انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** روایت بالمعنی کی حقیقت اور اس کا پسِ منظر مستشرقین، ملحدین اور خود مسلمانوں میں سے جدید تہذیب سے متاثر معدودے چند حضرات حدیثِ نبوی کویہ کہہ کر بھی شک کے دائرہ میں لانے کی کوشش کی ہے کہ راویانِ حدیث نے احادیثِ نبویہ کواپنے الفاظ میں بیان کیا؛ پھربعد والوں نے اسی طرح اپنے الفاظ میں اس طرح نقل درنقل ہوتے ہوئے الفاظِ نبوی بالکل قائم نہ رہ سکے، الفاظِ نبوی اور موجودہ ذخیرہ حدیث میں تفاوت عظیم ہوتا گیا جس کی وجہ سے اس موجودہ ذخیرہ حدیث پراعتماد واعتبار نہیں کیا جاسکتا، اس طرح کے ملحد ذہنوں نے حدیثِ نبوی کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرکے مسلمانوں کوان کی عظیم تاریخ سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے، حدیث کے حوالے سے اس طرح کی بات وہی کہہ سکتا ہے جسے حدیث کی جمع وتدوین اور اس میں حددرجہ احتیاط اور روایت بالمعنی کے شرائط اور ان کے جواز کے دلائل سے لاعلمی ہو۔ کیا احادیث کوباللفظ روایت کرنا ضروری ہے؟ حدیث کوقرآن کی طرح الفاظ کے اہتمام کے ساتھ اس لیے روایت نہیں کیا گیا اور اس کوبالمعنی روایت کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی کہ قرآن کی تلاوت عبادت ہے اور قرآن اپنے نظم وترتیب اور الفاظ کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے اس لیے منجانب اللہ اس کے الفاظ کوقائم رکھنے کا انتظام کیا گیا اور کتابت کے ذریعے اس کے الفاظ ہی محفوظ نہیں کئے گئے؛ بلکہ اس میں کسی بھی طرح کی کمی وبیشی کوگوارہ نہیں کیا گیا؛ کیونکہ اس سے اس کی معجزانہ حیثیت پرفرق آتا اور خود اس کا ایک ایک حرف مقصود تھا کہ اس کی تلاوت بھی عبادت ٹھہرے، حدیث نبوی کونہ لکھنے کا جوحکم تھا وہ بھی وحی الہٰی پرمبنی تھا کہ احادیث میں معنی مقصود تھے نہ کہ الفاظ؛ یہی وجہ تھی کہ حدیث کی تلاوت عبادت شمار نہیں کی گئی اور اس کی معجزانہ حیثیت کوبتلانے اور اس کے نظم وترتیب کی بناء پردوسروں کوچیلنج نہیں کیا گیا اس لیے اس کی روایت بالمعنی جائز ٹھہرا؛ پھریہاں یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ الفاظِ قرآنی کی حفاظت خود شریعتِ اسلامیہ کی حفاظت ہے اور حدیث بالمعنی میں امت کے لیے یسروسہولت ہے، جس سے اس کا دوسروں تک پہونچانا آسان ہوجاتا ہے؛ اگرقرآن کی طرح حدیث نبوی کے لیے بھی یہ لازمی شرط قرار دی جاتی کہ اس کودوسروں تک انہیں الفاظ میں پہونچایا جاسکتا ہے جورسول اللہﷺ سے سنے گئے توامت کومشکلات سے دوچار ہونا پڑتا، اگر قرآن کی حدیثِ نبوی کی طرح روایت بالمعنی جائز ہوتی تونفوسِ انسانی کا شریعت پرسے اعتماد ختم ہوجاتا اور زنا دقہ وملاحدہ یہ بات کہہ سکتے کہ یہ آسمانی کتاب نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ عزوجل نے قرآن کوالفاظ کے ساتھ محفوظ رکھ کراور حدیثِ نبوی کے بالمعنی اجازت کے ذریعہ ایک قدرتی طورپر شریعت کومحفوظ کیا اور امت کے لیے یسروسہولت بھی پیدا کردی۔ روایت بالمعنی کا جواز اور اس کی شرائط یہاں یہ بات پیشِ نظررہے کہ جمہورِ علماء نے روایت بالمعنی کی اجازت دی ہے؛ لیکن اس کے لیے کچھ شرائط کوملحوظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے: (۱)راوی عربی زبان کے اسرار ورموز سے بخوبی واقف ہو۔ (۲)شریعت کے غایات ومقاصدکوجانتا ہو۔ (۳)جس حدیث کی روایت بالمعنی کرنا چاہتا ہے وہ جوامع الکلم کے قبیل سے نہ ہو۔ (۴)وہ حدیث ایسی نہ ہو کہ اس کے الفاظ عبادت شمار ہوتے ہوں جیسے ادعیہ ماثورہ پرمشتمل احادیث۔ (۵)راوی جس حدیث کی روایت بالمعنی کا خواہاں ہے، اس کے الفاظ اسے یاد نہ ہوں۔ اسکے بعد الالماع کی یہ عبارت ملاحظہ ہو: وذهب جمهور العلماء ومنهم الأئمة الأربعة إلى جواز الرواية بالمعنى من مشتغل بالعلم ناقد لوجوه تصرف الألفاظ إذاانضم لاتصافه بذلك أمران: أن لايكون الحديث متعبدا بلفظه، ولايكون من جوامع كلمه۔ (الالماع،باب تحری الروایۃ والمجئی:۱۷۸، دارالتراث، المکتبۃ العتیقۃ، القاھرۃ، الطبعۃ الاولی) جب راوی ان شرائط کا حامل نہ ہو تواس کے لیے روایت بالمعنی جائز نہیں، اس طرح سے روایت بالمعنی سے حدیث کی حیثیت کم نہیں ہوتی؛ چونکہ اس طرح سے راوی حدیث کومعنی روایت کرتا ہے؛ لیکن حدیث کے مدلول ومقصود میں کچھ خلل واقع نہیں ہوتا؛ اگرکوئی شخص اس وضاحت کے بعد بھی حدیثِ نبوی کوقابل اعتماد نہیں مانتا ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اس زعمِ باطل کے ذریعہ نبی کریمﷺ پریہ تہمت لگارہا ہے کہ آپ نے وحی الہٰی کودوسروں تک پہونچانے میں سہل نگاری سے کام لیا، یایہ کہ حدیثِ نبوی دین میں شامل نہیں اور یہ دونوں باتیں کھلی ہوئی ضلالت ہیں۔ ایک قابل لحاظ امر یہاں روایت بالمعنی کے حوالے سے یہ امرقابل لحاظ ہے کہ تدوینِ حدیث کے بعد روایت حدیث کے سلسلہ میں اصل بات یہ ہے کہ جوالفاظ نبی کریمﷺ سے سنے جائیں ان کودوسروں تک پہنچادیا جائے، جب الفاظ یاد نہ ہوں تو سہولت کے طور پرروایت بالمعنی کی اجازت ہے، احادیثِ نبویہ کے کتابوں کی تدوین کے بعد سہولت کی یہ ضرورت باقی نہیں رہی؛ لہٰذا اب احادیث کا اخذ وتحمل اور ن کی نقل وروایت انہی الفاظ میں واجب ٹھہری جوحضوراکرمﷺ سے سنے گئے ہوں۔ تدوین حدیث کا باقاعدہ آغاز پہلی صدی ہجری کے اختتام پرخلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے حکم سے ہوا، مختلف دیار وامصار کے علماء نے اپنے حافظہ کی مدد سے یامحفوظ صحیفوں سے دیکھ کرحدیثیں جمع کرنا شروع کیں، احادیث کی تالیف وتدوین کا کام کسی نہ کسی طرح مختلف ادوار میں کسی نہ کسی طرح جاری رہا؛ حتی کہ تیسری صدی ہجری میں جس کوتدوینِ حدیث کا زرین دور کہا جاتا ہے، حدیث کی پانچ بڑی کتب یعنی بخاری ومسلم ونسائی وابوداؤد وترمذی منصۂ شہود پرآئیں۔ کتب حدیث کی تدوین کے بعد روایت بالمعنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس بات کوامام ابوعمروعثمان بن عبدالرحمن المعروف ابنِ صلاح (۶۴۲ھ) نے اپنے مقدمہ میں روایت بالمعنی کے بارے میں علماء کے اختلاف کوذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: وهذا الخلاف إنَّما يَجْري في غير المُصنَّفات، ولايَجُوز تغيير شيء من مُصنَّف وإبْداله بلفظ آخر وإن كان بمعناه قطعًا، لأنَّ الرِّواية بالمعنى رخَّص فيهامن رخَّص لماكان عليهم في ضبط الألفاظ من الحرج، وذلك غيرموجُود فيمااشْتملت عليه الكُتب، ولأنَّه إن ملكَ تغيير اللَّفظ، فليسَ يملك تغيير تصنيف غيره۔ (تدریب الراوی:۲/۱۰۳، مکتبۃ الریاض الحدیثیۃ ، الریاض) ترجمہ:یہ اختلاف ان احادیث کے بارے میں باقی نہیں جوکتبِ حدیث میں جمع کرلی گئی ہیں، اب کسی شخص کویہ حق نہیں پہونچتا کہ ان کتب میں محفوظ احادیث کے الفاظ کوتبدیل کرکے ان کی جگہ دوسرے اہم الفاظ رکھ دے، جن لوگوں نے روایت بالمعنی کی اجازت دی تھی، جب الفاظ کے ضبط کرنے اور ان پراصرار کرنے میں تکلیف کاسامنا تھا اور کتب حدیث میں جواحادیث موجود ہیں ان کے بارے میں یہ دقت نہیں پائی جاتی؛ اگرکسی کے لفظ کوتبدیل کرنے کی اجازت ہو بھی تودوسرے کی تصنیف میں تصرف کا حق نہ ہوگا۔ اس سے ملاحدہ کی یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ راویانِ حدیث نے تمام عصوروازمنہ میں احادیثِ نبویہ کواپنےحافظہ سے روایت کیا ہے؛بہر حال تدوین حدیث کے بعد اب کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حدیث کے بعدبالمعنی روایت کرے الا یہ کہ وعظ ونصیحت کی مجالس میں حدیث کومعنًا ذکر کررہا ہو؛ اگرحدیث کوکسی کتاب میں بطورِ دلیل پیش کرناہو تواسے باللفظ ہی روایت کیا جائے گا۔ روایت بالمعنی کاجواز... احادیث، اقوال ِ صحابہ وتابعین کی روشنی میں صحابہ وتابعین اس بات کے حریص تھے کہ حدیثِ نبوی کوحضوراکرمﷺ کےبیان فرمودہ الفاظ ہی میں ادا کیا جائے، اس میں شک نہیں کہ روایت بالمعنی کارواج عصرصحابہ وتابعین یعنی پہلی صدی ہجری میں تدوینِ حدیث سے پہلے تھا؛ مزید برآں روایت بالمعنی کے بارے میں سب راویانِ حدیث متفق بھی نہیں تھے؛ چنانچہ بعض راویوں کی حالت یہ تھی کہ جب حدیث کے الفاظ کوبھول جاتے توبنابراحتیاط روایتِ حدیث سے ہچکچاتے تھے کہ مبادا وہ حضورﷺ کا مفہوم ادا نہ کرسکیں، ان کا خیال ہوتا تھا کہ چونکہ ان سے بڑھ کرحافظ وضابط راوی موجود ہیں، اس لیے حدیث کوبیان نہ کرنے کی وجہ سے وہ کتمانِ علم کے مرتکب نہیں ہوں گے اور بعض راویوں کا یہ طرزِ عمل تھا کہ جب حدیث کے الفاظ یاان کا کچھ حصہ بھول جاتے تووہ اس کا معنی ومطلب دوسروں تک پہنچادیتے تاکہ وہ علم کے چھپانے والے نہ قرار پائیں۔ (۱)ایک صحابی سلمان بن اکیمہ اللیثی نے ایک دفعہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ! بسااوقات میں آپ سے ایک حدیث سنتا ہوں اور اسے پوری طرح ادا نہیں کرسکتا، ایک آدھ لفظ کی کمی بیشی ہوجاتی ہے، اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: جب تم کسی حرام چیز کوحلال اور حلال کوحرام قرار دینے والے نہ بنو توروایت بالمعنی میں کوئی مضائقہ نہیں اذالم تحلوا حراماً ولاتحرموا حلالاً فلابأس (کنزالعمال، الاکمال من روایۃ الحدیث:۵/۲۹۲) حسن بصری سے اس روایت کا ذکر کیا گیا توفرمایا: لولاھذاماحدثنا اگریہ حدیث نہ ہوتی توہم حدیث روایت ہی نہ کرتے۔ (۲)عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے یہ سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ ہم سے احادیث بیان کرتے ہیں، ہم اسے آپ سے جس طرح سنتے ہیں اس طرح ادا نہیں کرپاتے توآپﷺ نے فرمایا، تم میں کا کوئی اس کے معنی اور مفہوم کوپالے تواسے بیان کرے إنك لتحدثنا حديثا لانقدر أن نسوقه كمانسمعه، فقال:إذاأصاب أحدكم المعنى فليحدث۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ذکرالحجۃ فی اجازہ روایۃ:۱/۲۰۰، المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ) (۳)اور ایک روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جوشخص ایسی بات بیان کرے جس کومیں نے نہیں کہا تووہ میری آنکھوں کے سامنے جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے؛ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم احادیث کویاد کرتے ہیں جس طرح سے آپ سے سنتے ہیں، کبھی ایک حرف آگے اور کبھی ایک حرف پیچھے کبھی حروف میں کمی زیادتی ہوجاتی ہے، توآپ نے فرمایا: میں نے اس بارے میں نہیں کہا، میرا یہ کہنا اس کے بارے میں ہے جومیرے خلاف کہے، جب تک کہ وہ میرے عیب یااسلام کی برائی وعیب کا ارادہ نہ کرتا ہو (توپھروہ اس وعید میں داخل نہیں) ليس ذلك أردت، إنماقلت: من تقول علي مالم أقل، يريد عيبي وشين الإسلام أوشيني وعيب الإسلام۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ذکرالحجۃ فی اجازہ روایۃ:۱/۲۰۰، المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ) (۴)حضرت عروہ ؓ سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کہا: بیٹے! مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ تم میرے احادیث کولکھتے ہو؛ پھراسے دوبارہ لکھتے ہو، میں نے کہا: میں حدیث کوایک انداز سے سنتا ہوں؛ پھراسے دوبارہ دوسری طرح سے سنتا ہوں توحضرت عائشہ صدیقہؓ نےکہا: کیا تم کومعنی میں اختلاف نظر آتا ہے؟تو میں نے کہا: نہیں! توآپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں: هل تسمع في المعنى خلافا؟ قلت: لا، قالت: لابأس بذلك۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ذکرمن کان یذہب الی اجازۃ:۱/ ۲۰۵، المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ) (۵)محمدبن سیرین سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں حدیث کودس لوگوں سے سنتا، معنی ایک ہوتا، الفاظ مختلف ہوتے: المعنی واحد واللفظ مختلف۔ (مصنف عبدالرزاق، باب الامام راعٍ، حدیث نمبر:۲۰۶۷۲، المکتبۃ الاسلامی، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ) (۶)حسن بصریؒ سے کہا گیا: ابوسعید! آپ آج ہم کوحدیث ایک انداز سے سناتے ہیں اور دوسرے دن دوسرے الفاظ میں توانہوں نے فرمایا: اس طرح حدیث میں کوئی حرج نہیں ہوتا، جب معنی درست ہوں: لابأس بالحدیث اذااصبت المعنی۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ذکرمن کا یذھب الی اجازۃ:۱/ ۲۰۷، المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ) (۷)مکحول ذکر کرتے ہیں کہ میں اور ابوازہر...واثلہ بن اسقع کے یہاں گئے اور عرض کیا کہ ایسی حدیث بیان کیجئے جوآپ نے بذاتِ خود نبی کریمﷺ سے سنی ہو؛ نہ اس میں وہم ہو نہ اضافہ، نہ بھول چوک، واللہ فرمانے لگے: کیا تم میں سے کسی نے قرآن کا کچھ حصہ پڑھا ہے؟ ہم نے عرض کی جی ہاں مگر ہمیں اچھی طرح یاد نہیں؛ بلکہ ہم سے اس میں ایک آدھ لفظ کی کمی بیشی سرزدر ہوجاتی ہے، فرمایا: قرآن تمہارے سامنے لکھا گیا اور تم اسے یاد بھی کرتے ہو اس کے باوجود تمہارا دعویٰ ہے کہ اس میں کمی بیشی ہوجاتی ہے؛ ممکن ہے ہم نے ایک حدیث صرف ایک ہی دفعہ حضور سے سنی ہو؛ اس لیے اگرہم حضور کا مفہوم اپنے الفاظ میں بھی ادا کریں توتمہارے لیے یہی کافی ہےفهذا القرآن مكتوب بين أظهركم لاتألونه حفظا وأنتم تزعمون أنكم تزيدون وتنقصون فكيف بأحاديث سمعناها من رسول اللهﷺ عسى أن لانكون سمعناها منه إلامرة واحدة حسبكم إذاحدثناكم بالحديث على المعنی۔ (تدریب الراوی، صفۃ روایۃ الحدیث:۲/۱۰۰، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ، الریاض) (۸)ابواویس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے زہری سے حدیث کے الفاظ میں تقدیم وتاخیر کے بارے میں دریافت کیا تووہ فرمانے لگے: تقدیم وتاخیر توقرآن کی شرح وتفسیر میں بھی ہوسکتی ہے، حدیث میں کیوں نہیں ہوسکتی؟ جب تم حدیث کا مفہوم بیان کردو اور کسی حلال چیز کی حرمت اور حرام چیز کی حلت کے موجب نہ بنو توکچھ مضائقہ نہیں: إنَّ هذا يَجُوز في القُرآن، فكيف به في الحديث، إذاأصبتَ معنى الحديث فلم تحل به حرامًا، ولم تُحرِّم به حلالاً، فلا بأس۔ (تدریب الراوی، صفۃ روایۃ الحدیث:۲/۱۰۰، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ، الریاض) (۹)وکیع فرمایا کرتے تھے کہ: اگرروایت بالمعنی کی اجازت نہ ہوپھرتولوگ تباہ ہوگئے، ان لم یکن المعنی واسعاً فقد ہلک الناس۔ (فتح المغیث، الروایۃ بالمعنی:۲/۲۴۵، دارالکتب العلمیۃ، لبنان، الطبعۃ الاولی) (۱۰)امام شافعیؒ نے روایت بالمعنی کے جوازپر اس حدیث سے استدلال کیا ہے: انزل القرآن علی سبعۃ احرف فاقروا ماتیسر منہ۔ (السنن الکبری، باب التوسع فی الاخذ بجمیع ماروینا فی التشھد، حدیث نمبر:۲۶۶۸) ترجمہ:قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے جواس میں سے آسان ہو اس پرپڑھے۔ اس سے پتہ چلا کہ قرآن کوسات حروف میں اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اگرمعنی میں فرق واقع نہ ہوتاہو تواس کی قرأت جائز ہے، توقرآن کے علاوہ میں لفظ کے اختلاف سےاگرمعنی میں فرق واقع نہ ہوتو اس کا بھی جواز ہونا چاہیے۔ جمہور علمائے سلف کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ جب حدیث کے الفاظ بھول جائیں توروایت بالمعنی جائز ہے، عہدِسلف میں اسی پرعمل تھا؛ اسی سے علامہ ماوردی نے یہ بات اخذ کی ہے کہ روایت بالمعنی کے جواز کے لیے حدیث کے اصلی الفاظ کا بھول جانا شرط ہے، ماوردی فرماتے ہیں: إن نسي اللَّفظ جَاز, لأنَّه تحمل اللَّفظ والمعنى, وعجزَ عن أداء أحدهما, فيلزمهُ أداء الآخر, لا سيَّما أنَّ تركه قد يكون كتمًا للأحكام, فإن لم ينسه لم يجز أن يُورده بغيره, لأنَّ في كلامه - صلى الله عليه وسلم - من الفَصَاحة ما ليسَ في غيره. (تدریب الراوی، صفۃ روایۃ الحدیث:۲/۱۰۱) ترجمہ:اگرراوی حدیث کے الفاظ بھول گیا توروایت بالمعنی کرسکتا ہے اس لیے کہ اس نے نبی کریمﷺ سے دوچیزیں اخذ کی تھی، ایک لفظ اور دوسرے معنی، جب وہ ایک یعنی الفاظ کی ادائیگی سے قاصر ہے تودوسرے یعنی معنی کا ادا کرنا واجب ہے؛ خصوصاً اس لیے کہ بعض اوقات اس کے ادا نہ کرنے سے ایک شرعی حکم کوچھپانا لازم آتا ہے؛ اگرنبی کریمﷺ کے الفاظ راوی کوبھولے نہ ہوں تووہ دوسرے الفاظ میں آپ کے مفہوم کوبیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ سرکارِدوعالمﷺ کے الفاظ میں جووضاحت پائی جاتی ہے وہ دوسرے کے الفاظ میں نہیں۔ روایت بالمعنی کے حوالے سے صحابہ کا احتیاط اصحابِ رسول روایت بالمعنی پر اسی وقت اقدام کرتے جب کہ الفاظِ رسول یاد نہ ہوں؛ اگرانھیں روایت بالمعنی کی شدید ضرورت ہوتی یاحضور کے الفاظ میں شک گذرتا توان کے احتیاط کا یہ حال تھا کہ حدیث کے خاتمہ پرایسے الفاظ فرماتے جن سے حزم واحتیاط کا اظہار ہوتا؛ حالانکہ وہ حضوراکرم کا معنی ومفہوم سب سے بہتر جانتے تھے، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ روایت بالمعنی خطرہ سے خالی نہیں، جن کا روایت بالمعنی کے حوالے سے اس قدر حزم واحتیاط ہوتا تھا، الفاظِ رسول کے بالکل بدل جانے کی بات کیسے کہی جاسکتی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک روز یہ الفاظ کہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: یہ کہہ کرآپ کی آنکھیں بھرآئیں اور گردن کی رگیں پھول گئیں؛ پھرکہنے لگے: أَوْمِثْلُهُ أَوْنَحْوُهُ أَوْشَبِيهٌ بِهِ۔ (سنن الدارمی، كتاب المقدمة،باب مَنْ هَابَ الْفُتْيَا مَخَافَةَ السَّقَطِ، حدیث نمبر:۶۷۲، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية) ترجمہ:یعنی آپ نے اسی قسم کے الفاظ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ ارشاد فرمائے۔ حضرت ابوالدرداء کی عادت تھی کہ جب حدیث بیان کرتے توکہتے: أَوْنَحْوُهُ أَوْشَبِيهٌ بِهِ۔ (تدریب الراوی، صفۃ روایت الحدیث:۲/۱۰۳) ترجمہ:آپ نے یوں فرمایا یاس اس کے مانند۔ حضرت انس بن مالکؓ جب حدیث بیان کرکے فارغ ہوتے تو کہتے: أوکما قال رسول اللہﷺ ۔ (ابن ماجہ، باب التوفی فی الحدیث، حدیث نمبر:۲۴) روایتِ حدیث کرتے وقت صحابہؓ وتابعین کا یہ حال تھا کہ وہ روایت بالمعنی کی اجازت اس وقت دیتے تھے جب راوی حدیث کے الفاظ بھول گئے ہوں اور وہ حدیث جوامع الکلم اور دعائیہ کلمات پر مشتمل نہ ہو؛ پھرحدیث کے آخر میں ایسے الفاظ کہتے جوحزم واحتیاط کے آئینہ دار ہوتے اور اگرحدیث کے الفاظ میں غلطی ہوتی یاشک گذرا ہو تواسی وقت بیان کردیتے اس کی نظیر کوئی قوم کسی زمانہ میں پیش نہیں کرسکتی، یقین نہ آئے توصحیحین اور دیگر کتبِ حدیث پرایک نگاہ ڈال کردیکھ لیجئے، آپ کوراویانِ حدیث کے حفظ وضبط، امانت ودیانت اور حقیقتِ حال کا پتہ چل جائے گا، صحابہ کرام اکثر وبیشتر نبی کریمﷺ کے الفاظ ہی روایت کرتے تھے جووہ آپ سے سنتے، وہ اس بات کے حددرجہ حریص تھے، اس لیے کہ حضوراکرمﷺ فصیح العرب تھے اور آپ کی احادیث دینِ اسلام کا لازمی اور اہم جزہیں۔ قرآن کریم میں فرمایا: وَمَايَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَ إِلَّاوَحْيٌ يُوحَى۔ (النجم:۴،۳) ترجمہ:اور ہمارا رسول اپنی مرضی سے نہیں بولتا، وہ تووحی ہے جو کی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل امور اس بارے میں ان کا ساتھ دیتے تھے: (الف)صحابہ کرامؓ بلا کا حافظہ رکھتے تھے، وہ نہایت ذہین وفطین تھے، صرف ا یک دودفعہ سن کربڑے لمبے لمبے قصیدے اور خطبے انہیں یاد ہوجایا کرتے تھے اور پھرتازندگی نہ بھولتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ناخواندہ قوم کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ان کے سینے ان کے دفتر اور ان کے حافظے ان کی کتابیں تھیں، کثرتِ مشق سے ان کی قوتِ حافظہ بہت تیز ہوگئی تھی، سخت غلطی ہوگی کہ صحابہ کا موازنہ دیگراقوام یاعصرِحاضر کے لوگوں کے ساتھ کیا جائے۔ (ب)اکثرراویانِ حدیث نے احادیثِ نبویہ کولکھ کرمحفوظ کرایا تھا؛ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سہو وخطا یاپیرانہ سالی کی وجہ سے ضائع ہوجائیں، تابعین میں صحابہ کی نسبت کتابتِ حدیث کا زیادہ رواج تھا، اس طرح سینوں میں محفوظ رکھنے کے ساتھ کتابت حدیثِ احادیثِ نبویہ کے عوامل تحفظ میں سے ایک زبردست عامل کی حیثیت رکھتے تھے۔ (ج)جومجالس احادیث کے اخذ وتحمل اور نقل وروایت کے لیے منعقد کی جاتی تھیں اور مختلف بلادوامصار کے جوسفر طلب حدیث کے سلسلہ میں اختیار کیے جاتے تھے، تحفظ حدیث کے سلسلہ میں بڑے کارآمد ثابت ہوئے۔ مندرجہ بالا وجوہ واسباب کی روشنی میں ہم بڑے وثوق واطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ روایت بالمعنی کی اجازت اس وقت تھی، جب عربی زبان میں فساد وبگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا، لغت وشرع کے ائمہ کبار کی مجبوری کی صورت میں اس کی اجازت دیا کرتے تھے، مزید برآں صحابہ کواحادیث کے الفاظ میں نسیان کا جوعارضہ پیش آتا تھا وہ معمولی لفظ میں ہوا کرتا تھا، مثلاً یہ کہ کوئی حرف عطف یامفرد لفظ بھول جائے یاکوئی جملہ یاد نہ رہے۔ الفاظِ حدیث میں اختلاف کے دیگر وجوہ احادیث کے الفاظ میں جوفرق واختلاف ہوتا ہے اس کی وجہ صرف روایت بالمعنی ہی نہیں؛ بلکہ اس کے اور وجوہ بھی ہوتے ہیں، یہ سخت غلطی ہے کہ ایک ہی مفہوم ادا کرنے والی مختلف احادیث کے اختلاف الفاظ کوروایت بالمعنی پرمحمول کیا جائے اس کی اصل وجہ یہ ہےکہ حضوراکرمﷺ کی مجالس زمان ومکان اور احوال وواقعات کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی تھیں؛ اسی طرح آپ کے سامعین بھی ایک طرح کے نہیں ہوا کرتے تھے، کوئی فتویٰ پوچھنے آتا، کوئی جھگڑا چکانے آتا، کوئی وفد کی صورت میں حاضر خدمت ہوتا، ان مجالس میں حضور کے الفاظِ گرامی بلحاظِ اختصار وطوالت وضوح وخفاء وتقدیم وتاخیر وحسب موقع ومقام مختلف ہوا کرتے تھے، مثلاً: آپ سےافضل الاعمال کے بارے میں دریافت کیا گیا توحضور نے ہرسائل کو جداگانہ جواب سے نوازا؛ اسی طرح جب آپﷺ سے افضل الجہاد یاافضل الصدقہ یا البرّووالاثم کےمعنی ومفہوم کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے ہرسائل کوجوجواب دیاوہ دوسرے سے مختلف تھا، ایک ناواقف شخص خیال کرسکتا ہے کہ یہ ایک قسم کا تعارض ہے،حالانکہ سرورِکائنات روحانی طبیب تھے، وہ ہرشخص کواس کے حسب حال جواب دیتے تھے، یہ جواب یاتواس کے لیے مفید ہوتا تھا، یاجملہ حالات میں سب لوگوں کے لیے سود مند ہوتا تھا، یاصرف اس حالت سے ہم آہنگ ہوتا جس میں وہ سوال دریافت کیا گیا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اذان واقامت وتشہد نیزنماز اور بعد نماز پڑھے جانے والے اذکار وادعیہ کے الفاظ مختلف ہیں؛ حالانکہ سب احادیث کے راوی عادل وضابط ہیں، فن حدیث سے بیگانہ شخص یہ خیال کرے گا کہ ان میں تناقص پایا جاتا ہے یایہ کہ ان کے راوی حفظ وضبط سے عاری ہیں یااس کی وجہ روایت بالمعنی ہے؛ حالانکہ دراصل یہ سب نبی کریمﷺ کے اپنے الفاظ ہیں؛ گویا آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سب الفاظ جائز اور درست ہیں اور ان کے ذریعہ امت کووسعت وسہولت دینا پیشِ نظر ہے۔ سرورِکائنات نے مدینہ وارد ہونے والے وفود کوجن تعلیمات وارشادات سے نوازا اسی طرح حضور نے جن صحابہ کوداعی ومبلغ بناکر اطرافِ مدینہ میں بھیجا اور جوقیمتی مشورے ان کومرحمت فرمائے، مزید آپ مختلف بلادوامصار کے ملوک وسلاطین کوجوگرامی نامے ارسال کئے جوزریں نصائح سے بھرپور تھے، ان سب کے الفاظ مختلف ہیں اور ان سب میں حسب موقع ومقام لوگوں سے ان کی عقل وفہم کے مطابق خطاب کیا گیا ہے، حضوراکرمﷺ جمعہ، عیدین، غزوات اور دیگراہم مواقع پرخطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، ان خطبات میں آپﷺ اسلامی احکام پرروشنی ڈالتے، دینِ اسلام کے قواعد وضوابط جنت وجہنم کے حالات اور علاماتِ قیامت وعذاب قبر کا ذکر فرماتے، ان امور کا ذکر وبیان کرتے وقت موقع ومحل کی مناسبت سے آپ کے الفاظ کم وبیش اور مختلف ہوا کرتے تھے، ایسے ہی آپ امم سابقہ کے احوال واخبار پرروشنی ڈالتے، ایسا کرتے وقت آپ کا طرز وانداز مختلف ہوتا تھا اور آپ سامعین کے حالات کوپیشِ نظر رکھتے تھے؛ چنانچہ آپ کا ارشاد کبھی مفصل ہوتا اور گاہے مختصر، کبھی کھل کر بات کرتے اور گاہے مجمل ومبہم طور پر۔ اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا بیانات کے پیشِ نظر حضورﷺ کے الفاظ میں جواختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے اسے تناقض پرمحمول کیا جائے؟ یایہ کہا جائے کہ راویوں نے جوکچھ آپ سے سنا تھا اس کوضبط نہ کرسکے، اور روایت بالمعنی کی جس سے یہ اختلاف اور تناقض وجودپذیر ہوا دراصل ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہ تھی، اس کی وجہ تعلیمی حکمتِ عملی وموقع ومحل کی مناسبت اور وحیٔ الہٰی کی دعوت وتبلیغ میں تدریج وتلطف تھی اور بس۔ دورجانے کی ضرورت نہیں، قرآن عزیز ہمارے سامنے ہے، جس میں باطل کا گزرتک کسی طرح ممکن نہیں قرآن عزیز میں ایک ہی نبی کا واقعہ مختلف سورتوں میں جداگانہ اور متنوع طریقوں سے مذکور ہے، بعض جگہ پورا واقعہ مختصراً یامفصلاً مذکور ہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ اس واقعہ کا ایک حصہ ایک سورت میں مذکورہے اور دوسرا جز دوسری سورت میں؛ پھرایک حصہ مختصراً مذکور اور دوسرا تفصیلی، کیا ہرواقعہ کے ذکر وبیان میں جو اختلاف ہے اس کوتناقض پرمحمول کیا جائے گا، جیسا کہ ملاحدہ اور منافقین کا خیال ہے؟ یا یہ کہ اس میں تناقض کی کوئی بات نہیں؛ بلکہ یہ مبنی برحق وصداقت ہے، واقعہ کا ایک جز جوایک جگہ مذکور ہے، اگراس کے اطراف کودوسری جگہ مذکور حصہ کے ساتھ ملادیا جائے تودونوں کے اجزاء مل جل کرپورے واقعہ کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ روایت بالمعنی کے لائقِ قبول ہونے میں قرآنی موقف تاریخ مذاہب کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت آدم وحواء علیہما السلام نے شجرِممنوعہ کا پھل چکھا تواللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ دونوں نیچے اترجاؤ، یہ واقعہ قرآنِ کریم میں اس طرح منقول ہے: (۱)قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَايَشْقَى۔ (طٰہٰ:۱۲۳) ترجمہ:خدا نے کہا: تم دونوں اکٹھے اس سے نیچے اتروکہ ایک کادشمن ایک ہوگا؛ پھراگرتمہارے پاس میری طرف سے ہوئی ہدایت پہونچے توجواس کا اتباع کرے گا تووہ نہ دنیامیں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا۔ (۲)قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ۔ (الأعراف:۲۴) ترجمہ:ہم نے کہا تم سب نیچے اترجاؤ، ایک دوسرے کے تم دشمن ہوگئے اور تمہارے لیے زمین ٹھکانہ ہے اور رہنا ہے ایک وقت تک۔ (۳)قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّايَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَاخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ۔ (البقرۃ:۳۸) ترجمہ:ہم نے کہا:اترجاؤ جنت سے سب کے سب؛ سوپھراگر تمہارے پاس میرے طرف سے پیغامِ ہدایت لے کر، توجس نے میری پیروی کی ان پرکوئی خوف نہ ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی تین مختلف تعبیریں ہیں، اللہ رب العزت نے جب یہ بات کہی ہوگی توظاہر ہے کہ ایک بات کہی ہوگی اور باقی تعبیرات میں اس کی روایت بالمعنی ہوں گی؛ اگرروایت بالمعنی جائز نہ ہوتی توقرآن کریم ایک بات کومختلف تعبیرات سے پیش نہ کرتا، اللہ رب العزت نے جب فرشتوں کوحکم دیا تھا کہ آدم کوسجدہ کرو تویاتوکہا ہوگا اسْجُدُوا لِآدَمَ (البقرۃ:۳۴) یا کہا ہوگا فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (ص:۷۲)۔ ظاہرہے کہ ان دومیں ایک تعبیر روایت بالمعنی ہوگی، علامہ آلوسی نے بھی ان آیات سے روایت بالمعنی کا اشارہ کیا ہے۔