انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نظارت نافعہ اصطلاحی حیثیت سے اگرچہ اس صیغہ میں صرف نہریں، سرکاری عمارتیں ،پل بند، شفاخانے اورکنوئیں وغیرہ داخل ہیں؛لیکن ہم نے اس میں صحابہ کرام کے اوقاف وصدقات جاریہ کو بھی شامل کرلیا ہے؛ کیونکہ اوقاف وصدقات کا مقصد بھی رفاہ عام کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کنوئیں رفاہ عام کی چیزوں میں اگرچہ کنوئیں اب نہایت معمولی درجے کی چیز خیال کئے جاتے ہیں؛ لیکن عرب میں وہ نہایت گراں قیمت چیز سمجھے جاتے تھے ،اسی بنا پر حدیث میں آیا ہے کہ سب سے اچھا صدقہ پانی ہے، اسلام میں رفاہ عام کے کاموں کی ابتدا سب سے پہلے اسی صدقہ جاریہ سے ہوئی چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہجر ت کی تو مدینہ میں میٹھےپانی کی نہایت قلت محسوس ہوئی، میٹھےپانی کا صرف ایک کنواں تھا جس کا نامہ بیر رومہ تھا، اس لئے آپ نے تمام مسلمانوں کی طرف خطاب کرکے کہا کہ اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اس کو کون خرید تا ہے؟ حضرت عثمانؓ کو یہ سعادت نصیب ہوئی اورانہوں نے اس کو اپنے صلب مال سے خرید کر تمام مسلمانوں پر وقف کردیا۔ (نسائی کتاب الاحباس) حضرت عثمانؓ نے اوربھی متعدد کنویں، مثلا بیر سائب، بیر عامر، بیراریس کھدوائے اور مسلمانوں پر وقف کئے۔ (وفاء الوفاص:۲۵۴) اس کے بعد اور صحابہ نے بھی متعدد کنویں کھدوائے، حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورپوچھا کہ ان کے لئے کون سا صدقہ بہتر ہوگا؟ ارشاد ہوا، پانی چنانچہ انہوں نے ماں کی یادگار میں ایک کنواں کھدوادیا ۔ (ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب فی فضل سقی الماء لیکن نسائی کتاب الحباس میں ہے کہ انہوں نے بطور صدقہ کے متعدد باغ وقف کئے تھے) مدینہ میں ایک اورکنواں جس کا نام بیر ملک تھا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے وقف تھا۔ (وفاء الوفاص:۲۵۸) رسول اللہ ﷺ کے بعد جب صحابہ کرام کے سرپر خلافت الہی کا تاج رکھا گیا تو اس صدقہ جاریہ کی طرف اور بھی توجہ ہوئی، اگرچہ ہم کو یہ معلوم نہیں کہ اس زمانے میں کتنے کنوئیں کھودے گئے ؛تاہم بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء کو اس کا نہایت اہتمام تھا "معجم البلدان ذکر تبوک "میں ہے کہ وہاں ایک کچا کنواں تھا جو ہمیشہ گر گر پڑتا تھا، حضرت عمرؓ کے حکم سے ابن عریض نامی ایک یہودی نے اس کو پختہ کرادیا۔ چوکیاں اور سرائیں عرب کے لوگ اکثر سفر کیا کرتے تھے، بالخصوص سال میں ایک بار تمام عرب کو حج کا احرام باندھنا پڑھتا تھا بایں ہمہ راستہ میں مسافروں کے آرام وآسائش کا بہت کم سامان تھا ؛لیکن خلفاء کے عہد میں مسافروں کے آرام و آسائش کے تمام سامان ن مہیا ہوگئے ؛چنانچہ جو لوگ راستے میں مسافروں کو پانی پلایا کرتے تھے انہوں نے حضرت عمرؓ سے اجازت طلب کی اورمکہ اورمدینہ کے درمیان سرائیں بنوانا چاہیں ،حضرت عمرؓ نے اس شرط پر اجازت دی کہ مسافر پانی اورسایہ کے سب سے زیادہ مستحق ہوں گے۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۶۰) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسی سلسلہ میں متعدد کنوئیں بھی کھودوائے اور جو کنوئیں بند گئے تھے ان کو صاف کروایا۔ (ازالۃ الخفاء) انہوں نے مکہ اورمدینہ کے درمیان ایسے اشخاص بھی مقررکئےجو گم گشتگان قافلہ کو سیراب راستوں سے لیجا کر منزل مقصود تک پہونچا آتے تھے۔ (مقریزی ،جلد اول،صفحہ ۴۶۱) امر عمران یتخذ لمن یرومن الافاق دارافکانواینزلونھا۔ (فتوح البلدان،صفحہ:۲۸۶) حضرت عمر ؓ نے حکم دیا کہ جو لوگ اطراف ملک سے مسافر وارد ہوتے ہیں ان کے لئے ایک مہمان خانہ قائم کیا جائے؛ چنانچہ جو مسافر آتے تھے اسی مہمان خانہ میں اترتے تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کوفہ میں ایک اورمہمان خانہ قائم کیا جس کی وجہ یہ ہوئی کہ باہر سے جو لوگ تجارت کا غلہ لے کر آتے تھے وہ عموماً پرائیویٹ مکانوں میں قیام کرتے تھے اس غرض سے بعض فیاض طبع لوگوں نے یہ انتظام کیا تھا کہ بازار میں منادی کروادیتے تھے کہ جس کے قیام کا بندوبست نہ ہو وہ ہمارے مکان میں قیام کرسکتا ہے، حضرت عثمانؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان لوگوں کے لئے ایک مہمان خانہ قائم کردیا۔ (حسن المحاضرہ،جلد۱،صفحہ۹۲) حوض اورنہریں صحابہ کرام نے رفاہ عام کی غرض سے جا بجا مکہ اورمدینہ میں بہ کثرت حوض اور چشمے تیار کرائے،حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن عامرؓ کو بصرہ کا عامل مقرر فرمایا تو انہوں نے عرفات میں بہت سے حوض بنوائے اورمتعد دنہریں جاری کیں،(اسدالغابہ تذکرہ حضرت عبداللہ بن عامرؓ) حمی قید کے پاس حضرت عثمانؓ نے ایک نہر کھدوائی جس کا نام عین النحل تھا،(خلاصۃ الوفاص) حضرت علیؓ نے بھی متعدد نہریں وقف عام کی تھیں؛ چنانچہ مقام سینج میں ان کے ذاتی ملک میں بہت سی چھوٹی چھوٹی نہریں تھیں، انہوں نے سب کو وقف عام کردیا،(وفاء الوفاءص:۳۹۳) اسی طرح اور دونہروں کو انہوں نے فقرائے مدینہ پر وقف کردیا تھا،چنانچہ ایک بار حضرت امام حسینؓ پر قرض ہوگیا تو حضر امیر معاویہؓ نے ایک نہر کے بدلے دو لاکھ دینار دینا چاہے؛ مگر انہوں نے کہا کہ میں اپنے باپ کا وقف فروخت کرنا نہیں چاہتا۔ (معجم ذکر عین ابی نیزر) حضرت امیر معاویہؓ کو نہروں کے جاری کرنے کا خاص اہتمام تھا، خلاصۃ الوفاء میں ہے۔ کان بالمدینۃ الشریفۃ وماحولھا عیون کثیرۃ وکان لمعاویۃ اہتمام بھذا الباب (خلاصۃ الوفاص:۲۳۷) مدینہ شریف اوراس کے متصل بکثرت نہریں تھیں اورحضرت امیر معاویہؓ کو اس باب میں خاص اہتمام تھا۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے جو نہریں جاری کرائیں ان میں نہر کظامہ،(وفاء الوفاص:۱۱۷) نہر ازرق،(خلاصۃ الوفاءصفحہ) نہر شہدا(خلاصۃ الوفاء صفحہ:۱۳۷) وغیرہ کا نام وفاء الوفاء اورخلاصۃ الوفاء میں مذکور ہے، حضرت امیر معاویہؓ نے پہاڑوں کی بعض گھاٹیوں کے گرد بند بندھوا کر ان کو بھی تالاب کی صورت میں بدل دیا تھا جس میں پانی جمع ہوتا تھا۔ (وفاء الوفاء صفحہ:۳۲۱) خلفاء کے علاوہ اورصحابہ نے بھی پانی کے چشمے وقف عام کئے تھے، مثلاً حضرت طلحہؓ نے ایک چشمہ خرید کر راہبوں پر وقف کردیا تھا۔ (وفاء الوفاء،صفحہ:۳۶۰) نہر سعد مکہ اورمدینہ کے علاوہ صحابہ کرام نے مختلف شہروں میں نہریں جاری کیں، ابنار والوں کو مدت سے ایک نہر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی چنانچہ اس کے لئے حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں ان لوگوں نے حضرت سعد وقاص رضی اللہ عنہ سے درخواست کی تو انہوں نے حضرت سعد بن عمروبن حرامؓ کو اس کام پر مامور کیا، انہوں نے بڑے اہتمام سے کام جاری کیا؛ لیکن کچھ دور پہونچ کر بیچ میں ایک پہاڑ آگیا اس لئے کام وہیں تک پہونچ کر رک گیا، بعد کو حجاج نے اس کی تکمیل کی ؛لیکن الفضل للمتقدم کی بنا پر یہ نہر حضرت سعد بن عمروؓ ہی کے نام سے مشہور تھی۔ (فتوح البلدان ،صفحہ:۲۸۳) نہرابی موسیٰ بصرہ والوں کو آب شیریں کی سخت تکلیف تھی، ایک بار ان کا ایک وفد حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور وفد کے ایک ممبر یعنی حنیف بن قیس نے نہایت پر اثر تقریر میں حضرت عمرؓ کو اس طرف توجہ دلائی، حضرت عمرؓ نے اسی وقت حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام ایک تحریری حکم بھیجا کہ بصرہ والوں کے لئے ایک نہر کھدوادی جائے، چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے اس نہر کو دجلہ سے نکال کر نہر ابلہ سے ملادیا اخیر میں اس کا کچھ حصہ بندہو گیا؛ لیکن حضرت عبداللہ بنؓ عامر بن کریزنے جو حضرت عثمانؓ کی جانب سے بصرہ کے گورنر تھے اس کی مرمت واصلاح کروادی۔ (فتوح البلدان،صفحہ:۳۶۵) نہر معقل یہ نہر بھی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کے حکم سے بصرہ میں کھدوائی ،چونکہ اس کی تیاری کا کام حضرت معقلؓ کے سپرد کیا گیا تھا، اس لئے انہی کے نام سے مشہور ہوگئی ،حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں زیاد نے دوبارہ اس نہر کو کھدوایا اور تبرکاً حضر معقل ؓ ہی سے اس کا افتتاح کروایا، افتتاح کرنے کے بعد ایک آدمی کو ہزار درہم دیئے اورکہا کہ دجلہ کے کنارے گھوم آؤ اگر ایک شخص بھی اس نہر کو زیاد کی نہر کہتا ہوا ملے تو اس کو یہ رقم دے دو، لیکن بچے بچے کی زبان سے معقل کا نام سن کر اس نے کہا: ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء (فتوح البلدان،صفحہ۳۶۶) نہر امیر المومنین ۱۸ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمرؓ نے تمام صوبوں سے غلہ منگوایا؛ لیکن شام و مصر سے چونکہ خشکی کا راستہ بہت دور تھا اس لئے غلہ کی روانگی میں کسی قدر دیر ہوئی ،ان دقتوں کی بنا پر حضرت عمرؓ نے حضرت عمروبن العاصؓ کو طلب کیا اورکہا کہ اگر دریائے نیل سمندر سے ملادیا جائے تو عرب میں قحط وگرانی کا کبھی اندیشہ نہ ہو ورنہ خشکی کی راہ سے غلہ کا آنا دقت سے خالی نہیں، حضرت عمروبن العاص نے پلٹ کر فورا ًکام شروع کرادیا اورایک سال میں یہ نہر بن کر تیار ہوگئی یہ تفصیل حسن المحاضرہ میں ہے، (حسن المحاضرہ سیوطی،جلد۱،صفحہ۶۸) لیکن طبری میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے تمام امراء وعمال کے نام غلہ کے لئے تحریر حکم بھیجا تو خود حضرت عمروبن العاصؓ نے جواب میں لکھا کہ پہلے بحر شام بحر عرب میں گرتا تھا؛ لیکن رومیوں اور قبطیوں نے اس کو بند کردیا ؛اگر آپ چاہتے ہیں کہ مصر کی طرح مدینہ میں بھی غلہ کا نرخ ارزاں ہو تو میں اس غرض سے نہر تیار کرا کے اس پر پل بندھواؤں،مصر والوں نے اگرچہ اپنے ذاتی مصالح کی بنا پر بہت کچھ واویلا کیا ؛لیکن حضرت عمرؓ نےاس معاملہ میں کسی کی نہ سنی؛ چنانچہ جب یہ نہر بن کر تیار ہوئی تو عرب ہمیشہ کے لئے قحط کی مصیبت سے نجات پاگئے۔ (طبری،صفحہ:۲۵۷۷) حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں بھی بعض نہریں تیار ہوئیں ؛مثلا انہوں نے عبیداللہ بن زیاد کو خراسان کا گورنر مقرر کرکے بھیجا تو اس نے جبال بخاری کو کاٹ کر ایک نہر نکالی،(طبری،صفحہ:۱۶۹ واقعات ۵۴ھ) انہی کے زمانے میں حکم بن عمرو نے ایک نہر جاری کی جس کا افتتاح نہ ہوسکا۔ (طبری،صفحہ۵۶،واقعات ۵۱ھ) زرعی نہریں حضرت عمرؓ کے زمانے میں زرعی ترقی کا جو مستقل انتظام ہوا اس کے سلسلہ میں انہوں نے نہایت اہتمام کے ساتھ آب پاشی کے لئے نہریں کھدوائیں؛ چنانچہ خاص مصر میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدور روزانہ سال بھر اس کام میں لگے رہتے تھے اور ان کے تمام مصارف بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ (حسن المحاضرہ،جلد۱،صفحہ ۶۳) حضرت امیر معایہؓ کے زمانے میں اس صیغے کو اور بھی زیادہ ترقی ہوئی ان کے زمانے میں صرف مدینہ اوراس کے آس پاس جو زرعی نہریں تھیں ان کے ذریعہ سے ڈیڑھ لاکھ وسق خرما اورایک لاکھ وسق گیہوں پیدا ہوتا تھا۔ (خلاصۃ الوفاء،صفحہ:۲۳۷) بند مکہ میں جو چار مشہور سیلاب مختلف زمانوں میں آئے ان میں ایک سیلاب جوام نہشل کے نام سے مشہور ہے، حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں آیا اورمسجد حرام تک پہونچ گیا، حضرت عمرؓ نے نیچے اوپر دوبند بندھوائے جس نے مسجد حرام کو سیلاب کی زد سے محفوظ رکھا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۶۰) مدینہ میں ایک چشمہ تھا، جس کا نام مہزور تھا، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں اس میں طغیانی آئی اور تمام مدینہ ڈوب گیا اس لئے انہوں نے اس سے بچنے کے لئے ایک بند بندھوایا۔ (فتوح البلدان،صفحہ۱۷) پل اورسڑک خلفاء کے زمانے میں مفتوحہ قوموں سے جو معاہدہ صلح ہوتا تھا اس میں تمام شرائط کے ساتھ یہ شرط بھی کرلی جاتی تھی کہ سڑکوں اور پلوں کا بنانا ان کے متعلق ہوگا ؛چنانچہ کتاب الخراج میں ایک معاہدہ کا یہ فقرہ نقل کیا ہے۔ وبناء القناطر علی الانھار من اموالھم (کتاب الخراج،صفحہ۸۰) نہروں پر ان کو اپنے صرف سے پل باندھنا ہوگا۔ تاریخ طبری واقعات ۱۶ھ میں ایک معاہدہ کے حسب ذیل فقرے نقل کئے ہیں۔ فکان الفلاحون للطرق والجسورو الاسواق والحرث والدلا لۃ (طبری صفحہ۲۴۷۰ لیکن علامہ سیوطی کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ خود بیت المال کے مصارف سے بھی پل وغیرہ بنوائے جاتے تھے، چنانچہ حسن المحاضرہ،جلد۱صفحہ۶۳ میں لکھتے ہیں۔"کانت فریضۃ مصر لحفر خلیجھا واقامۃ جسورھا وبناء قناطرھا وقطع خائرھا مایۃ الف وعشرین الفامعھم الطودوالمساحی والاداۃ یعتقبون ذالک لا یدعون ذالک شناء ولا صیفا") کاشتکاروں کا یہ فرض قرار دیا گیا کہ سڑک بنائیں پل باندھیں بازار لگائیں کھیتی کریں اورمسلمانوں کو راستہ بتائیں۔ سرکاری عمارتیں سرکاری عمارتوں کی ابتدا حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی اور سرکاری کاموں کے لئے جس قدر عمارتوں کی ضرورت ہوتی ہے غالباً کل وجود میں آگئیں۔ دارالامارۃ صوبجات اوراضلاع کے حکام کے لئے دارالامارۃ تعمیر کئے گئے جو گویا اس زمانے کے گورنمنٹ ہاؤس تھے، حضرت عمرؓ کے دورخلافت میں غالباً سب سے پہلے بصرہ کا دار الامارۃ تیار ہوا ؛چنانچہ جب عتبہ بن غزوان نے فوجی ضرورت سے بصرہ کو آباد کیا تو اس کے ساتھ مقام دہناء میں جس کو اب رحبہ بنی ہاشم کہتے ہیں، سادہ طورپر ایک مسجد، ایک جیل خانہ اورایک دارالامارہ بھی تعمیر کروایا ،بصرہ اول اول گویا چھپروں کا مجموعہ تھا، لیکن بعد کو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کچے مکانات بنوائے تو دارالامارۃ کو بھی کچی اینٹ سے تعمیر کروایا اورچھت گھاس سے پٹوائی ،حضرت امیر معاویہؓ نے زیاد کو بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا تو اس نے مسجد میں بہت کچھ اضافہ کیا اور دارالامارۃ کو ہٹا کر مسجد کےسامنے قبلہ رخ کردیا اور اس کی عمارت پہلے سے بھی مستحکم بنوائی۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۳۵۵) اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے کوفہ کو آباد کیا تو اس کے ساتھ دارالامارۃ بھی تعمیر کرایا زیاد نے اس کی عمارت بھی دوبارہ مستحکم طورپر بنوائی۔ (فتوح البلدان،صفحہ۲۸۵) مکہ میں ایک نہایت قدیم یاد گار تھی جس کو دارالندوہ کہتے تھے یہ عمارت قریش کا گویا دارلامارۃ تھی جس میں وہ تمام اہم قومی معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اخیر میں حضرت امیر معاویہؓ نے اس کو خرید کر دارالامارۃ بنادیا۔ (فتوح البلدان؛صفحہ۵۹) جیل خانے حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں متعدد جیل خانے بنوائے ،اول اول مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم پر خرید کر کے جیل خانہ بنوایا،(مقریزی ،جلددوم،صفحہ:۱۸۷) پھر اوراضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے، بصرہ کا جیل خانہ عتبہ بن غزوان نے تعمیر کروایا تھا جو بالکل دارالامارۃ کے متصل تھا، کوفہ کا جیلخانہ بانس یا نرسل سے بناتھا۔ (فتوح البلدان،صفحہ:۴۶۸) غلہ خانے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تمام سرکاری ضروریات کے لئے الگ الگ مکانات تعمیر کروائے تھے ہم کو تاریخوں میں دارالدقیق اوردارالرقیق کا اکثر نام ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قید یان جنگ کے رہنے کے لئے کوئی مستقل مکان تعمیر کیا گیا تھا اسی طرح سرکاری آٹا کسی مستقل عمارت میں رکھا جاتا تھا، عام الرمادۃ میں مدینہ کی بندر گاہ جار پر جو غلہ آتا تھا اس کے رکھنے کے لئے حضرت عمرؓ نے دو بڑے بڑے محل بنوائے تھے۔ (یعقوبی،صفحہ۱۷۷) بیت المال اگرچہ ابن سعد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں بیت المال قائم ہوچکا تھا؛ لیکن درحقیقت حضرت عمرؓ نے اس کے لئے مستقل اور شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں؛ چنانچہ کوفہ کا بیت المال ایک عظیم الشان محل کی صورت میں تعمیر ہوا تھا جس کے لئے شاہان فارس کی عمارت سے اینٹیں منگائی گئی تھیں اور جس کو روز بہ ایک مشہور مجوسی معمار نے تیار کیا تھا۔ (طبری،صفحہ:۲۴۸۹) بازار صحابہ کرام کے عہد خلافت میں اگر چہ عرب کے تمام قدیم بازار مثلا عکاظ،ذوالمجنہ وغیرہ قائم تھے تاہم خود صحابہ کرام نے بھی متعدد بازار قائم کئے ؛چنانچہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں کوفہ آباد ہوا تو ایک کھلی ہوئی جگہ بازار کے لئے مخصوص کرلی گئی۔ (طبری صفحہ ۲۴۹۱) مصر فتح ہوا تو حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ ہم مسجد جامع کے متصل آپ کے لئے ایک مکان تعمیر کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے لکھا کہ میں تو حجاز میں ہوں اور میرے لئے مصر میں مکان تعمیر ہوگا؟ اس جگہ ایک بازار قائم کردو ؛چنانچہ وہ بازار قائم کیا گیا اوراس میں غلام فروخت کئے جاتے تھے۔ (حسن المحاضرہ جلداول صفحہ ۵۹) حضرت عثمانؓ نے حضرت عبداللہ بن عامرؓ کو بصرہ کا عامل مقرر فرمایا تو انہوں نے بہت سے مکانات خرید کر منہدم کروادیئے اوراس جگہ ایک بازار قائم کیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عبداللہ بنؓ عامر) شفاخانے اگرچہ ہم کو اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمرؓ حفظان صحت کا نہایت خیال رکھتے تھے؛ چنانچہ ایک بار حضرہ کے باشندوں نے شکایت کی کہ ہمارا گاؤں وبائی امراض میں مبتلا رہتا ہے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ اس کو چھوڑدو، لوگوں نے کہا وہ ہمارا وطن ہے، حضر عمرؓ نے عرب کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ سے کہا کہ اب کیا تدبیر ہے؟ اس نے کہا کہ زمین مرطوب ہے اور وہاں پسو اورمچھر بہت لگتے ہیں جو وباء کا سبب ہیں اس لئے ان لوگوں کو قرب وجوار میں نکل جانا چاہئے، گھی اورکراث کھانا چاہئے خوشبو لگانا چاہئے ،ننگے پاؤں نہ چلنا چاہئے، دن کو سونا نہ چاہیے؛ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ان کو ان تدبیروں پر عمل کرنےکا حکم دیا،(خلاصۃ الوفاء،صفحہ ۲۷۰) اوراگرچہ ہم کو اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں بکثرت اطباء موجود تھے اوران سے وہ کام لیتے تھے؛ چنانچہ حضرت معیقب دوسیؓ کو جذام ہوا تو ان کے علاج کے لئے انہوں نے مختلف اطباء بلوائے، (اسد الغابہ تذکرہ حضرت معیقب دوسیؓ) لیکن بایں ہمہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے حضرت عمرؓ اوردوسرے خلفاء نے شفاخانے کے لئے کوئی عمارت تعمیر نہیں کروائی۔ چھاؤنیاں اورقلعے صحابہ کرام کے عہد میں چونکہ فتوحات کا سلسہ ہمیشہ جاری رہا اس لئے بکثرت فوجی چھاؤنیاں اوربکثرت قلعے تعمیر ہوئے عام دستور یہ تھا کہ جب کوئی غیر محفوظ یا ساحلی مقام فتح ہوتا تو وہاں بقدر ضرورت فوج متعین کردی جاتی تھی جس سے ہر قسم کی شورش وبغاوت کا سدباب ہوجاتا تھا، (فتوح البلدان،صفحہ ۱۳۴) لیکن ان عارضی انتظامات کے علاوہ مستقل فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں اور تمام ساحلی مقامات قلعوں سے مستحکم کئے گئے،چنانچہ حضرت عمرؓ نے ۱۷ھ میں شام کا سفر کیا تو تمام سرحدی مقامات کا دورہ کرکے فوجی چھاؤنیاں قائم کروائیں،ساحلی مقامات کا مستقل انتظام کیا اورحضرت عبداللہ بن ؓ قیس کو اس کا افسر کل مقرر فرمایا، (طبری،صفحہ ۲۵۲۳) ۱۹ھ میں جب یزیدؓ سفیان کا انتقال ہوا تو ان کے بھائی معاویہؓ نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی کہ سواحل شام کے استحکام کی زیادہ ضرورت ہے،حضرت عمرؓ نے فوراً حکم بھیجا کہ تمام قلعوں کی مرمت کی جائے اور ان میں فوجیں رکھی جائیں جتنے دریائی مناظر ہیں ان میں پہرہ دینے والے متعین کئے جائیں اورہمیشہ آگ روشن رکھنے کا سامان کیا جائے، حضرت عمرؓ نے مصر وغیرہ میں بھی اس قسم کی بہ کثر ت چھاؤنیاں قائم کیں، حضر عثمانؓ نے اس کو اور ترقی دی اورمتعدد قلعے اور چھاؤنیاں بنوائیں ایک گاؤں جس کا نام جسرمنبج تھا، موسم گرما میں فوج کے قیام کے لئے آباد کرایا، (فتوح البلدان،صفحۃ۱۵۷) اورجو ساحلی قلعوں میں اقامت گزین ہونا پسند کرتے تھے ان کو جاگیر یں عطا کیں، (فتوح البلدان،صفحہ ۱۳۴) حضرت امیر معاویہؓ کو بحریات کا بہت زیادہ خیال تھا؛ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں طرابلس فتح ہوا تو حضرت امیر معاویہؓ نے ایک بڑا قلعہ بنوایا جس کا نام حصن سفیان رکھا، اس قلعہ کے تعمیر ہونے سے ہر قسم کے بحری حملہ کا اندیشہ جاتا رہا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۳۳) لاذقیہ،جیلہ اورانطرطوس کو حضرت ابو عبیدہؓ نے فتح کیا تو قدیم دستور کے موافق حفاظت کے لئے کچھ فوجیں متعین کردیں ؛لیکن حضرت امیر معاویہؓ نے تمام ساحلی استحکامات کے ساتھ یہاں بھی قلعے بنوائے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۴۰۰) جزیرہ روڈس فتح ہوا توحضرت امیر معاویہؓ نے یہاں بھی ایک قلعہ تعمیر کروایا۔ (فتوح البلدان،صفحہ۲۴۴) حضرت امیر معاویہؓ نے بحری استحکامات کے علاوہ خاص اہل مدینہ کے لئے بھی ایک قلعہ بنوایا جس کا نام قصر خل تھا۔ (وفاء الوفاء ،صفحہ ۲۶۱) مقبرہ حضرت عمرؓ نے جبل مقطم پر جو مصر میں واقع ہے ،مسلمانوں اور عیسائیوں کا الگ الگ مقبرہ تعمیر کروایا ؛چنانچہ حضرت عمروبن العاصؓ،حضرت عبداللہ بن حارث زبیدیؓ، حضرت عبداللہ بن حذافۃ السہمی،حضرت عقبہ بن عامرؓ اسی مقبرے میں مدفون ہوئے۔ (معجم البلدان ذکر مقطم) حمام مصر میں اگرچہ بہ کثرت حمام تھے؛لیکن وہ نہایت گندہ و نجس رہتے تھے،اس لئے حضرت عمروبن العاصؓ نے ایک چھوٹا سا حمام تعمیر کروایا جس کو رومی حمام الفاریعنی چوہوؤں کاحمام کہتے ہیں۔ (حسن محاضرہ جلد اول،صفحہ۵۹) وصیت نزع کا عالم بھی عجیب کشمکش کا عالم ہوتا ہے ،ایک طرف تو آل واولاد کی، ماں باپ کی، بھائی بند کی محبت دامن پکڑ تی ہے دوسری طرف عالم قدس کی کشش گریباں گیر ہوتی ہے، اس لئے دین و دنیا کی محبت کے موازنہ کے لئے اس سے بہتر زمانہ نہیں مل سکتا ،اگر انسان دنیا کا شیدائی ہے تو وہ اپنا تمام مال و دولت صرف اعزہ واقارب کو تفویض کردیتا ہے اور اگر وہ اپنا رشتہ خدا کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے تواپنی جائداد کا معظم ترین حصہ خدا کی راہ میں صرف کرتا ہے اورآل و اولاد کو صرف اسی قدر دیتا ہے جس قدر ان کا حصہ اللہ تعالی نے متعین کردیا ہے، صحابہ کرام اللہ تعالی کے صالح بندے تھے اس لئے وہ اس عالم میں جو کچھ دیتے تھے خدا ہی کو دیتے تھے ،آل و اولاد کا صرف اسی قدر خیال رکھتے تھے، جتنا اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا تھا، حضرت ابی وقاصؓ مرض الموت میں بیمار ہوئے اور رسول اللہ ﷺ عیادت کے لئے تشریف لائے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے پاس دولت بہت ہے اور ورثا میں صرف ایک لڑکی ہے چاہتا ہوں کہ دو ثلث مال صدقہ کردو ں آپ نے اجازت نہیں دی، بولے تو نصف، آپ نے فرمایا نہیں ثلث بہت ہے۔ (ابوداؤد کتاب الوصایاباب ماجاء فیما یجوز لموصی فی مالہ) حضرت سعد بن مالک ؓ بیمار ہوئے اورآپ عیادت کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے کہا میں خدا کی راہ میں اپنا کل مال دیتا ہوں،آپﷺنے فرمایا بچوں کے لیے کیا چھوڑتے ہو؟ بولے خدا کے فضل سے وہ آسودہ حال ہیں، آپﷺ نے فرمایا نہیں صرف دسویں حصہ کی وصیت کرو، انہوں نے بہت اصرار کیا تو آپﷺ نے ثلث کی اجازت دی۔ (ترمذی کتاب الجنائز باب جاماء فی الوصیت بالثلث والربع) اوقاف غربت وافلاس ،تنگدستی اورفاقہ مستی سب کچھ تھی؛لیکن ان میں کوئی چیز صحابہ کو انفاق فی سبیل اللہ سے باز نہیں رکھ سکتی تھی، صدقہ و خیرات تو تمام صحابہ کے اعمال صالحہ کا نمایاں جزو تھا، اسی بنا پر قرآن مجید نے ان کی یہ مشترک خصوصیت بیان فرمائی ہے۔ وممارقنا ھم ینفقون اورہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ صرف کرتے ہیں۔ لیکن ان میں متعدد بزرگ ایسے تھے جو خدا کی راہ میں کچھ حصہ نہیں بلکہ سب کچھ دینا چاہتے تھے؛ مثلا حضرت عمرؓ نے ایک بار خیبر میں ایک نہایت عمدہ قطعہ زمین پایا ،رسول اللہ ﷺ خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں نے ایک نہایت عمدہ جائیداد پائی ہے، اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہوا کہ اس کو خدا کی راہ میں وقف کردو، چنانچہ انہوں نے اس کو وقف کردیا، (بخاری کتاب الوصایا،باب الوقف) لیکن اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی متعدد جائدادیں وقف کیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ثمغ (بخاری کتاب الوصایا) ایک نخلستان تھا جو اسلام کی تاریخ میں پہلا وقف تھا۔ صرمہ ابن اکوع باغ کے ساتھ باغبان بھی وقف تھا۔ سودرخت نسائی میں ہے کہ انہوں نے ان کو سو غلاموں کے بدلے خریدا تھا۔ سودرخت خود رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس وقت کے متعلق ایک وقف نامہ بھی لکھا تھا جس میں حضرت حفصہ ؓ کو متولی قراردیا تھا۔ (ابوداؤد کتاب الوصایا باب فی الرجل یوقف الوقف) حضرت سعدبن عبادہؓ کی والدہ نے انتقال کیا تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری والدہ نے انتقال کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ثواب حاصل ہوگا؟ آپ نے فرمایا"ہاں" بولے تو ایک باغ ان کے نام پر وقف کرتا ہوں اورآپ کو گواہ بناتا ہوں۔ (ابوداؤد کتاب الوصایا باب فیمن مات من غیر وصیۃ یتصدق عنہ وبخاری کتاب الوصایا) حضرت کعبؓ بن مالک کی توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے اس مسرت میں اپنی تمام جائداد وقف کرنا چاہی؛ لیکن آپ کے اصرار سے خیبر کا حصہ اپنے لئے محفوظ رکھا۔ (ابوداؤد کتاب الایمان والنذدرباب فیمن نذر ان یتصدق بمالہ) جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا۔ (البقرۃ:۲۴۵) وہ کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دیتا ہے تو حضرت ابوالدحداحؓ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے باغ میں مقیم تھے، فوراً بی بی کے پاس آئے اور کہا کہ ام دحداحؓ باغ سے نکلو میں نے باغ خدا کو قرض دیدیا، یہ کہہ کر اس کو مساکین و فقراء پر وقف کردیا۔ (استیعاب تذکرہ حضرت ابوالدحداحؓ) شہروں کی آبادی صحابہ کرام نے جو جدید شہر آباد کرائے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ بصرہ خریبہ ایک غیر آباد مقام تھا جہاں اکل وشرب کا کافی سامان موجود تھا وہاں حضرت عتبہ بن غزوانؓ آئے تو اس کو فوجی ضروریات کے لئے موزوں خیال کیا اورحضرت عمرؓ سے اس کو آباد کرنے کی اجازت طلب کی انہوں نے زمین کے نقشہ اور موقع ومحل سے اطلاع دی تو حضرت عمرؓ نے بھی اس پسند فرمایا اور ان کو اس کے آباد کرنے کی اجازت دی۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے عتبہ کو خود آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا بہرحال عتبہ نے نرسل کے مکانات بنوائے اورایک مسجد تعمیر کروائی ،سرکاری کاموں کے لئے قید خانہ ،داراالامارۃ اور دفتر بھی نرسل ہی کے تعمیر کروائے ایک مدت تک یہ حال رہا کہ جب لوگ جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو نرسل کو گراکر ڈھیر لگادیتے تھے پھر جب لوٹتے تھے تو اس کو مکان کی صورت میں ترتیب دے لیتے تھے اس کے بعد لوگوں نے الگ الگ مکانات بنوائے اورحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے مسجد اور دارالامارۃ کو کچی اینٹ سے تعمیر کروایا امیر معاویہؓ کے زمانے میں زیاد نے مسجد میں بہت کچھ اصلاح اوراضافہ کیا۔ (فتوح البلدان از صفحہ ۳۵۴، ۳۵۸) کوفہ مدائن فتح ہوا تو وہاں مسلمان آباد ہوگئے اور مسجدیں تعمیر کرلیں ؛لیکن آب و ہوا نا موافق آئی تو حضرت سعد بن وقاص نے حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی ،انہوں نے لکھا کہ لوگ دوسری جگہ آباد کرائے جائیں، کوفہ کی زمین جس کو اہل عرب حذالعذرا ءیعنی عارض محبوب کہتے تھے، اس غرض کے لئے انتخاب کی گئی اورچالیس ہزار آدمیوں کے رہنے کے لئے مکانات بنوائے گئے ،جن میں یمن کے بارہ ہزار اورنزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے عمارتیں اول اول نرسل کی بنی ہوئی تھیں؛ لیکن ایک بار آتش زنی ہوئی تو حضرت عمرؓ کی اجازت سے اینٹ اورگارے کی عمارتیں تیار ہوئیں۔ مسجد جامع کے علاوہ ہر قبیلے کے لئے الگ الگ مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اورزیاد کے زمانے میں بھی کوفہ کی آبادی میں بعض تغیرات کئے گئے۔ (کوفہ کی آبادی کا حال معجم البلدان فتوح البلدان اورطبری میں بہ تفصیل مذکور ہے) فسطاط اسکندریہ فتح ہوا تو حضرت عمروبن العاصؓ نے وہاں مسلمانوں کو آباد کرنا چاہا؛ لیکن چونکہ اسکندریہ کے بیچ میں دریائے نیل حائل تھا جس کو حضرت عمرؓ ناپسند فرماتے تھے اس لئے انہوں نے اجازت نہیں دی۔ حضرت عمروبن العاصؓ اسکندریہ کی فتح کے لئے روانہ ہوئے تھے تو خیمہ کو خالی چھوڑ گئے تھے جو اسی طرح کھڑا رہا، وہ پلٹ کر اسی خیمہ میں اترے اور وہیں شہر کی بنیاد ڈالی اسی مناسبت کے لحاظ سے اس کا نام فسطاط پڑگیا جس کے معنے خیمے کے ہیں۔ قبائل میں باہم جگہ کے انتخاب میں نزاع واقع ہوئی تو حضرت عمروبن العاصؓ نے معاویہ بن خدیج، شریک بن سہمی، عمروبن مخزم اورجبرئیل بن ناشرہ مغافری کو متعین کیا کہ ہر قبیلے کو مناسب مقامات پر آباد کریں، (معجم ذکر فسطاط) تمام قبائل نے دریا اورقلعے کے سامنے مویشیوں کے لئے کچھ خالی زمینیں چھوڑی دی تھیں؛ لیکن امیر معاویہؓ کے عہد میں وہاں بھی مکانات تعمیر ہوگئے۔ (حسن المحاضرہ،جلدا،صفحہ ۵۸) موصل یہ شہر اگرچہ پہلے سے آباد تھا؛لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت ہرثمہ بن عرفجہ ؓ نے ایک قلعہ، عیسائیوں کے چند گرجے اوران گرجوں کے متصل چند مکان اوریہودیوں کے ایک محلے کو ملاکر ایک مستقل شہر آباد کیا اوروہاں ایک جامع مسجد بھی تعمیر کروائی۔(فتوح البلدان،صفحہ ۳۴۰) جیزہ حضرت عمروبن العاصؓ اسکندریہ سے واپس آئے تو اس خیال سے کہ دشمن کہیں دریا کی راہ سے چڑھ نہ آئے اس مقام پر تھوڑی سی فوج متعین کردی جس میں قبائل حمیر، ہمدان، آل رعین، ازدبن خجر اورحبشہ کے لوگ شامل تھے، لیکن جب امن و امان قائم ہوگیا تو انہوں نے ان قبائل کو بلا کر فسطاط میں آباد کرانا چاہا مگر ان لوگوں نے انکار کردیا، حضرت عمروبن العاص ؓ نے حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا اچھا ان کے لئے ایک قلعہ بنادیا جائے ان لوگوں نے اس کو بھی ناپسند کیا اورکہا کہ ہمارا قلعہ خود ہماری تلوار ہے، ان ہی لوگوں کی مجموعی آبادی سے جیزہ نے ایک مختصر شہر کی صورت اختیار کرلی، پہلے ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے الگ آباد ہوا تھا اس لئے بیچ بیچ میں زمین خالی تھی؛ لیکن حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب کثرت سے اہل عرب یہاں آئے تو ہر قبیلہ نے اپنے قبیلے کے آدمیوں کو اپنی طرف کھینچا اس وجہ سے یہ خالی مقامات بھی آباد ہوگئے ۔ (معجم ذکر جیزہ وحس المحاضرہ ،جلد۱،صفحہ ۵۹) اروبیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے میں حضرت اشعب بن قیسؓ والی آذر بیجان نے اس شہر کو آباد کیا اوربہت سے عرب لاکر یہاں بسائے اورایک مسجد بھی تعمیر کی۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۳۲۷) مرعش حضرت امیر معاویہؓ نے فوج کے لئے اس شہر کو آباد کرایا اوریزید کے زمانے تک آباد رہا، یزید کی موت کے بعد رومیوں نے پیہم غارت گری شروع کی تو یہاں کے باشندے اجڑ کر دوسرے دوسرے مقامات پر آباد ہوگئے۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۹۶) قیروان حضرت امیر معاویہؓ کے عہد میں سب سے بڑا شہر جو آباد ہوا وہ یہی تھا، اس کی آبادی کی تاریخ یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے معاویہ بن خدیج کندی کو معزول کرکے عقبہ بن نافع فہری کو افریقہ کا گورنر مقرر فرمایا تو انہوں نے ایک فوج گراں کے ساتھ حملہ کرکے افریقہ کے تمام بڑے بڑے شہر فتح کرلئے اور یہاں سے لیکر افریقہ تک اسلام پھیل گیا، اس موقع پر حضرت عقبہ ؓ نے اپنے تمام رفقاء کو جمع کرکے کہا کہ یہ لوگ مسلمان تو ہوجاتے ہیں، لیکن جب مسلمان یہاں سے واپس جاتے ہیں تو پھر مرتد ہوجاتے ہیں، اس لئے میری رائے یہ ہے کہ میں یہاں مسلمانوں کا ایک شہرآباد کردوں،لوگوں نے ان کی رائے کو پسند کیا تو انہوں نے سب سے پہلے دارالامارۃ کی بنیاد ڈالی اورلوگوں نے اس کے گرد مکانات بنوائے ،انہوں نے ایک جامع مسجد بھی تعمیر کروائی اوراس کے علاوہ اورمسجدیں بھی تعمیر ہوئی۔ (معجم البلدان ذکر قیروان) حضرت امیر معاویہؓ نے اوربھی بعض شہر آباد کرائے مثلا جزیرہ قبرص فتح ہوا تو وہاں مسجدیں تعمیر کرائیں،عرب کو لاکر بسایا اور ایک شہر آباد کیا جس کو یزید نے ویران کردیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۶۰)