انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بعض غیر مستند روایات پر تنقید اوپر کے واقعات سے اہل بیت نبویﷺ کے ساتھ یزید کے برتاؤ کا پورے طور پر اندازہ ہوجاتا ہے اوران بے سروپا انسانوں کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے، جن سے مخدرات عصمت مآب کی سخت توہین ہوتی ہے، البتہ دو ایک واقعات ضرور اس قسم کے ملتے ہیں،جو نازیبا کہے جاسکتے ہیں اوریقیناً قابل ملامت ہیں؛ لیکن ان واقعات کی صحت ہی محلِ نظر ہے،بہرحالت وہ واقعات ہم اس موقع پر بجنسہ نقل کرتے ہیں: ایک واقعہ یہ ہے کہ فاطمہ بنت علیؓ نوخیز اورخوبصورت تھیں، جب خاندان نبویﷺ کی مستورات یزید کے سامنے پیش کی گئیں تو فاطمہؓ کو دیکھ کر ایک شامی وحشی نے کہا، امیر المومنین یہ لڑکی مجھے دیدیجئے اس کی فرمایش پر فاطمہؓ ڈر گئیں اوراپنی بڑی بہن کا کپڑا پکڑلیا، زینبؓ ان سے عمر میں بڑی تھیں، وہ جانتی تھیں کہ یزید شرعا ًفاطمہؓ کو کسی کے حوالہ نہیں کرسکتا، اس لئے انہوں نے اس شامی کو ڈانٹا تو جھوٹ بکتا ہے، اگر تو مر بھی جائے تو یہ لڑکی نہ تجھ کو مل سکتی ہے اور نہ یزید کو چونکہ زینبؓ نے جواب میں یزید کو بھی شامل کرلیا تھا، اس لئے یزید نے کہا تم جھوٹ کہتی ہو، اگر میں چاہوں تو اس لڑکی کو لے سکتا ہوں، زینبؓ نے پھر کہا جب تک تم ہمارا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار نہ کرلو، اس وقت تک تمہارے لئے ہر گز یہ جائز نہیں (یعنی مال غنیمت کے طورپر مسلمان عورت پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا) اس پر یزید اورزیادہ برہم ہوگیا اورکہا یہ خطاب مجھ سے ہے میں دین سے نکلوں یا تمہارے باپ اور بھائی دین سے نکلے تھے،زینبؓ نے کہا،خدا کے دین، میرے باپ کے دین، میرے نانا کے دین سے تم کو، تمہارے باپ کو اورتمہارے دادا کو ہدایت ملی، یزید نے کہا دشمن خدا تو جھوٹ کہتی ہے،زینبؓ نے جواب دیا تو تو جابرا میرہے، اس لئے ظلم سے برا کہتا ہے اوراپنی بادشاہت کے زعم میں استبداد کرتا ہے، اس جواب پریزید شرما کر خاموش ہوگیا ،شامی نے پھر کہا امیر المومنین! یہ لڑکی مجھے عنایت ہو،شامی کے دوبارہ کہنے پر یزید نے اس کو ڈانٹا کہ خدا تجھ کو موت دے اورکبھی تجھے بیوی بھی نصیب نہ ہو۔ (گویہ طبری کی روایت ہے لیکن اس کاروای حارث بن کعب شیعہ ہے اس لئے ظاہر ہے کہ یزید کی مخالفت میں اس روایت کا کیا پایہ ہوگا اس کی تدلیس کا اندازہ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ یہی واقعہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بھی لکھا ہے مگر اس میں یزید کی اس تلخ گفتگو کا کوئی ذکر نہیں؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ جب اہل بیت کا قافلہ یزید کے پاس پہنچا تو جو شامی وہاں تھے وہ یزید کے پاس فتح کی مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے، ان میں سے ایک سرخ رنگ کے آدمی نے اہل بیت کی ایک لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا امیر المومنین! یہ لڑکی مجھے دے دیجئے، زینبؓ بولیں، خدا کی قسم یہ لڑکی نہ تجھ کو مل سکتی ہے اورنہ خود یزید کو، جب تک وہ اللہ کے دین سے نہ نکل جائے، شامی نے دوبارہ پھر سوال کیا مگر یزید نے روک دیا۔ اس روایت میں یزید کی سخت کلامی کا مطلق تذکرہ نہیں اور اس واقعہ میں جو بد نمائی تھی وہ بھی بالکل نہیں پائی جاتی، درایۃ ًبھی یہ روایت خلاف قیاس ہے؛ کیونکہ جس لڑکی کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس کا نام فاطمہ بنت علیؓ بتایا ہے اوراس کے لئے جاریہ کا استعمال کیا گیا ہے یعنی وہ اس وقت بہت کم سن لڑکی تھی، حالانکہ اس وقت فاطمہ بنت علیؓ کی عمر ۲۴،۲۵ سال سے کم نہ رہی ہوگی، کیونکہ حضرت علیؓ ۴۰ھ میں شہید ہوئے اور ۶۱ھ کا یہ واقعہ ہے اس لئے اگر حضرت علیؓ کی وفات کے وقت فاطمہؓ کی عمر دو تین سال بھی مانی جائے،تب بھی ۶۱ھ میں ۲۴ سال کی ہوگی اورجاریہ سے گزر کر وہ پوری بال بچوں والی عورت ہوں گی،کیونکہ جاریہ کمسن اورنوخیزہ لڑکی کو کہتے ہیں اس لحاظ سے سرے سے اس واقعہ کی صحت ہی مشتبہ ہوجاتی ہے۔ دوسرا مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب یزید کے سامنے حضرت حسینؓ کا سر لایا گیا تو اس نے چھڑی سے دندانِ مبارک کو ٹہونکا دیا، مگر یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے یہ واقعہ ابن زیاد کا ہے جس کو غلط فہم راویوں نے یزید کی طرف منسوب کردیا۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بالکل جھوٹ ہے، کیونکہ جن صحابہ سے یہ واقعہ مروی ہے وہ شام میں موجود ہی نہ تھے۔ ان دو واقعوں کے علاوہ اورکوئی قابل ذکر واقعہ کسی مستند تاریخ میں مذکور نہیں ہے باقی عام طورپر جو پردروافسانے شہادت ناموں میں ملتے ہیں وہ محض مجالسِ عزا کی گرمی کے لئے گھڑ لئے گئے ہیں کہ ع:بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستان کے لئے،ورنہ تاریخی حیثیت سے ان کی کوئی حقیقت نہیں ؛البتہ حضرت علیؓ اورحضرت حسینؓ پر چوٹ اور طعن وطنز کی بہت سی مثالیں ہیں، لیکن یہ تمام باتیں یزید کے ساتھ مخصوص نہیں ؛بلکہ امیر معاویہؓ اورعمر بن عبدالعزیزؓ کے سوا شروع سے آخر تک قریب قریب تمام اموی فرما نروا اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور یہ ان کی خاندانی چشمک کا نتیجہ تھا۔