انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسئلہ فاتحہ خلف الامام امام بخاریؒ امام کے پیچھے الحمد للہ پڑھنے میں بھی حضرت امام شافعیؒ کے مسلک پر تھے، امام کے پیچھے الحمد للہ پڑھنے کی صریح حدیثیں جوجامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہیں سنداً صحیح نہ تھیں؛ چہ جائیکہ صحیح بخاری کی شرطوں پر پوری اُترتیں، امام بخاریؒ کواپنے ترجمۃ الباب کی مطابقت کے لیے ان کی اشد ضرورت ہے؛ مگرحضرت امام کی امانت اور دیانت دیکھئے، وہ اِن ضعیف حدیثوں کوصحیح بخاری میں نہیں لائے، آپ حضرت عبادہ بن صامتؓ (۳۴ھ) کی صرف اتنی حدیث نقل کرتے ہیں جوسنداً صحیح ہے اور ان کی شرطوں کے مطابق ہے اور اس میں امام کے پیچھے ہونے کی کوئی تصریح نہیں، صحیح بخاری میں اِس کے الفاظ یہ ہیں: "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"۔ (بخاری، كِتَاب الْأَذَانِ،بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَرِ، حدیث نمبر:۷۱۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اِس کی نماز نہیں، جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔ امام بخاریؒ نے اس کے عموم سے استدلال کیا ہے اور مقتدی پر سورۂ فاتحہ پڑھنی لازم کی ہے، اس حدیث میں امام کے پیچھے ہونے کی صراحت نہ تھی اور عام کی دلالت کسی فرد پر صریح نہیں ہوتی، امام بخاریؒ کہتے ہیں مقتدی اس عموم میں داخل ہے، امام بخاریؒ کے اساتذہ امام احمد اور سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ یہ حکم امام اور منفرد کے لیے ہے، مقتدی اِس میں داخل نہیں، جامع ترمذی میں حضرت امام احمد (۲۴۱ھ) سے اس کے یہ معنی منقول ہیں: "مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَاكَانَ وَحْدَهُ"۔ (ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَاجَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، حدیث نمبر:۲۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:حضورﷺ کے اِس ارشاد کہ جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اِس کی نماز نہیں ہوئی کا مطلب یہ ہے کہ نمازی جب اکیلا ہو توفاتحہ پڑھے بغیر اِس کی نماز نہیں ہوتی۔ اور سنن ابی داؤد میں حضرت سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ) سے بھی یہی معنی مروی ہے کہ یہ حدیث منفرد کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں "لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ" (ابوداؤد،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ، حدیث نمبر:۷۰۰، شاملہ، موقع الإسلام) یہ اس کے لیے ہے جواکیلا ہو، اب آپ ہی کہیں "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" سے مقتدی پر فاتحہ لازم کرنا، حضرت عبادہؓ کی یہ روایت کیا اِس پر نصِّ صریح ہے؟ یاامام بخاریؒ اسے محض اس کے عموم سے مقتدی پرلازم کررہے ہیں اور اپنا اجتہاد کر رہے ہیں؟ __________ ظاہر ہے کہ امام بخاریؒ نے یہاں اپنے مسلک کونص سے نہیں محض اِستدلال سے پیش کیا ہے __________ کیا حضرت امام کے پاس مقتدی پر فاتحہ لازم کرنے کی کوئی صریح حدیث موجود نہ تھی؟ یقیناً ہوگی لیکن چونکہ وہ سنداً صحیح نہ تھی، اس لیے امام بخاریؒ نے اسے یہاں جگہ نہیں دی، یہ آپ کی عظمت کی کھلی شہادت ہے کہ اشد ضرورت کے باوجود آپ اس میں کمزور روایات نہیں لائے ۔