انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حسینؓ اورعمر بن سعد اس کے بعد حضرت حسینؓ نے ابن سعد کے پاس کہلا بھیجا کہ میں رات کو کسی وقت اپنے اورتمہارے لشکر کے درمیان تم سے ملنا چاہتا ہوں، آپ کی اس خواہش پر ابن سعد بیس آدمیوں کو لیکر موجودہ مقام پر ملنے کیلئے آیا حضرت حسینؓ کے ساتھ بھی بیس آدمی آئے تھے،لیکن آپ نے انہیں علیحدہ کردیا، آپ کی تقلید میں ابن سعد نے بھی اپنے آدمی ہٹادیئے اور دونوں میں رات کی تنہائی میں بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی یہ گفتگو کیا تھی اس کا صحیح علم کسی کو نہیں ،لوگوں نے مختلف قیاسات لگائے ہیں بعض راویوں کا بیان ہے کہ حضرت حسینؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی اپنی فوجیں یہیں چھوڑ کر یزید کے پاس چلے چلیں ابن سعد نے کہا میرا گھر گرادیا جائے گا فرمایا میں بنوادوں گا،ابن سعد نے کہا میری جائداد ضبط کرلی جائے گی،فرمایا میں اس سے بہتر جائداددونگا، لیکن ابن سعد کسی قیمت پر ساتھ جانے کے لئے آمادہ نہ ہوا، دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے جہاں سے آیا ہوں واپس جانے دو،یا یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے دو، پھر اس کے بعد وہ خود کوئی فیصلہ کریگا، یا کسی سرحدی مقام پر بھیج دو۔ (طبری:۳۱۲،۳۱۴) پہلی روایت تو خیر قابل قیاس ہے،اس لئے صحیح سمجھی جاسکتی ہے، لیکن دوسری روایت راویۃ اور درایۃ دونوں حیثیتوں سے کمزور ہے اورناقابل اعتبار ہے،اس کی روایتی حیثیت یہ ہے کہ اس روایت کا ایک راوی مجالد بن سعید محدثین کے نزدیک پایۂ اعتبار سے ساقط ہے، حافظہ ذہبی اورابن حجر دونوں نے اس پر جرح کی ہے (میزان الاعتدال:۳/۸،تہذیب التہذیب:۱/۳۹) اس کے علاوہ عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ میں مدینہ سے مکہ اورمکہ سے عراق تک برابر حضرت حسینؓ کے ساتھ رہا اورشہادت تک ان سے جدانہ رہا، مگر آپ نے مدینہ میں مکہ میں راستہ میں عراق میں لشکر گاہ میں غرض شہادت تک کہیں بھی کسی گفتگو میں کوئی ایسا خیال ظاہر نہیں فرمایا، جس سے ظاہر ہوتا کہ آپ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے یا کسی سرحدی مقام پر نکل جانے کے لئے آمادہ تھے ،آپ نے ہمیشہ یہی فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو، خدا کی زمین بہت وسیع ہے کہیں چلا جاؤنگا جب تک لوگ کوئی فیصلہ نہ کرلیں۔ درایتی حیثیت یہ ہے کہ ابن زیاد کا تو یہی حکم تھا کہ اگر حسینؓ بیعت کرلیں تو ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے اورابن سعد بھی دل سے یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح جنگ کی نوبت نہ آنے پائے ؛چنانچہ اس نے اسے ٹالنے کی پوری کوشش کی تھی اورابن زیاد کو لکھا تھا کہ حسینؓ واپس جانے پر آمادہ ہیں،لیکن ابن زیاد نے جواب دیا تھا کہ اب وہ بغیر بیعت کے واپس نہیں جاسکتے بیعت کے بعد پھر دیکھا جائے گا یہ جواب سن کر ابن سعد نے کہا تھا یہ امن و عافیت نہیں چاہتا، اس لئے حضرت حسینؓ کے بیعت پر آمادہ ہوجانے کے بعد ابن سعد کا اس کو نامنظور کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔