انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قوت ایمان طمع وترغیب سے برگشتہ ازاسلام نہ ہونا ابتدائے اسلام میں صحابہ کرامؓ اس قدر مفلوک الحال تھے کہ افلاس کی وجہ سے بعض مسلمان خاندانوں کے مرتد ہوجانے کا خطرہ تھا۔ ( ابن ماجہ، کتاب البیوع ،باب السلف فی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم،حدیث نمبر:۲۲۷۲) لیکن مخالفین اسلام یعنی یہودوکفار دولت وثروت سے مالا مال تھے، بالخصوص یہود کے پاس یہ ایک ایسا زریں آلہ تھا کہ جس کے ذریعہ سے وہ صحابہ کی روحانی طاقت پر زولگا سکتے تھے، اس افلاس پر صحابہ کرام کو صدقہ وزکوٰۃ بھی ادا کرنا پڑتا تھا اوربظاہر یہ ایک ایسا بار تھا جس کے سبکدوش ہونے کے لیے نہایت آسانی کے ساتھ اسلام سے برگشتہ ہونے کی ترغیب دی جاسکتی تھی، چنانچہ جب محمد بن مسلمہ ؓ نے کعب بن اشرف سے حیلۃً گرانباری صدقہ کی شکایت کی اوراس غرض کے لیے اس سے قرض لینا چاہا تو اس موقع سے فائدہ اٹھاکر اس نے کہا، تم محمد سے گھبرااٹھوگے۔ ( بخاری ،کتاب المغازی ،باب قتل کعب بن اشرف،حدیث نمبر:۳۷۳۱) اس کے ساتھ صحابہ کو اورطرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہونا پڑتا تھا اوراس حالت میں ان سے نجات دلانے کا وعدہ ایک ضعیف الایمان دل کو ڈانواں ڈول کرسکتا تھا، لیکن صحابہ کرام نے ان میں سے کسی چیز کے اثر کو قبول نہیں کیا؛بلکہ ان کی قوت ایمانی نے یہودیوں کی مالی تر غیبات کو بے اثر کردیا۔ مصیبتوں سے نجات دلانے کی توقعات کو صحابہ کرام نے اس بے پروائی کے ساتھ ٹھکرادیا کہ جب غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ حضرت کعب بن مالک ؓ سے ناراض ہوگئے اورآپ کے حکم سے تمام صحابہ ؓ نے ان سے معاشرتی تعلقات منقطع کرلیے توشاہِ غسان نے ان کو لکھا کہ"مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے آقانے تم پر ظلم کیا ہے؛لیکن خدا تم کو ذلت اورکس مپرسی کی زمین میں نہ رہنے دے گا، آو اور ہم سے مل جاؤ، ہم اپنے مال کے ذریعہ تمہاری غمخواری کریں گے؛ لیکن انہوں نے اس خط کو خود تنور میں ڈال دیا اورحسرت سے کہا :اِنَّا لِلّٰہ اب کفار مجھ کو حریصا نہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ (بخاری ،حدیث کعب بن مالک،حدیث نمبر:۴۰۶۶) انسان دوسروں کے مال و دولت سے بے نیاز ہوسکتا ہے؛ لیکن خود اپنے ذاتی مال وجائداد کو نہیں چھوڑ سکتا؛ لیکن صحابہ کرام نے اپنے مال وجائداد کو بھی اسلام پر قربان کردیا، اوران میں کسی چیز کی محبت ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کرسکی ،عاص بن وائل پر حضرت خبابؓ کی اجرت باقی تھی لیکن جب انہوں نے اس کا تقاضا کیا تو ملعون نے کہا کہ جب تک محمد ﷺ کی نبوت سے انکار نہ کرو گے نہ دوں گا؛لیکن انہوں نے کہا کہ یہ تو قیامت تک بھی نہ ہوگا۔ (بخاری ،بَاب ذِكْرِ الْقَيْنِ وَالْحَدَّادِ ،حدیث نمبر:۱۹۴۹) صحابہ کرامؓ نے ہجرت کی تو اپنے تمام مال و متاع کو خیرباد کہااوروراثت سے جو مال ملتا اس سے اس لیے محروم ہوگئے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا، لیکن ان چیزوں میں ایک چیز بھی ان کے رشتہ ایمان کو ڈھیلا نہ کرسکی، ہجرت کرنے کے بعد بھی ابتلاوامتحان کے مختلف مواقع پیش آئے، لیکن صحابہ کرام نے عارضی فوائد کے لیے اپنے عقائد کے اظہار میں کسی قسم کی مداہنت نہیں کی؛چنانچہ جب صحابہ کرام ہجرت کرکے حبش کو گئے تو نجاشی کے ظل عاطفت میں نہایت امن وسکون کی زندگی بسر کرنے لگے؛ لیکن قریش کو یہ گوارا نہ ہوا اورانہوں نے دوممتاز آدمیوں کو مکہ کے بہترین تحائف وہدایا کے ساتھ روانہ کیا، کہ وہ نجاشی کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ صحابہ کو مکہ میں واپس بھیج دے ،قریش کی بڑی خواہش یہ تھی کہ نجاشی اورصحابہ کے درمیان کسی قسم کی گفتگونہ ہونے پائے؛ لیکن نجاشی نے اس کو منظور نہیں کیا اورکہا کہ جب تک میں اس معاملہ کے متعلق ان سے گفتگو نہ کرلوں گاان کو واپس نہیں کرسکتا، اس غرض سے اس نے صحابہؓ کو طلب کیا اورصحابہؓ نے باہمی مشورہ سےا یک زبان ہوکر کہا کہ نتیجہ جو کچھ بھی ہو؛ لیکن ہم وہی بات کہیں گے جس کا ہم کو یقین ہے اورجس کا ہم کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے؛ چنانچہ اس قرارداد کے بموجب حضرت جعفر بن ابی طالب نے اسلام کی پاک تعلیمات کو نجاشی کے سامنے بیان کیا تو اس پر نہایت عمدہ اثر پڑا اورکفار کی تمام کوششیں ناکام رہیں ،اب انہوں نے نجاشی کو اشتعال دلانے کے لیے دوسری تدبیر اختیار کی اور کہا کہ اے بادشاہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں، یعنی ان کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں خود ان کو بلا کر پوچھ لے، صحابہ ؓ نے مشورہ کیا کہ اس سوال کا کیا جواب دیا جائے گا؟سب نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو ہم حضرت عیسیٰ کے بارہ میں وہی کہیں گے جو خدا نے کہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم دی ہے، نجاشی ایک عیسائی بادشاہ تھا اور اسی وجہ سے ان دونوں آدمیوں نے اس سوال پر اس کو آمادہ کیا تھا؛ لیکن جب اس نے سوال کیا تو صحابہ نے صاف صاف کہا کہ وہ خدا کے بندے ہیں اس کے رسول ہیں اس کی روح ہیں اوراس کا کلمہ ہیں ،اب نجاشی نے زمین پر ہاتھ مار کر ایک تنکا اٹھایا، اورکہا کہ اس کے سوا عیسیٰ بن مریم اس تنکے سے بھی زیادہ نہیں۔ ( مسند احمد،حدیث جعفربن ابی طالب،حدیث نمبر:۱۶۴۹شاملہ) شدید تکلیفوں پر صحابہ کا صبر ضعیف القلب انسان مصائب کے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہے؛ لیکن صحابہ کرام نے اسلام کے لیے ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کیں اوران کے ایمان میں ذرہ برابر تزلزل واقع نہیں ہوا، حضرت بلالؓ کو کفارنے لوہے کی زرہ پہناکر دھوپ میں ڈالدیا، لڑکے ان کو مکہ کی پہاڑیوں میں گھسیٹتے پھرتے ؛لیکن ان کی قوتِ ایمان میں کسی قسم کا ضعف نہیں پایا۔ (سنن ابن ماجہ ، فضل سلمان وابی ذروالمقداد،حدیث نمبر:۱۴۷) حضرت خبابؓ ام انمار کے غلام تھے وہ اسلام لائے تو ام انمار نے لوہا گرم کرکے ان کے سرپر رکھا، ایک دن حضرت عمرؓ نے ان کی پیٹھ دیکھی، تو کہا کہ آج تک ایسی پیٹھ میری نظر سے نہیں گزری، حضرت خباب ؓ نے جواب دیا کہ کفارنے انگاروں پر لٹاکر مجھ کو گھسیٹا تھا، (اسدالغابہ ،تذکرہ خباب بن ارتؓ) حضرت صہیبؓ اورحضرت عمارؓ کو کفار لوہے کی زر ہیں پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیتے تھے؛لیکن دھوپ کی شدت سے ان کی حرارت اسلام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔ (اسد الغابہ، تذکرہ صہیبؓ) کفار حضرت ابوفکیہؓ کے پاؤں میں بیڑی ڈال کر دھوپ میں لٹادیتے پھر پشت پر پتھر کی چٹان رکھ دیتے،یہاں تک کہ وہ مختل الحواس ہوجاتے ایک دن امیہ نے ان کے پاؤں میں رسی باندھی اورآدمیوں کو ان کے گھسیٹنے کا حکم دیا، اس کے بعد ان کو تپتی ہوئی زمین پرلٹادیا،اتفاق سے راہ میں ایک گبریلا جارہا تھا امیہ نے استہزاءً کہا تیرا پروردگار یہی تو نہیں؟ بولے میرا اورتیرا پروردگار اللہ تعالی ہے،اس پر اس نے زور سے ان کا گلا گھونٹا؛ لیکن اس کے بے درد بھائی کو جو اس وقت اس کے ساتھ تھا اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی اور اس نے کہا کہ اس کو اوراذیت دو۔ (اسد الغابہ تذکرہ ابو فکیہؓ) حضرت سمیہ ؓ حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں، ایک دن کفار نے ان کو دھوپ میں لٹادیا تھا، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا تو فرمایا، صبرکرو صبر ،تمہار ٹھکانا جنت میں ہے؛ لیکن ابو جہل کو اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی اوراس نے برچھی مارکر ان کو شہید کردیا، چنانچہ اسلام میں سب سے پہلے شرف شہادت ان ہی کو نصیب ہوا۔ (اسدالغابہ، تذکرہ سمیہؓ۳/۳۶۹شاملہ) حضرت عمرؓ کی بہن جب اسلام لائیں اور حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو اس قدر مارا کہ تمام بدن لہو لہان ہوگیا، لیکن انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جو کچھ کرنا ہو کرو میں تو اسلام لاچکی ۔ (اسدالغابہ، تذکرہ عمرؓ) حضرت ابوذر غفاریؓ نے جب خانہ کعبہ میں اپنے اسلام کا اعلان کیا تو ان پر کفار ٹوٹ پڑے اورمارتے مارتے زمین پر لٹادیا۔ (مسلم ،کتاب مناقب فضائل حضرت ابوذر غفاریؓ،حدیث نمبر:۴۵۲۱شاملہ ) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جب اول اول خانہ کعبہ میں قرآن مجید کی چند آیتیں بآواز بلند پڑھیں تو کفار نے ان کو اس قدر مارا کہ چہرے پر نشان پڑگئے، لیکن انہوں نے صحابہؓ سے کہا کہ اگر کہو تو کل پھر اسی طرح بآواز بلند قرآن کی تلاوت کرآؤں۔ (اسد الغابہ تذکرہ عبداللہ بن مسعودؓ ) ان اذیتوں کے علاوہ کفار ان غریبوں کو اوربھی مختلف طریقوں سے ستاتے تھے، پانی میں غوطے دیتے تھے، مارتے تھے ،بھوکا پیاسا رکھتے تھے،یہاں تک کہ ضعف سے بیچارے بیٹھ نہیں سکتے تھے ۔ (اسدالغابہ، تذکرہ عمار) یہ وہ لوگ تھے جن میں اکثر یا تو لونڈی غلام تھے، یا غریب الوطن لیکن ان کے علاوہ بہت سے دولت مند اورمعزز لوگ بھی کفار کے دستِ تطاول سے محفوظ نہ رہ سکے۔ حضرت عثمان ؓ نہایت معزز شخص تھے، لیکن جب اسلام لائے تو خود ان کے چچا نے ان کو رسی میں باندھ دیا۔ (طبقات ابن سعد،ذكر إسلام عثمان بن عفانؓ،۳/۵۵ شاملہ) حضرت زبیر بن عوامؓ جب اسلام لائے تو ان کا چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر لٹکادیتا تھا،پھر نیچے سے ان کی ناک میں دھواں دیتا تھا۔ (الریاض النضرہ فی مناقب العشرۃ،مناقب زبیر بن عوام،۱/۳۰۵شاملہ)۔ حضرت عمرؓ کے چچازاد بھائی سعید بن زیدؓ اسلام لائے تو حضرت عمر نے ان کو رسیوں میں باندھ دیا۔ (بخاری ،کتاب الاکراہ، بَاب مَنْ اخْتَارَ الضَّرْبَ وَالْقَتْلَ وَالْهَوَانَ عَلَى الْكُفْرِ،حدیث نمبر:۶۴۲۹اشاملہ) حضرت عیاش بن ابیؓ ربیعہ اور حضرت سلمہ بن ہشام ؓ اسلام لائے تو کفارنے دونوں کے پاؤں کو ایک ساتھ باندھ دیا۔ (طبقات ابن سعدتذکرہ ولید بن ولید) حضرت ابوبکرؓ اسلام لائے تو ایک تقریر کے ذریعہ سے دعوت اسلام دی کفارنے یہ نامانوس آواز سنی تو ان پر دفعۃً ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ حضرت ابوبکرؓ کے قبیلہ بنو تیم کو ان کی موت کا یقین آگیا اوروہ ان کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے، شام کے وقت ان کی زبان کھلی تو بجائے اس کے کہ اپنی تکلیف بیان کرتے رسول اللہ ﷺ کا حال پوچھا، اب خاندان کے لوگ بھی ان سے الگ ہوگئے؛ لیکن ان کو اسی محبوب کے نام کی رٹ لگی رہی، بالآخر لوگوں نے ان کو آپ تک پہنچادیا، آپ نے یہ حالت دیکھی تو ان کے اوپر گرپڑے ان کا بوسہ لیا اورسخت رقتِ طبع کا اظہار فرمایا۔ (اسد الغابہ ،تذکرہ ام الخیربنت صغر۳/۴۳۶شاملہ)۔ صبر واستقامت کی یہ بہترین مثالیں تھیں اورصحابہ کرام کے زمانہ میں خود اہل کتاب تک ان کے معترف تھے؛ چنانچہ استیعاب میں ہے کہ جب صحابہ کرام شام میں گئے تو ایک اہل کتاب نے ان کو دیکھ کر کہا کہ عیسیٰ ابن مریم کے وہ اصحاب جو آروں سے چیرے اور سولی پر لٹکائے گئے ان سے زیادہ تکلیف برداشت کرنے والے نہ تھے۔ (استیعاب،مقدمہ،۱/۴شاملہ) قطع علائق انسان مال ودولت سے بے نیاز ہوسکتا ہے اگر عزم واستقلال سے کام لے تو ابتلاء و امتحان پر بھی صبر کرسکتا ہے، لیکن ماں باپ ،بھائی، بہن ، اعزہ وقارب، اور اہل وعیال کے تعلقات کو منقطع نہیں کرسکتا، یہی لوگ غربت وافلاس کی حالت میں اس کی دستگیری کرتے ہیں، تکلیف ومصیبت میں تسکین دیتے ہیں، عیش وعشرت میں لطفِ زندگی بڑھاتے ہیں،غرض کسی حالت میں ان کے تعلقات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، لیکن جو لوگ اپنا رشتہ صرف خدا سے جوڑتے ہیں ان کو کبھی کبھی یہ رشتہ بھی توڑ نا پڑتا ہے۔ صحابہ کرامؓ اسلام لائے تو حالات نے ان کو اس رشتے کے توڑنے پر مجبور کیا اورایمان واسلام کے لیے انہوں نے آسانی کے ساتھ اس کو گوارا کرلیا، حضرت سعد بن ابی وقاص اسلام لائے تو ان کی ماں نے قسم کھالی کہ جب تک وہ اسلام کو نہ چھوڑیں گے وہ ان سے نہ بات چیت کریں گی نہ کھانا کھائیں گی، نہ پانی پئیں گی؛ چنانچہ انہوں نے یہ قسم پوری کی یہاں تک کہ تیسرے دن کے فاقہ میں بیہوش ہوگئیں۔ (مسلم، کتاب المناقب ،بَاب فِي فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ،حدیث نمبر:۴۴۳۲شاملہ) لیکن حضرت سعد بن ابی وقاص پر اس کا کچھ اثر نہ پڑا، اورانہوں نے اپنی ماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تمہارے قالب میں ہزارجانیں بھی ہوں اورایک ایک کرکے ہر جان نکل جائے تب بھی میں اپنے اس دین کو نہ چھوڑوں گا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ) حضرت خالد بن سعید اسلام لائے تو ان کے باپ نے ان کو سخت سرزنش کی ،کوڑے مارے قید کیا، کھانا پینا بند کردیا اور اپنے دوسرے لڑکوں کو ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی؛ لیکن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت نہ چھوڑی اورآخر کار حبش کی طرف ہجرت کر گئے اب ان کے باپ کو اور بھی رنج ہوا اورکہا کہ مجھے ان صابیوں سے الگ ہوجانا پسند ہے ؛لیکن یہ گوارا نہیں کہ اپنے باپ دادا اورمعبودوں کےعیبوں کو سنوں ،چنانچہ وہ طائف کے ایک مقام میں جہاں ان کی کچھ جائداد تھی چلے گئے۔ (طبقات ابن سعد ،تذکرہ عمر بن سعید وخالد بن سعید ؓ) دین وایمان کے معاملہ میں صحابہ کرام نے صرف معاشرتی بے تعلقی کو گوارا نہیں کیا؛ بلکہ ان کو اعزہ واقارب کے رشتہ ٔحیات کے منقطع کردینے میں بھی تامل نہ ہوا، ایک غزوہ میں عبداللہ بن سلول نے انصار کو مہاجرین کے خلاف اشتعال دلایا، تو اس کے بیٹے عبداللہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کو قتل کرڈالوں۔ (استیعاب ،تذکرہ عبداللہ بن ابی سلول) عتبہ غزوۂ بدر میں شمشیر بکف میدان میں آیا تو مقابلے کے لیے اس کے لخت جگر حضرت ابو حذیفہ ؓ نکلے ؛چنانچہ عتبہ کی بیٹی ہند نے اس پر ان کی ہجو میں یہ اشعارلکھے۔ فما شکرت ابارباک من صغر حتی شببت شبابا غیر محجون تونے اس باپ کا شکر ادا نہیں کیا جس نے تجھے لڑکپن میں پالا یہاں تک کہ تو جوان ہوا۔ الا حول الاثعل المشئوم طائرہ ابوحذیفۃ شرالناس فی الدین او!اھوال،کج دندان، بدبخت ابوحذیفہؓ جو مذہبی حیثیت سے بدترین شخص ہے۔ (استیعاب ،تذکرہ ابوحذیفہؓ) اسی غزوہ میں حضرت عبدالرحمنؓ ( اس وقت وہ کافر تھے) صفِ جنگ سے نکلے تو ان کے والدِ بزرگوار حضرت ابوبکرؓ نے ان کا مقابلہ کیا۔ (استیعاب،تذکرہ عبدالرحمن) اسیرانِ بدرگرفتارہوکر آئے اوررسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ سے ان کے متعلق مشورہ کیا تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ علی کو ان کے بھائی عقیل کی گردن مارنے کا حکم دیجئے اور مجھ کو میرے ایک عزیز کو حوالہ کیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں۔ (مسلم ،کتاب الجہاد، بَاب الْإِمْدَادِ بِالْمَلَائِكَةِ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ،حدیث نمبر:۳۳۰۹) یہود وبنو قریظہ قبیلہ اوس کے حلیف تھے(اسد الغابہ، تذکرہ سعدبن معاذوطبقات ابن سعد، ذکر غزوہ بنو قریظہ) اورعرب میں حلیفوں میں بالکل برادرانہ تعلقات پیدا ہوجاتے تھے؛ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے ان کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ ؓ پر رکھ دیا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے تو انہوں نے اس تعلق کی کچھ پرواہ نہ کی اور بے لاگ فیصلہ کردیا کہ لڑنے والے قتل کردیئے جائیں ،عورتوں اوربچوں کو لونڈی غلام بنالیا جائے، اوران کا مال واسباب مسلمانوں پر تقسیم کردیا جائے۔ (بخاری ،کتاب المغازی ،ذکر غزوہ بنو قریظہ)۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی۔ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِر۔ (ممتحنۃ:۱۰) کافرہ عورتوں کو نکاح میں نہ رکھو۔ اوراس کے ذریعہ سے صحابہ کو حکم دیا گیا کہ مکہ میں ان کی جو کافرہ عورتیں ہیں، ان کو چھوڑدیں(بخاری، کتاب التفسیر، سورہ ممتحنہ،حدیث نمبر:۴۵۱۰) تو حضرت عمرؓ نے اسی وقت اپنی دو کافرہ بیویوں کو طلاق دے دی، بہت سی صحابیات اپنے اپنے شوہروں کو چھوڑ کر ہجرت کرآئیں، اوران میں سے ایک بھی اپنے دین سے برگشتہ نہ ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ما نعلم ان احد امن المھاجرات ارتدت بعدایمانھا (بخاری کتاب الشروط ذکر صلح حدیبیہ) ہم کو کسی ایسی مہاجرہ عورت کا حال معلوم نہیں جو ایمان لاکر پھر مرتد ہوئی ہو۔ اعزہ واقارب کے علاوہ قبائل کی یکجہتی بھی عرب کی سب سے بڑی طاقت تھی؛ لیکن بعض صحابہ نے اسلام کے لیے قبیلہ کے تعلق کو بھی منقطع کردیا، حضرت سعد بن معاذؓ اسلام لائے تو اپنے قبیلہ سے تمام تعلقات منقطع کرلیے اور کہا کہ مجھ پر تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات چیت کرنا حرام ہے (اسد الغابہ، تذکرہ حضرت سعد بن معاذ ؓ) لیکن ان تمام واقعات سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اسلام نے صحابہ کرام میں قساوت اورسنگدلی پیدا کردی تھی اور اسی سنگدلی کی وجہ سے انہوں نے تمام اعزہ واقارب سے تعلقات منقطع کرلیے تھے؛ بلکہ اس کے بر عکس اسلام نے صحابہ کرام کے جذبۂ محبت کو اوربھی زیادہ مشتعل کردیا تھا، اس لیے جب وہ اپنے اعزہ واقارب بالخصوص اپنی اولاد اوراپنی شریک زندگی بی بی کو دیکھتے تھے کہ وہ کفر کی بدولت جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں تو فطری محبت کی بنا پر ان کا دل جلتا تھا اور وہ سخت اضطراب کی حالت میں خدا سے دعا کرتے تھے کہ: رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ (فرقان:۷۴) اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اورہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عنایت فرما اورہم کو پرہیز گاروں کا پیشوابنا۔ یعنی ہماری ہی طرح ہماری بیویوں اوربچوں کو بھی ایمان و اسلام کی دولت عطاکر اوروہ اس معاملہ میں ہماری پیروی کریں تاکہ ان کو دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم پرہیز گاروں کے پیشوابن سکیں۔ (تفسیر ابن کثیر ،۶: ۱۳۰) ہجرت صحابہ کرامؓ نے اسلام کے لیے جو مصائب برداشت کیے ان میں ہجرت کی داستان نہایت درد انگیز ہے خود حدیث شریف میں آیا ہے۔ إِنَّ الْهِجْرَةَ شَأْنُهَا شَدِيدٌ (بخاری ،باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی المدنیۃ،حدیث نمبر:۲۴۳۹) ہجرت کا معاملہ نہایت سخت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ہمیشہ مصائب برداشت کرنے کے خوگر تھے وہ بھی اس مصیبت کو برداشت نہ کرسکے، چنانچہ ایک بدو مدینہ میں ہجرت کرکے آیا اور رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی سو اتفاق سے اسلام لانے کے بعد اس کو بخار آگیا اس لیے اس نے اصرار کے ساتھ بیعت فسخ کرالی ، اس موقع پر آپ نے فرمایا: إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا۔ (بخاری، بَاب مَنْ بَايَعَ ثُمَّ اسْتَقَالَ الْبَيْعَةَ،حدیث نمبر:۶۶۷۱) مدینہ سنار کی بھٹی کے مثل ہے جو میل کچیل کو باہر پھینک دیتی ہے اورخالص سونے کو الگ کردیتی ہے۔ یہ زرخالص صحابہ کرام ہی تھے جو مدتوں مدینہ میں رہے؛لیکن اسلام کے لیے ان تمام سختیوں کو گوارا کرلیا؛ چنانچہ صحابہ کرام ہجرت کرکے آئے تو مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور متعدد بزرگ بخار میں مبتلا ہوگئے، اس حالت میں حضرت ابوبکرؓ یہ شعر پڑھتے تھے۔ كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ حضرت بلالؓ مکہ کی وادیوں ،چشموں اورپہاڑیوں کو یاد کرکے چیخ اٹھتے تھے اوراپنے رنج وغم کا اظہار ان حسرت ناک اشعار میں کرتے تھے۔ أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ کاش میں ایک رات اس میدان میں بسر کرتا جس میں میرے گرداذخرو جلیل ہوتے (مکہ کی دو قسم کی گھاسوں کا نام ہے) وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ کیا میں پھر کسی دن کوہ مجنہ کے چشموں سے سیراب ہونگا کیا میرے سامنے پھر شامہ وطفیل(دوپہاڑیاں) ہونگی (بخاری، کتاب الحج ، بَاب مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ،حدیث نمبر:۳۶۳۳) ایک صحابی ہجرت کرکے آئے تو بیمار ہوگئے، حالتِ مرض میں رسول اللہ ﷺ نے حال پوچھا بولے بیمار ہوں اگر بطحان کا پانی پی لیتا تو اچھا ہوجاتا ،فرمایا تو کون روکتا ہے؟ بولے ہجرت، ارشاد ہوا جاؤ، تم ہر جگہ مہاجر ہی رہو گے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ سدادبن اسیدؓ) سخت سے سخت رکاوٹیں بھی صحابہ کرام کو ہجرت سے باز نہیں رکھ سکتی تھیں، کفار نے حضرت ابو جندلؓ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں لیکن حدیبیہ کا معاہدۂ صلح ہورہا تھا کہ وہ بیڑیاں پہنے ہوئے پہنچے اوراپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا، اگرچہ معاہدہ میں یہ شرط تھی کہ جو مسلمان مدینہ جائے گا وہ واپس کردیا جائے گا، تاہم چونکہ معاہدہ اب تک مکمل نہیں ہوا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کو بھی ان کی حالت پر رحم آیا، اورفرمایا کہ اب تک ہم نے مصالحت نہیں کی ہے، لیکن سہیل نے کہا کہ سب سے پہلے ان ہی کو واپس کرنا ہوگا، مصلحۃً آپ نے ان کو واپس کرنا چاہا تو انہوں نے کہا مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف پھر واپس کردیا جاؤں گا؟ حالانکہ مسلمان ہوکر آیا ہوں، کیا تم میری مصیبتوں کو نہیں دیکھتے ، اس وقت اگرچہ وہ واپس کردیے گئے تاہم دوبارہ بھاگ کر آئے، اورحضرت ابو بصیرؓ نے سمندر کے ساحل پر اس قسم کے مہاجرین کی جو جماعت قائم کرلی تھی اس میں شامل ہوگئے۔ (بخاری ، بَاب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ ،حدیث نمبر:۲۵۲۹) حضرت صہیبؓ نے ہجرت کرنا چاہی تو کفار نے سخت مزاحمت کی اورکہا کہ تم مکہ میں محتاج آئے تھے، لیکن یہاں رہ کر دولتمند ہوگئے، اب یہ مال لے کر کہاں جاتے ہو؟ انہوں نے کہا اگر میں سب مال تم کو دے دوں تو مجھے جانے دوگےا؟ کفار راضی ہوگئے اورانہوں نے تمام مال ان کو دے دیا۔ (طبقات ابن سعد ،تذکرہ حضرت صہیب ؓ) ان تمام تکلیفوں اورمزاحمتوں میں صحابہؓ کے لیے صرف یہ خیال مسرت خیز تھا کہ انہوں نے کفر کے گہوارہ سے باہر قدم نکالا اوراسلام کے دائرہ میں آگئے،حضرت ابوہریرہؓ نے ہجرت کی تو گوطول سفر سے اُکتا گئے تاہم یہ شعرزبان پر تھا۔ یا لیلۃ من طولھا وعنانھا علی انھا من دارۃ الکفر نجت (بخاری ،کتاب العتق، بَاب إِذَا قَالَ رَجُلٌ لِعَبْدِهِ هُوَ لِلَّهِ وَنَوَى الْعِتْقَ،حدیث نمبر:۲۳۴۵) کتنی لمبی اورتکلیف دہ یہ رات ہے، تاہم یہ بات تسکین بخش ہے کہ اس نے دارالکفر سے نجات دلائی۔ فتح مکہ کے بعد اگرچہ تمام عرب میں امن وامان قائم ہوگیا تھا اورہر شخص آزادی سے فرائض اسلام بجالاسکتا تھا ؛تاہم بعض مسلمانوں کے دلوں میں اب بھی ہجرت کا شوق باقی تھا، چنانچہ چند لوگ یمن سے ہجرت کرکے مدینہ کو چلے جوفہ تک پہنچے تو راستہ میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوچکا ۔ (بخاری ، بَاب بَعْثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ ،حدیث نمبر:۴۱۱۰) لوگ سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام نے صرف جان ومال کی حفاظت کے لیے ہجرت کی تھی، لیکن درحقیقت یہ خیال صحیح نہیں؛ بلکہ ہجرت کا اصلی مقصد یہ تھا کہ دین کی حفاظت ہو اورہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خدا کی عبادت کرسکے؛ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہر مسلمان اپنے دین کو لے کر خدا اورخدا کے رسولﷺ کی طرف بھاگ آتا تھا ؛تاکہ دینی فتنہ میں نہ مبتلا ہو۔ (بخاری باب ہجرۃ النبی ﷺ واصحابہ الی المدینۃ،حدیث نمبر:۳۶۱۱) لیکن یہ ذوق اس قدر ترقی کرگیا کہ جس سرزمین میں برائی نظر آتی تھی صحابہ کرام اس کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے دامن میں پناہ لیتے تھے؛ تاکہ ان کے گناہوں کا کفارہ ہو؛ چنانچہ ایک بار حضرت لبابہ بن المنذرؓ سے ایک گناہ سرزد ہوگیا، اوران پر اس قدر اثر پڑا کہ جب ان کی توبہ مقبول ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ جس سرزمین میں میں نے گناہ کیا ہے چھوڑدوں، اورآپ کے پاس آرہوں اوراپنا کل مال اللہ ورسول ﷺ کو صدقہ میں دے دوں ۔ ( موطا امام مالک، کتاب الایمان والنذور ،باب جامع الایمان،حدیث نمبر:۹۱۰ ) ایک بار غزوہ ٔروم میں حضرت عبادہ بن صامت انصاریؓ نے دیکھا کہ لوگ سونے کے ٹکڑے اشرفیوں سے اورچاندی کے ٹکڑے درہموں سے بیچ رہے ہیں، فرمایا: لوگو تم سود کھارہے ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سونے کوسونے کے برابر خریدو اس میں نہ زیادتی ہے نہ ادھار، اس پر حضرت معاویہ ؓ نے کہا میرے نزدیک صرف ادھار کی صورت میں سود ہے، بولے میں حدیث بیان کرتا ہوں اورتم اپنی رائے ظاہر کرتے ہو؛ اگر خدانے توفیق دی تو جس سرزمین میں مجھ پر تمہاری حکومت ہے اس میں قیام نہ کروں گا؛ چنانچہ پلٹے تو سیدھے مدینہ چلے آئے (سنن ابن ماجہ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والتغلیظ علی من عارضہ،حدیث نمبر:۱۸) ثواب آخرت کی تمنا نے دارالہجرت یعنی مدینہ کو صحابہ کرام کی نگاہوں میں اس قدر محبوب بنادیا تھا کہ حضرت عثمان ؓ محصور ہوئے تو بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ شام کو نکل چلیں وہاں امیر معاویہؓ کی حمایت حاصل ہوگی، بولے، میں دارالہجرت اورمجاورتِ رسول کا فراق ہرگز گوارہ نہ کروں گا۔ (مسنداحمد،مسند عثمان ابن عفانؓ،حدیث نمبر:۴۵۱) جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ مکہ میں سخت بیمار ہوکر اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تو ان کو صرف یہ افسوس ہوا کہ وہ دارالہجرت سے دور ایسی سرزمین میں مررہے ہیں جس سے انہوں نے ہجرت کرلی ہے ۔ (مسلم ’کتاب الوصایا، باب الوصیۃ بالثلث ،حدیث نمبر:۳۰۷۹) حضرت عبداللہ بن عمرؓ یہ دعا کرتے تھے کہ خداوندا !مکہ میں مجھے موت نہ آئے ، مکہ میں ان کا انتقال ہونے لگا تو اپنے بیٹے سالم کو وصیت کی کہ مرنے کے بعد میری لاش حدود حرم سے باہر دفن کی جائے؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں کہ وہیں سے ہجرت کی اوروہیں دفن ہوں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ مکہ میں آتے تھے تو اپنے زمانہ جاہلیت کے قدیم مکان میں جس سے وہ ہجرت کرچکے تھے اترنا نہیں پسند کرتے تھے۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ)