انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسلوب جامعیت دیانت کے تین محال ہیں: ۱۔ دیانت Honesty اور نفاق hypocracy مقابلے کے الفاظ ہیں: (۱)زبان دیانت پر ہو تو اس سے سچ نکلتا ہے جھوٹ نہیں (۲)نیت دیانت پر ہو تو انسان آئندہ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا کہ دل میں اس کے خلاف ہو (۳)عمل دیانت پر ہو تو انسان کسی کی امانت اوراس کے حق میں خیانت نہیں کرتا،ظاہر ہے کہ نفاق کے موضوع بھی تین ہی ہونگے، زبان، نیت اورعمل، آنحضرتﷺ نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ"۔ (بخاری،باب علامۃ المنافق،حدیث نمبر:۳۲) ترجمہ:منافق کے تین نشان ہیں،بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو الٹ کرے (پہلے سے نیت ہو کہ پورا نہ کرونگا) اورجب اس کے پاس کسی کی امانت (یاحق) ہو تو وہ خیانت کرے)۔ جس شخص میں ان میں سے کوئی عیب ہو، اس میں یہ علامت نفاق ہے اورجس میں یہ سب صفات پائی جائیں اس کے پکا منافق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الایمان میں لائے ہیں، کتاب الادب میں نہیں۔ اس حدیث نے کس طرح نفاق کے مضامین کا احاطہ کیا ہے،یہ آپ کے سامنے ہے، اس جامعیت سے بات کرنا آپ کو کلام رسالت میں ہی ملے گا؛ یہی اسلوب حدیث ہے۔ ۲۔ انسان خواہشات کا پتلا ہے،اپنی چیز دوسروں سے سمیٹ کر رکھتا ہے اپنے خیال، رائے کو پختہ سمجھتا ہے،خواہش نفسانی (ھوی)اپنے کو سمیٹ کر رکھنا(بخل) اور ہربات میں اپنی رائے دینا ہے،یہ انسان کی فطرت تھی،آنحضرتﷺ نے اُن پرروک اورقد غن نہیں لگائی، یہ نہ فرمایاکہ اس میں خواہش نہ ابھرے جذبہ بخل نہ ابھرے اوروہ ہر بات میں اپنی رائے قائم نہ کرے، آپ نے فطری تقاضوں پر زنجیریں نہیں لگائیں، فرمایا: "أماالمهلكات: فهوى متبع وشح مطاع واعجاب المرء بنفسه"۔ (مشکاۃ المصابیح،باب السلام،الفصل الاول،حدیث نمبر:۵۱۲۲) ترجمہ: انسان کو ہلاک کرنے والی چیزیں تین ہیں،خواہش جب اس کی پیروی کی جائے،بخل جب انسان اس پر عمل کرے اوررائے جب انسان اسی کو اچھا سمجھے۔ غور کیجئے، نکیر ھویٰ پر نہیں اس کی اتباع پر ہے،بخل پر نہیں،اس کی پیروی پر ہے، رائےپر نہیں اس کے اعجاب پر ہے،اتنا محتاط اورجامع کلام صاحب جوامع الکلم کے سوا اورکس کا ہوسکتا ہے،یہ مہلکات کا بیان تھا،اب منجیات کو بھی دیکھ لیجئے: انسانی زندگی دوحصوں میں منقسم ہے، پرائیوٹ زندگی اورپبلک زندگی؛ پھر ہر شخص کی زندگی پر دو حالتیں ضرور آتی ہیں،کبھی رضا مندی، کبھی غصہ اورپھر کبھی آسودگی اورپھر کسی وقت محتاجگی،زندگی کا کوئی حصہ ہو،پرائیویٹ یا پبلک، اللہ کا ڈر ہر حال میں ہونا چاہئے اورپھر رضا مندی پر یا غصہ،بات ہمیشہ حق ہونی چاہئے، اورحالت آسودہ ہو یا احتیاج کی میانہ روی ہرحال میں بہتر ہے، حضرت ابوہریرہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فأما المنجيات: فتقوى الله في السر والعلانية والقول بالحق في الرضى والسخط والقصد في الغنى والفقر"۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر:۵۱۲۲، الناشر: المكتب الإسلامي،بيروت) ترجمہ:منجیات (نجات دلانے والی اشیاء) باطن اورظاہر میں اللہ سے ڈرنا ہے،خوشی اورسختی ہر حال میں سچ بات کہنا ہے اوردولت مندی ہو یا محتاجگی ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا ہے۔ ۳۔ادبی ملاحت کا اسلوب: آپ نے فرمایا: "كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ"۔ (بخاری،باب قول اللہ تعالی ونضع المواذین،حدیث نمبر:۷۰۰۸) اسماء بنت عمیس کہتی ہیں،حضورﷺ نے فرمایا: "بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ"۔ (سنن الترمذی،باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض،حدیث نمبر:۲۳۷۲) ترجمہ: برا بندہ وہ ہے جو اپنے خیال میں لگا رہے اوراپنے کو بڑا سمجھے اوراللہ تعالی برتر و بالا کوبھول جاے، اور برا بندہ وہ ہے جو سختی کرے اور حد سے نکلے اور جبار اعلی کو بھول جائے کہ کوئی اس پر بھی سختی کرنے والا ہے، اور برا بندہ وہ ہے جو اطاعت الہٰی سے غافل ہوا اور لا یعنی میں مشغول ہو اور بھول جائے قبروں کو اور کفن کے پرانا ہونے کو اور برابندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور سرکش ہو اور اپنے اول اورآخر کو بھول جائے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کو دنیا کے ذریعہ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کوشبہات کے ساتھ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جس کو لالچ چلاتا رہے اور برا بندہ وہ ہے جسے خواہشات نے رستے سے بچلا رکھا ہو، اور برا بندہ وہ ہے جس کو اس کی رغبتیں (خواہشات ) ذلیل کراتی رہیں ،اوکما قالﷺ ۔ آپ نے اس حدیث میں برے لوگوں کے نوعنوان ذکر فرمائے، نو سب سے بڑا عدد ہے، ان عنوانوں میں سے ہر ایک ادبی پارہ ہے اور ہدایت ربانی کا ایک اچھلتا فوارہ ہے، حدیث کا یہ ادبی اسلوب معاشرے کے ہر پہلو کو چھورہا ہے، احکام کی احادیث میں بات کی وضاحت آپ کے پیش نظر ہوتی ہے؛ لیکن نصائح کے موقعہ پر بات کی صحت کے علاوہ آپ کی قوت تاثیر بھی اسلوب میں لپٹی ہوتی ہے۔ ۴۔مثال دیکر بات کو واضح کرنا اور شرعی امور کے کوئی نقشے سامنے لے آنا، یہ آپ کا نمایاں پیرائی ہدایت تھا، عرب کے امیوں میں اس خاص نہج پر کام کرنے کی بہت ضرورت تھی،آپ نے دقیق فسلفیانہ کلام کے بجائے عام اور فطری پیرایہ بیان اختیار فرمایا آپ کی زیادہ توجہ اس پر ہوتی تھی کہ حق کس طرح حق تعالی کے بندوں میں اتر آئے اوران کے دل و دماغ اسلام کی اس فطری روشنی سے منور ہوجائیں۔