تھے عمر بن مروان کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ابو وائل سے پوچھا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا، انہوں نے کہا ہاں آپ کو دیکھا تھا، لیکن اس وقت میں نوخیز لڑکا تھا(ابن سعد،ج۷،ق اول،ص۱۳۵) لیکن بروایتِ صحیح وہ تابعی ہیں۔ اسلام ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانہ میں وہ مشرف باسلام ہوئے،مغیرہ کا بیان ہے کہ ابو وائل کہتے تھے کہ ہمارے قبیلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تحصیلدار آیا،وہ ہم سے ہر بچاس اونٹنیوں پر ایک اونٹنی لیتا تھا، میرے پاس ایک مینڈھا تھا میں نے اس کو لاکر پیش کیا اورکہا اس کا صدقہ لو،اس نے کہا اس میں صدقہ نہیں ہے۔ (ایضاً) عہد صدیقی عہد صدیقی میں ان کے قبیلہ نے بھی صدقہ دینے سے انکار کردیا تھا،ابو وائل بھی اس جماعت میں شامل تھے،سلیمان الاعمش کا بیان ہے کہ شفیق مجھ سے کہتے تھے،کاش تم ہم کو بزاخہ کے معرکہ میں خالد بن ولید کے مقابلہ میں بھاگتے ہوئے دیکھے ہوتے، اس دن میں اونٹ سے گرپڑا تھا اورمیری گردن ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی، اگر میں اس دن ہلاک ہوگیا ہوتا تو میرے لیے دوزخ یقینی تھی (عہد صدیقی میں بنی اسد پر فوج کشی کا معرکہ) لیکن پھر ان کے قبیلہ نے زکوٰۃ ادا کرکے اطاعت قبول کرلی تھی۔ عہد فاروقی میں تلافی مافات عہد فاروقی میں انہوں نے اس لغزش کی پوری تلافی کردی عراق کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے،قادسیہ کے مشہور معرکہ میں موجود تھے۔ (ابن سعد:۶/۶۴) شام کی مہم میں بھی ان کی شرکت کا پتہ چلتا ہے،خود ان کی زبانی یہ روایت ہے کہ میں عمر بن الخطابؓ کے ساتھ شام کی فوج کشی میں شریک ہوا، غالباً اس سے مراد سفر شام میں حضرت عمرؓ کی مشایعت ہوگی۔ عمر فاروق کا برتاؤ ان کے خدمات کی بنا پر حضرت عمرؓ ان کا بڑا لحاظ کرتے تھے،ان کا بیان ہے کہ عمرؓ نے مجھ کو اپنے ہاتھ سے چار عطیے دیئے اورکہا ایک نعرۂ تکبیر دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (ایضاً:۶۴) جنگ صفین عہد مرتضوی میں حضرت علیؓ کی حمایت میں جنگ صفین میں نکلے ،لیکن بعد میں اس شرکت پر متاسف تھے ،اعمش کا بیان ہے کہ کسی نے ابو وائل سے پوچھا کہ آپ نے جنگ صفین میں شرکت کی تھی فرمایا ہاں شریک ہوا تھا؛لیکن دونوں صفیں نہایت بری تھیں۔ حجاج اورابو وائل اموی عہد میں ابو وائل کی بڑی عزت ووقعت تھی،حجاج خصوصیت کے ساتھ بہت مہربان تھا،اس نے آپ کے سامنے بعض بڑے عہدے پیش کیے لیکن آپ نے قبول کرنے سے انکار کیا،خود آ پ کا بیان ہے کہ حجاج جب (کوفہ) آیا تو مجھے بلا بھیجا میں اس کی طلبی پر گیا،اس نے مجھ سے پوچھا آپ کا نام کیا ہے،میں نے کہا نام تم کو معلوم ہی ہوگاورنہ مجھے بلاتے کیسے،پوچھا اس شہر میں کب آئے ہیں میں نے کہا اس زمانے ممیں جب اس شہر کے تمام باشندے آئے،پوچھا آپ کو کتنا قرآن یاد ہے، میں نے کہا اتنا کہ اگر میں اس کی پابندی کروں تو وہ میرے لیے کافی ہو،ان سوالات کے بعد اس نے کہا میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ کو بعض عہدے دینا چاہتا ہوں میں نے پوچھا کون سا عہدہ، اس نے کہا سلسلہ (سزا دینے کا ایک عہدہ) (بیڑی)میں نے کہا یہ عہدہ ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دے سکیں، اگر آپ مجھ سے مدد لینا چاہتے ہیں تو ایسے عقل خوردہ سے مدد لیں گے جس کا بُرے مدد گاروں سے سابقہ ہوگا، اس لیے اگر آپ مجھے اس عہدہ سے معاف رکھیں تو میرے لیے زیادہ بہتر ہوگا اوراگر آپ کو اصرار ہے تو میں اس پر خطر عہدہ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں مگر یہ بھی عرض کردوں کہ ایسی حالت میں جبکہ میں آپ کا عہدہ دار نہیں ہوں جب راتوں کو آپ کو یاد کرتا ہوں تو نیند اڑجاتی ہے تو جب عہدہ دار ہوں گا تو کیا حال ہوگا، لوگ آپ سے اس قدر خائف ہیں کہ اس سے پیشتر کسی امیر سے اتنا خائف نہ ہوئے ہوں گے، میری ان باتوں کو اس نے پسند کیا اور کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص خوں ریزی میں مجھ سے زیادہ جری اوربے باک بھی نہیں ہے،میں ایسے ایسے اہم کام کر گزرا جس کے پاس جاتے ہوئے لوگ ڈرتے تھے میری اس سختی کی وجہ سے میری مشکلات آسان ہوگئیں،خدا آپ پر رحم کرے اب آپ جائیے،اگر آپ کے علاوہ کوئی دوسرا موزوں شخص مل گیا تو آپ کو زحمت نہ دوں گا،ورنہ پھر آپ کو اس میں ڈالنا پڑے گا، غرض کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ابو وائل واپس آئے اورپھر کبھی حجاج کے پاس نہ گئے۔ (ابن سعد:۶/۶۶۶) تحصیل زکوٰۃ کا عہدہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اموی دور میں وہ تحصیل زکوۃ کے عہدہ پر تھے،مہاجر ابوالحسن کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں ابوبردہ اورشقیق کے پاس جو بیت المال میں تھے زکوٰۃ لے کر گیا،انہوں نے اس کو داخل کرلیا، اسی روایت کے ایک راوی سعید کہتے ہیں کہ میں دوبارہ زکوٰۃ لے کر گیا تو تنہا ابووائل تھے،انہوں نے کہا اس کو واپس لے جاؤ، اوراس کے مصارف میں اس کو صرف کردو،میں نے کہا مولفۃ القلوب کا حصہ کیا کروں،انہوں نے کہا اسے دوسرے لوگوں کو دے دو (ابن سعد:۶/۶۵) فضل وکمال علمی اعتبار سے ابووائل کوفہ کے ممتاز علماء میں تھے،حافظ ذہبی ان کو کوفہ کا شیخ اورعالم لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۱)علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق اورجلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء،جلد اول ،ق اول،ص۲۴۷) قرآن قرآن کے حافظ تھے،ذہین اورذکی ایسے تھے کہ دو مہینہ میں پورے قرآن کی تعلیم حاصل کرلی تھی (تہذیب الاسماء،جلد اول،ق اول،ص۲۴۷)لیکن تفسیر بیان کرنے میں بڑے محتاط تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۱) حدیث حفظ حدیث میں علامہ ابن سعدان کو ثقہ اورکثیر الحدیث لکھتے ہیں۔ (ابن سعد:۶/۶۹) صحابہ میں انہوں نے حضرت ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،معاذ بن جبلؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،عبداللہ بن مسعودؓ،حذیفہ بن یمانؓ،جناب بن ارتؓ،کعب بن عجرہ،ابو مسعود انصاریؓ،ابو موسیٰؓ اشعری اورابو ہریرہؓ وغیرہ جیسے اکابر حفاظ سے روایتیں کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۴/۳۶۱) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی احادیث خصوصیت کے ساتھ ان کے حافظہ میں زیادہ محفوظ تھیں،کوفہ میں ان کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی حافظ نہ تھا۔ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص۲۴۷) تلامذہ بڑے بڑے تابعی ان کے خرمنِ کمال کے خوشہ چین تھے،اکابر تابعین میں شعبی عاصم اور اعمش اورعام محدثین میں منصور،زبید الیمامی ،جیب بن ابی ثابت،عاصم بن بھدلہ، عبدہ بن ابن لبابہ اور عمرو بن مرہ وغیرہ نے ان سے فیض پایا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۴/۳۶۲) علماء میں ابو وائل کا درجہ اس عہد کے اکابران کو خیار تابعین میں شمار کرتے ہیں،اعمش کا بیان ہے کہ ابراہیم نے مجھ سے ہدایت کی تھی کہ تم شقیق سے استفادہ کیا کرو،عبداللہ بن مسعودؓ کے اصحاب اس زمانہ میں جب کہ ان کی بڑی تعداد موجود تھی سب کے سب انہیں اپنی جماعت کے خیار میں شمار کرتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۶۷) خشیت الہی ان کے دل پر خشیتِ الہیٰ کا اس قدر غلبہ تھا کہ جب اُن کے سامنے تذکیر وتخویف ہوتی تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ (ایضاً:۶۸) زہد وعبادت بصرہ کے عابد تابعین میں شمار تھا،عبادت ان کا خاص مشغلہ تھا،ابن جان کابیان ہے کہ وہ ثقات میں تھے،کوفہ میں بود وباش اختیار کرلی تھی اوریہاں کے عابد وزاہد لوگوں میں تھے (تہذیب التہذیب:۴/۳۶۳)آپ کی عبادت کا خاص وقت تاریکی شب تھا، سجدہ میں نہایت الحاح وزاری کے ساتھ دعا کرتے تھے،خدایا مجھے معاف کراورمیری مغفرت فرما،اگر تو مجھے معاف کردے گا تو مسلسل گناہوں کو معاف کردے گا اوراگر عذاب دے گا تو عذاب دینے میں تو ظالم نہ ہوگا۔ (ابن سعد:۶/۶۷) جہاد فی سبیل اللہ اوردنیا سے بے تعلقی دنیا سے محض برائے نام تعلق تھا، رہنے کے لیے ایک معمولی سا چھپر کا جھونپڑا تھا،جس میں وہ اوران کا رفیق جہاد گھوڑا رہتا تھا جب جہاد کے لیے جانے لگتے تو چھپرا کھاڑدیتے،جب واپس آتے تو پھر بنالیتے۔ (ایضاً:۶۸) کسب حلال کسبِ حلال کا بڑا خیال تھا،مفت کی دولت کے انبار کے مقابلہ میں حلال کے ایک درہم کو زیادہ پسند کرتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ تجارت کا ایک درہم مجھے اپنے وظیفہ کے دس درہم سے زیادہ پسند ہے۔ (ایضاً:۶۸) ان کی ذات باعثِ برکت تھی ان کے ان اخلاقی اورروحانی کمالات کی وجہ لوگ ان کو اپنے لیے باعثِ رحمت وبرکت سمجھتے تھے، ابراہیم کہتے تھے کہ ہر مقام میں ایک ایسی ہستی ضرور ہوتی ہے،جس کے طفیل میں وہ آبادی بلاؤں سے محفوظ رہتی ہے مجھ کوامید ہے کہ شقیق بھی ایسے ہی لوگوں میں ہیں (تہذیب التہذیب،جلد اول،ق اول،ص۲۴۷) صحابہ تک ان کے کمالاتِ اخلاقی کے معترف تھے،عبداللہ بن مسورؓ پر ان کا اتنا اثر تھا کہ جب انہیں دیکھتے تو فرماتے کہ یہ تائب ہیں۔ (ابن سعد،جلد۶،ص۶۷) وفات ۸۲ھ میں وفات پائی واقدی کے بیان کے مطابق عمربن عبدالعزیز کے زمانے میں انتقال ہوا،لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اس اعتبار سے ان کی عمر بہت بڑھ جاتی ہے۔