انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۷۶۔نافع بن جبیرؒ نام ونسب نافع نام،ابو محمد کنیت،قریش کے مشہور سردار مطعم بن عدی کے جنہوں نے تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور میں جبکہ آنحضرتﷺ پر ہر طرف سے مشرکین کا نرغہ تھا،بڑی حمایت کی تھی،پوتے تھے،نسب نامہ یہ ہے،نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبدمناف بن قصی ماں کا نام ام قتال تھا،نانہالی شجرہ یہ ہے،ام قتال بنت نافع بن ضریب بن نوفل۔ فضل وکمال علمی اعتبار سے نافع اکابر تابعین میں تھے،امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ امام اورفاضل تھے،ان کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء،ج اول،ق۲،ص۱۲۲) ابن خراش کہتے ہیں کہ وہ ثقہ مشہور اورائمہ میں سے تھے۔ حدیث اگرچہ حدیث میں ان کا کوئی بلند پایہ نہ تھا،لیکن انہوں نے زمانہ ایسا پایا تھا،جب مدینہ کی گلی گلی سمعت وحدثنا کے ترانوں سے گونج رہی تھی،اور علم کے ساتھ ادنی ذوق رکھنے والے بھی اس سے محروم نہ تھے، اس لیے نافع بن جبیر کا دامن بھی اس دولت سے خالی نہ رہا؛چنانچہ انہوں نے اپنے والد جبیر بن مطعمؓ،حضرت عباسؓ بن خدیجؓ،عبداللہ بن عباسؓ ابوہریرہؓ،ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اورام سلمہؓ وغیرہ جیسے اکابر ملت سے فیض اٹھایا تھا،(تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۵)ان کے فیض سے نافع کا دامن علم اتنا وسیع ہوگیا تھا کہ شائقین حدیث ان کے کمالاتِ علمی سے استفادہ کرتے تھے۔ ان سے روایت کرنے والوں میں عروہ بن زبیر،سعید بن ابراہیم،امام زہری،حبیب بن ابی ثابت،صالح بن لیسان،صفوان بن سلیم،عبداللہ بن فضل ہاشمی،موسیٰ بن عقبہ،عمروبن دینار اورعتیبہ بن مسلم وغیرہ لائقِ ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱/۴۰۵) فقہ فقہ میں بھی انہیں درک تھا،وہ مدینہ کے صاحبِ افتا علماء میں تھے اوران کے فتاوی معتبر سمجھے جاتے تھے۔ (ایضاً) فصاحت وبلاغت قریش کی فصاحت وبلاغت مشہور ہے،یہ خاندانی وصف ان کے حصہ میں وافر آیا تھا، وہ بڑے فصیح وبلیغ تھے اور بڑی کڑک دار آواز سے بولتے تھے۔ (ابن سعد،ج۵،ص۱۵۳) فضائل واخلاق فضائل اخلاق وعمل کی دولت سے بھی بہرہ ور تھے ابن حبان ان کو خیارناس میں لکھتے ہیں۔ (ایضاً) پاپیادہ حج آرام کے وسائل رکھتے ہوئے راہِ خدا میں تکلیف اٹھانا بڑی عبادت ہے ،نافع محض حصولِ اجر کے لیے پاپیادہ حج کیا کرتے تھے،عمران بن موسیٰ کا بیان ہے کہ نافع پاپیادہ حج کرتے تھے اور ان کی سواری ان کے پیچھے ہوتی تھی۔ دبدبہ وشکوہ ان کے خاندان میں پشتہا پشت سے سرداری چلی آتی تھی،اس لیے ان کے مزاج میں اس کی بوباقی تھی،نہایت بھاری اوربلند لہجہ میں باتیں کرتے تھے، بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں خود پرستی وتمکنت تھی،لیکن ان کی ظاہری شوکت سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے وہ خود اس کی تردید کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے ان سے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ میں تکبر ہے،انہوں نے جواب دیا خدا کی قسم میں گدھے پر سوار ہوا ہوں،شملہ پہنا ہے،بکریوں کا دودھ دہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے یہ کام کیے اس میں تکبر کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا پھر میں متکبر کیسے ہوسکتا ہوں۔ (ابن سعد،۵/۱۵۳) اصلاحِ نفس ان کے واقعاتِ زندگی سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے وہ عمداً ایسے کام کیا کرتے تھے جو پندار کے خلاف ہوتے تھے،جعفر بن نجیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نافع بن جبیر علاء بن حرقی کے حلقہ درس میں جو حرقہ کے غلام تھے، شریک ہوئے علاء کے درس تمام کرنے کے بعد نافع نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا، آپ لوگ جانتے ہیں آپ لوگوں کے پاس کیوں آکر بیٹھا ہوں،انہوں نے جواب دیا درس سننے کے لیے،نافع نے کہا نہیں ؛بلکہ اس لیے کہ آپ کے پاس بیٹھنے سے خدا کے پاس تواضع کا اظہار ہو،اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ایک بہت معمولی شخص کو امامت کے لیے بڑھایا،نماز ختم ہونے کے بعد اس سے پوچھا جانتے ہو میں نے تم کو کیوں آگے بڑھایا تھا اس نے کہا نماز پڑھانے کے لیے،کہا نہیں ؛بلکہ اس لیے کہ تمہارے پیچھے نماز پڑھنے سے خدا کے حضور میں تواضع ظاہر ہو۔ (ایضاً) وفات سلیمان بن عبدالملک کے آخر عہدِ خلافت ۹۳ میں وفات پائی۔ (ایضاً) اولاد وفات کے بعد محمد،عمر،ابوبکراورعلی کئی لڑکے یادگارچھوڑے۔ حلیہ ولباس بالوں میں سیاہ خضاب کرتے تھے،دانتوں میں سونےکے تار کسےہوئے تھے لباس عموماً سپید اورقیمتی پہنتے تھے،خز جو ایک پیش قیمت کپڑا ہے زیادہ استعمال کرتے تھے۔ (ایضاً:۱۵۲)