انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ایران کی اسلامی تاریخ کا اجمالی تتمّہ دولتِ صفاریہ تاریخ اسلام کے سلسلہ میں اب تک جس ترتیب کے ساتھ حالات بیان ہوئے ہیں، اُن میں ایران کی تاریخ کا بہت بڑا اورضروری حصہّ بیان ہوچکا ہےلیکن جن لوگوں نے صرف ایران ہی کی اسلامی تاریخیں لکھی ہیں،انہوں نے واقعات کے قلمبند کرنے میں دوسری ترتیب ملحوظ رکھی ہے،جو اُن کے لئے موزوں بھی تھی،ہندوستان کے مسلمانوں کو دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلہ میں ایران کی تاریخ سے ہمیشہ خصوصی تعلق رہا ہے،اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب تک بیان کردہ واقعات میں تفریق ترتیب کے سبب سے جو کمی رہ گئی ہے اُس کو نہایت اختصار کے ساتھ پورا کردینے کی کوشش کی جائے۔ ایران کی تاریخوں میں خلفا کی براہِ راست حکومت کے بعد سب سے پہلے خاندان صفاریہ کی خود مختارانہ سلطنت کا بیان لکھا گیا ہے،اس خاندان کے حکمرانوں کا حال جو کچھ اوپر کے ابواب میں بیان ہوچکا ہے،اختصار کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس پر اس جگہ کسی اضافہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی،ہاں اس قدر اشارہ کردینا ضروری ہے کہ خاندان عباسیہ نے خلافت کے حاصل کرنے میں چونکہ ایرانیوں سے زیادہ امداد حاصل کی تھی،لہذا انہوں نے ایرانیوں کے اقتدار واثر کو بڑھانے اور عربوں پر چیرہ دست بنانے میں کوئی تامل نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوب ایرانیوں کو خود غلبہ پانے اوراپنی حکومت قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا، اورابو مسلم خراسانی اوربرامکہ وغیرہ کو شاہانہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی،لیکن جب تک عباسی خاندان میں فاتحانہ اورسپاہیانہ جذبات باقی رہے ایرانی اپنے مقصد میں کماحقہ کامیاب نہ ہوسکے،خلفائے عباسیہ کی عیش پرستی وکمزوری نے جب ایرانیوں کے لئے اُن کی اولوالعزمیوں کے پورا ہونے کا راستہ صاف کردیا تو سب سے پہلے یعقوب بن لیث جس کے خاندان میں ٹھٹھیرے کا پیشہ ہوتا تھا اوراسی لئے وہ صفار کے نام سے پُکارا جاتا تھا،اپنی خود مختار حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، یعقوب بن لیث کو یہ کامیابی محض اُس کے سپاہیانہ اخلاق وخدمات کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی،یعقوب بن لیث صفار دوست نوازی،سخاوت اورسادہ زندگی بسر کرنے میں اپنا نظیر نہ رکھتا تھا اور اُس کے انہیں صفات واخلاق میں اُس کی کامیابی کا راز مضمر تھا،اُس کے پاس جو کچھ ہوتا تھا،اپنے دوستوں کو کھلا پلا دیتا تھا،خود تکلیف اُٹھا کر دوستوں کو راحت پہنچانے کا شوق رکھتا تھا،اس لئے اُس کو اپنے جاں نثاروں کی جمعیت فراہم کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی، اُس نے اپنے لڑکپن کے دوستوں کو اپنی بادشاہت کے وقت مطلق فراموش نہیں کیا اورسب کو اعلیٰ مدارج پر پہنچایا،بادشاہت کی حالت میں بھی وہ ایک معمولی سپاہی کے لباس میں نظر آتا تھا،معمولی سپاہیوں کی طرح زمین پر سونے اورخندق کھودنے سے اُس کو عار نہ تھا، اس کے خیمے اورایک معمولی سپاہی کے خیمے میں کوئی فرق نہ ہوتا تھا، اُس کو عیاشی وبد چلنی سے سخت نفرت تھی اور استقلال اولوالعزمی اُس کے ہر ایک کام اور ہر ایک بات سے ٹپکتی تھی،یہی سبب تھا کہ وہ نہایت پست اورادنی درجہ سے ترقی کرکے ملک ایران کے بہت بڑے حصے کا مطلق العنان فرماں روا بن گیا تھا اوربغداد کا دربار خلافت اُس کے استیصال پر قادر نہ ہوسکا تھا۔ یعقوب بن لیث صفار کی وفات کے بعد اُس کا بھائی عمروبن لیث صفار بھائی کا جانشین ہوا اوراُس نے اپنی حدود حکومت کو اوربھی وسیع کردیا،عمرو بن لیث میں اگرچہ اپنے بھائی کی نسبت عقل ودانائی زیادہ بیان کی جاتی ہے،مگر وہ اُن سپاہیانہ اخلاق اورسادہ زندگی بسر کرنے میں اپنے بھائی سے کمتر تھا،خلیفہ معتمد کے بھائی موفق نے ایک مرتبہ اُس کو شکست بھی دی مگر اُس نے جلد اپنی حالت کو پھر درست کرلیا اوردربارِ خلافت کے لئے وبالِ جان بن گیا،آخر خلیفہ نے ماورالنہر کے حاکم اسمعیل سامانی کو عمرو بن لیث کے مقابلہ پر آمادہ کی،عمرو بن لیث ستر ہزار سوار لے کر اسمعیل سامانی کے استیصال پر آمادہ ہوا اوردریائے جیحون کو عبور کیا،اسمعیل سامانی صرف بیس ہزار سواروں کے ساتھ مقابلہ پر آیا،عین معرکۂ جنگ کے وقت عمروبن لیث کا گھوڑا اپنے سوار کی منشا کے خلاف اُس کو اسمعیل سامانی کے لشکر میں لے گیا اوروہاں وہ بڑی آسانی سے گرفتار کرلیا گیا۔ صیدراچوں اجل آیدسوئے صیّادرود اسمٰعیل سامانی نے عمرو کو گرفتار کرکے بغداد بھیج دیا اور اس طرح دولت صفاریہ کی عظمت وشوکت کا قریباً خاتمہ ہوگیا،یعقوب بن لیث اورعمرو بن لیث میں سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ یعقوب ایک صعوبت کش اورسوکھی روٹیاں چبا کر گذر کرلینے والا سپاہی تھا اورعمروبن لیث ایک شان وشوکت اورسامانِ عیش کے ساتھ بسر کرنے والا بادشاہ تھا اس جگہ ایک للطیفہ کا نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جس روز عمروبن لیث گرفتار ہواہے اُس روز صبح کے وقت اُس کے باورچی نے عرض کیا کہ باورچی خانہ کا سامان اُٹھا نے کے لئے تین سو اونٹ ناکافی ہیں،مجھ کو باربرداری کے کچھ اونٹ اوردئیے جائیں، اسی شام کو جب کہ عمر بن لیث گرفتار ہوچکا تھا،اُس نے اپنے باورچی سے جو اُس کے ساتھ قید خانہ میں موجود تھا،تھوڑا سادلیا پانی ڈال کر پکنے کے لئے چولہے پر چڑھا دیا،اُس کے سوا اورکوئی چیز موجود نہ تھی،عمرو بن لیث دلئے کے پکنے کا انتظار نہایت بے صبری کے ساتھ کررہا تھا ، باورچی نے ہانڈی چولھے سے اُتار کر رکھی اور کسی ضرورت سے دوسری طرف متوجہ ہوا کہ اتنے میں ایک کتا آیا ،ہانڈی کا کنارہ منہ میں پکڑ کر اوراُٹھا کر چل دیا،عمروبن لیث نے جب کتے کو ہانڈی لے جاتے ہوئے دیکھا تو اپنے باورچی کو آواز دے کر کہا کہ صبح تو شکایت کررہا تھا کہ باورچی خانہ کا سامان اٹھا کر لے چلنے کے لئے تین سو اونٹ ناکافی ہیں،اب دیکھ لے کہ ایک کتا میرا سارا باورچی خانہ اٹھائے ہوئے لے جاراہا ہے۔ عمرو بن لیث کے بعد اُس کی اولاد نے چند سال تک علاقۂ سیستان کے محدود رقبہ میں اپنی اپنی برائے نام حکومت قائم رکھی، یعقوب بن لیث صفار کا نواسا جس کا نام خلف تھا،محمود غزنوی کے زمانہ تک سیستان میں برسرِ حکومت رہا، خلف کے بیٹے نے باپ کے خلاف مخالفت کا عَلَم بلند کیا،خلف نے اپنے آپ کو بیٹے کے مقابلے میں کمزور دیکھ کر اُس کو دھوکے سے قتل کیا،باشندگانِ سیستان نے سلطان محمود غزنوی کی خدمت میں خلف کے خلاف شکایات کی عرضیاں بھیجیں اورلکھا کہ آپ ہم کو خلف کے مظالم سے نجات دلائیے،سلطان محمود غزنوی نے چڑھائی کی،خلف نے مقابلہ میں اپنے آپ کو مغلوب اوراپنے قلعہ کو مفتوح دیکھ کر سلطان محمود کی خدمت میں حاضر ہوکر رکاب کا بوسہ دیا اور اپنی داڑھی سلطان کے پاؤں سے مل کر کہا اے سلطان مجھ کو معاف کردے،محمود غزنوی کو خلف کی زبان سے اپنی نسبت لفظ ‘‘سلطان’’ پسند آیا اورآئندہ اس لفظ"سلطان"کو اپنا لقب قراردیا،خلف کو اورکوئی سزا نہیں دی،اسی قدر کافی سمجھا کہ اُس کو اپنے ہمراہ غزنین نے گیا،جہاں چار سال رہ کر خلف نے وفات پائی،اس طرح دولتِ صفاریہ کا خاتمہ ہوا۔