انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۲۸۔سَعید بن مسیّبؒ نام ونسب سعید نام ابو محمد کنیت،نسب نامہ یہ ہے،سعید بن مسیب بن حزن بن ابی وہب بن عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب قرشی مخزومی ان کی ماں قبیلہ اسلم سے تھیں،نانہالی شجرہ یہ ہے،ام سعید بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن الاوقص اسلمیٰ ابن مسیب بڑے جلیل،القدر تابعی اوران نفوسِ قدسیہ میں تھے،جو اپنے علم وعمل کے اعتبار سے ساری دنیائے اسلام کے امام اورمقتدیٰ مانے جاتے تھے،ان کے والد مسیب اور دادا حزن دونوں صحابی تھے،فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے، آنحضرت ﷺ ایسے ناموں کو جن کے معنی میں برائی کا پہلو نکلتا ہو پسند نہ فرماتے تھے، اس لیے حزن کا نام جس کے معنی غم کے ہیں بدل کر سہیل رکھنا چاہا،لیکن حزن نے جن میں اس وقت تک قدامت پرستی کا جذبہ باقی تھا،یہ عذر کیا کہ یا رسول اللہ یہ نام والدین کا رکھا ہوا ہے اور اس نام سے مشہور بھی ہوچکا ہوں اس لیے اس کو نہ بدلے ان کے عذر پر آنحضرتﷺ نے رہنے دیا،لیکن اس نام کی نحوست کا یہ اثر تھا کہ سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ غمگینی چھائی رہی۔ (ابن سعد:۵/۸۸) پیدائش باختلاف روایت ۲یا ۴ جلوس عمری میں سعید بن مسیب پیدا ہوئے ایک بیان یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ کی وفات سے دو سال پہلے تولد ہوئے،لیکن پہلی روایت زیادہ معتبر ہے۔ (ابن سعد:۵/۸۸) عہدمعاویہ ابن مسیب خلافتِ راشدہ کے آخری دور میں بالکل کم سن تھے،اس لیے اس عہد کا ان کا کوئی واقعہ قابلِ ذکر نہیں ہے، امیر معاویہ کے زمانہ میں بھی وہ عملی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتے،بعض روایات سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحصیل علم سے فارغ ہوکر مسند علم وافتا کی زینت بن چکے تھے۔ (ایضاً:۹۰) ابن زبیر کی بیعت سے اختلاف عبداللہ بن زبیر کے زمانہ سے ان کے حالات کا پورا پتہ چلتا ہے اوراس کا آغاز ان کی حق گوئی سے ہوتا ہے وہ ایسے حق گو اورحق پرست تھے کہ خلفاء اور سلاطین کے مقابلہ میں بھی ان کی زبان خاموش نہ رہتی تھی؛چنانچہ ان کی تاریخ کا آغاز ہی خلفاء کے ساتھ اختلاف سے ہوتا ہے،عبداللہ بن زبیرؓ نے جب خلافت کا دعویٰ کیا اور جابر بن اسود، اہل مدینہ سے ان کی بیعت لینے کےلیے آیا ،تو ابن مسیب نے اختلاف کیا اورکہا جب تک تمام مسلمانوں کا کسی شخص پر اتفاق نہ ہوجائے،اس وقت تک کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنی چاہئے۔ کوڑوں کے مقابلہ میں اعلانِ حق ابن مسیب مدینہ کے ممتاز ترین بزرگ تھے،ان کی مخالفت کے معنی یہ تھے کہ مدینہ سے ایک ہاتھ بھی بیعت کے لیے نہ بڑھنا،اس لیے جابر نے حکومت کے گھمنڈ میں آپ کو کوڑوں سے پٹوایا ،لیکن آپ کی حق گو زبان جبر وتشدد سے رکنے والی نہ تھی ؛چنانچہ وہ عین سزا کی حالت میں بھی اعلان حق کرتی رہی،جابر کے چار بیویاں تھیں ایک کو اس نے طلاق دے کر عدت گزرنے سے پہلے پانچویں شادی کرلی تھی،جو صریحاً حرام ہے؛چنانچہ ٹھیک اس وقت جب ان پر کوڑے برس رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ کتاب اللہ کا حکم سنانے سے مجھے کوئی چیز نہیں روک سکتی،خدا فرماتا ہے : فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ اور تونے چوتھی کی عدت ختم ہونے سے قبل پانچویوں عورت سےشادی کرلی جو تیرے دل میں آئے کر گزر،عنقریب تجھ پر برا وقت آنے والا ہے،اس واقعہ کے تھوڑےہی دنوں کے بعد عبداللہ بن زبیرؓ قتل ہوگئے (ابن سعد:۵/۹۱) ابن زبیرؓ کو اپنے مقتول ہونے سے پہلے ابن مسیب کے ساتھ جابر کی اس گستاخی کا علم ہوچکا تھا،وہ ان کے مرتبہ شناس تھے اس لیے انہوں نے جابر کو خط لکھ کر سخت تنبیہ کی اورلکھا کہ ان سے کوئی تعرض نہ کرو۔ (ایضاً:۹۰) عبدالملک سے اختلاف عبداللہ بن زبیر کے بعد عبدالملک خلیفہ ہوئے،اس کے ساتھ بھی ابن مسیب کا اختلاف قائم رہا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ اموی حکومت کا بانی اورمجدد مروان بن حکم اپنے بعد علی الترتیب عبدالملک اوراس کے بعد اس کے بھائی عبدالعزیز کو خلیفہ بنا گیا تھا،مروان کے بعد عبدالملک کی نیت میں فتور پیدا ہوا،اس نے عبدالعزیز کو ولیعہدی سے خارج کرکے اپنے لڑکوں ولید اورسلیمان کو ولیعہد بنانا چاہا،لیکن پھر قبیصہ بن ذویب کے سمجھانے سے کہ اس میں آپ کی بڑی بدنامی ہے رک گیا عبدالملک کی خوش قسمتی سے چند ہی دنوں کے بعد عبدالعزیز کا انتقال ہوگیا۔ (ابن سعد:۵/۹۲) عبدالعزیز کے انتقال کے بعد عبدالملک کے لیے میدان بالکل صاف ہوگیا اور اس نے ولید اورسلیمان کو ولیعہد بناکر ان کی بیعت کے لیے صوبہ داروں کے نام فرمان جاری کردیئے ؛چنانچہ ہشام بن اسمعیل والی مدینہ نے اہل مدینہ سےبیعت لے کر سعید بن مسیب کو بلایا انہوں نے کہا میں بغیر سوچے سمجھے بیعت نہیں کرسکتا،ایک بیان یہ ہے کہ انہوں نے جواب یہ دیا کہ میں عبدالملک کی زندگی میں دوسری بیعت نہیں کرسکتا۔ (ابن سعد:۵/۹۲) کوڑوں کی مار اورقید کی سزا ان کے اس جواب پر ہشام نے انہیں کوڑوں سےپٹوایا اورتشہیر کراتے ہوئے راس الثینہ تک جہاں مجرموں کو سولی دی جاتی تھی،بھیجا ،سعید بن مسیب سولی کے لیے تیار ہوکر گئے تھے؛چنانچہ سولی کے وقت ستر کھل جانے کے خیال سے جانگھیا پہن لی تھی،لیکن راس الثینہ لے جانے کا منشاء غالباً محض تخویف تھا،اس لیے وہاں لے جاکرواپس لے آئے ابن مسیب نے پوچھا،اب کہاں لیے جاتے ہو،جواب ملا قید خانہ؛چنانچہ واپس لاکر قید کردیئے گئے اور ہشام نے اپنی اس کارگزاری کی اطلاع بارگاہ خلافت میں بھجوادی۔ (ابن سعد:۵/۹۳) استقلال قید خانہ میں انہیں سمجھا بجھا کر رام کرنے کی کوشش کی گئی؛چنانچہ ابوبکر بن عبدالرحمن نےان سے مل کر کہا سعید تم بالکل سٹھیا گئے ہو،انہوں نے جواب دیا ابوبکر خدا سے ڈرو اوراس کو سب قوتوں سے بڑھ کر سمجھو،ابو بکر برابر یہی کہتے رہے کہ تم تو اورزیادہ سٹھیا گئے ہو کسی طرح نرم ہی نہیں پڑتے،آخر میں ابن مسیب نے جواب دیا خدا کی قسم تمہارے دل اورآنکھ دونوں کی روشنی جاتی رہی ہے،یہ جواب سن کر ابوبکر واپس چلے گئے،ہشام نے بچھوا بھیجا کہ سعید مار کے بعد کچھ نرم پڑے، ابوبکر نے جواب دیا تمہارے اس سلوک کے بعد سے خدا کی قسم وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیں،اب اپنا ہاتھ روک لو۔ (ایضاً:۹۴) رہائی قبیصہ بن ذویب عبدالملک کے پرائیویٹ سکریڑی تھے،تمام شاہی ڈاک پہلے ان کے پاس آتی تھی،یہ پڑھنے کے بعد اس کو عبدالملک کے سامنے پیش کرتے تھے؛چنانچہ ہشام کا خط بھی جس میں اس نے عبدالملک کو اپنی کار گزاریوں کی اطلاع دی تھی پہلے قبیصہ کے ہاتھ میں پڑا،یہ بڑے عاقبت اندیش، مصلحت شناس،اورسعید بن مسیب کے مرتبہ شناس تھے اس لیے ہشام کی کارگزاری پڑھ کر بہت برہم ہوئے اوراسی وقت عبدالملک کے پاس خط لے جاکر کہا امیر المومنین ہشام خودرائی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے،ابن مسیب کو اس طرح مارتا اوران کی تشہیر کرتا ہے،خدا کی قسم وہ اس تشدد اورمارسے اورزیادہ سخت ہوجائیں گے،اگر وہ بیعت نہ کریں تب بھی ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جن سے رخنہ اندازی یا اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کی برائی کا خطرہ ہو،وہ اہل سنت والجماعۃ میں ہیں،آپ خود سعید کو اس کی معذرت لکھیے، عبدالملک نے کہا تم ہی اپنی طرف سے لکھ دواور یہ ظاہر کردو کہ ہشام نے میرے منشاء کے خلاف یہ کاروائی خود کی ہے؛چنانچہ قبیصہ نے اسی وقت ابن مسیب کو خط لکھ دیا، انہوں نے اسے پڑھ کر کہا کہ جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اس کے اورمیرے درمیان خدا ہے۔ (ابن سعد:۵/۹۳) ابن مسیب کو خط بھجوانے کے بعد عبدالملک نے ہشام کو بھی ایک تنبیہ اورملامت آمیز خط بھیجا اورلکھا کہ خدا کی قسم ابن مسیب کے مارے جانے کے بجائے صلح رحم کے زیادہ مستحق ہیں ،مجھ کو خوب معلوم ہے کہ ان سے کسی مخالفت اورتفرقہ کا خطرہ نہیں ہے (ایضاً) یہ خط پڑھ کر ہشام سخت نادم اورشرمسار ہوا اورابن مسیب کو رہا کردیا۔ (ایضاً:۹۴)