انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صدیقی کارنامے نظام خلافت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے لبریز ہے، خصوصاًانہوں نے سوا دوبرس کی قلیل مدت خلافت میں اپنے مساعی جمیلہ کے جو لازوال نقش ونگار چھوڑے وہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سرزمین عرب ایک دفعہ پھر ضلالت وگمراہی کا گہوارہ بن گئی تھی، مورخ طبری کا بیان ہے کہ قریش وثقیف کے سوا تمام عرب اسلام کی حکومت سے باغی تھا، مدعیان نبوت کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ ملک میں شورش برپا کررہی تھیں، منکرین زکوٰۃ مدینہ منورہ لوٹنے کی دھمکی دے رہے تھے، غرض خورشیددوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے غروب ہوتے ہی شمع اسلام کے چراغ سحری بن جانے کا خطرہ تھا ؛لیکن جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روشن ضمیری ،سیاست اور غیر معمولی استقلال کے باعث نہ صرف اس کو گل ہونے سے محفوظ رکھا ؛بلکہ پھر اسی مشعل ہدایت سے تمام عرب کو منور کردیا، اس لئے حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کو جس نے دوبارہ زندہ کیا اور دنیائے اسلام پرسب سے زیادہ جس کا احسان ہے وہ یہی ذات گرامی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خلیفہ دوم کے عہد میں بڑے بڑے کام انجام پائے،مہمات امور کا فیصلہ ہوا،یہاں تک کہ روم وایران کے دفتر الٹ دئیے گئے، تاہم اس کی داغ بیل کس نے ڈالی؟ ملک میں یہ اولوالعزمانہ روح کب پیدا ہوئی؟ خلافت الہیہ کی ترتیب و تنظیم کا سنگ بنیاد کس نے رکھا؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ خود اسلام کو گرداب فنا سے کس نےبچایا؟یقیناً ان تمام سوالوں کے جواب میں صرف صدیق اکبر ؓ ہی کا نام نامی لیا جاسکتا ہے اور دراصل وہی اس کے مستحق ہیں، اس لئے اب ہم کو دیکھنا چاہئے کہ عہد صدیقی کی وہ کون سی داغ بیل تھی جس پر عہد فاروقی میں اسلام کی رفیع الشان عمارت تعمیر کی گئی۔ اسلام میں خلافت یا جمہوری حکومت کی بنیاد سب سے پہلے حضرت ابوبکر ؓ نے ڈالی؛ چنانچہ خود ان کا انتخاب بھی جمہور کے انتخاب سے ہوا تھا اور عملاً جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے سب میں کبار صحابہ ؓ رائے و مشورہ کی حیثیت سے شریک تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صاحب رائے و تجربہ کار صحابہ ؓ کو بھی دارالخلافت سے جدانہ ہونے دیا، حضرت اسامہ ؓ کی مہم میں حضرت عمر ؓ کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نامزد کیا تھا؛لیکن انہوں نے حضرت اسامہ ؓ کو راضی کیا کہ حضرت عمر ؓ کو رائے مشورہ میں مدددینے کے لئے چھوڑجائیں۔ (طبقات بن سعد حصہ مغازی) شام پر لشکر کشی کا خیال آیاتو پہلے اس کو صحابہ ؓ کی ایک جماعت میں مشورہ کے لئے پیش کیا، ان لوگوں کو ایسے اہم اور خطرناک کام چھوڑنے میں پس وپیش تھا؛لیکن حضرت علی ؓ نے موافق رائے دی۔ (طبقات ابن سعد قسم ۲ جز ۲ : ۱۰۹) اور پھر اسی پر اتفاق ہوا اور اسی طرح منکرین زکوۃ کے مقابلہ میں جہاد، حضرت عمر ؓ کے استخلاف اور تمام دوسرے اہم معاملات میں اہل الرائے صحابہ ؓ کی رائے دریافت کرلی گئی تھی، البتہ عہد فاروقی کی طرح اس وقت مجلس شوریٰ کا باقاعدہ نظام نہ تھا؛ تاہم جب کوئی امراہم پیش آجاتا تو ممتاز مہاجرین وانصار جمع کئے جاتے تھے اور ان سے رائے لی جاتی تھی؛چنانچہ ابن سعد کی روایت ہے: ان ابابکر الصدیق کان اذاانزل بہ امر یرید فیہ مشاورۃ اھل الرای واھل الفقہ ودعارجالا من المھاجرین والانصار دعا عمر عثمان وعلیا وعبدالرحمن بن عوف ومعاذ جبل وابی بن کعب وزید بن ثابت کل ھولا ء یفتی فی خلافۃ ابی بکر۔ الخ۔ (طبقات ابن سعد قسم ۲ جز ۲ : ۱۰۹) ‘‘جب کوئی امر پیش آتا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ اہل الرائے وفقہائے صحابہ سے مشورہ لیتے تھے اور مہاجرین وانصار میں سے چند ممتاز لوگوں یعنی عمر ؓ ، عثمان ؓ، علی ؓ، عبدالرحمن بن عوف ؓ ،معاذ بن جبل ؓ، ابی بن کعب ؓ اور زید بن ثابت ؓ کو بلاتے تھے، یہ سب حضرت ابوبکر ؓ کے عہد خلافت میں فتوے بھی دیتے تھے۔" ملکی نظم ونسق نوعیت حکومت کے بعد سب سے ضروری چیز ملک کے نظم ونسق کو بہترین اصول پر قائم کرنا،عہدوں کی تقسیم اور عہدیداروں کا صحیح انتخاب ہے،حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں بیرونی فتوحات کی ابھی ابتدا ہوئی تھی اس لئے ان کے دائرہ حکومت کو صرف عرب پر محدود سمجھنا چاہئے،انہوں نے عرب کو متعدد صوبوں اور ضلعوں پر تقسیم کردیا تھا؛چنانچہ مدینہ،مکہ،طائف،صنعا،نجران،حضرموت،بحرین اور دومتہ الجندل علیحدہ علیحدہ صوبے تھے۔ (تاریخ طبری : ۲۱۳۶) ہر صوبہ میں ا یک عامل ہوتا تھا جو ہر قسم کے فرائض انجام دیتا تھا، البتہ خاص دارالخلافہ میں تقریباً اکثر صیغوں کے الگ الگ عہدہ دار مقرر کئے گئے تھے، مثلاً حضرت ابو عبیدہ ؓ شام کی سپہ سالاری سے پہلے افسر مال تھے، حضرت عمر ؓ قاضی تھے اور حضرت عثمان ؓ وحضرت زید بن ثابت ؓ دربارخلافت کے کاتب تھے۔ (ایضا : ۲۱۳۵) عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں حضرت ابوبکر ؓ نے ہمیشہ ان لوگوں کو ترجیح دی جو عہد نبوت میں عامل یا عہدہ داررہ چکے تھے اور ان سے ان ہی مقامات میں کام لیا جہاں وہ پہلے کام کرچکے تھے، مثلاً عہد نبوت میں مکہ پر عتاب بن اسید ؓ ،طائف پر عثمان بن ابی العاص ؓ ، صنعاء پر مہاجربن امیہ ؓ، حضر موت پر زیاد بن لبید ؓ اور بحرین پر علاءبن الحضرمی ؓ مامور تھے، اس لئےخلیفہ اول نے بھی ان مقامات پر ان ہی لوگوں کو برقرار رکھا۔ (تاریخ طبری : ۲۰۸۳) حضرت ابوبکر ؓ جب کسی کو کسی ذمہ داری کے عہدہ پر مامور فرماتے تو عموماً بلاکر اس کے فرائض کی تشریح کردیتے اور نہایت مؤثر الفاظ میں سلامت روی وتقویٰ کی نصیحت فرماتے؛چنانچہ عمرو بن العاص ؓ اور ولید بن عقبہ ؓ کو قبیلہ قضاعہ پر محصل صدقہ بناکر بھیجا تو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: اتق اللہ فی السر والعلا نیۃ فانہ من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاویرزقہ من حیث لا یحتسب ومن یتق اللہ یکفر عنہ سیاتہ ویعظم لہ اجرا فان تقوی اللہ خیر ماتواصی بہ عباد اللہ انک فی سبیل اللہ لا یسعک فیہ الاذھان والتفریط والغفلۃ عمافیہ قوام دینکم عصمۃ امر کم فلاتن ولا تفتر۔ الخ (مسند جلد ۱: ۶) "خلوت وجلوت میں خوف خدا رکھو،جوخداسے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے ایسی سبیل اور اس کے رزق کا ایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے جو کسی کے گمان میں نہیں آسکتا، جو خداسے ڈرتا ہے وہ اسکے گناہ معاف کردیتا ہے اور اس کا اجردوبالاکر دیتا ہے، بیشک بندگان خدا کی خیر خواہی بہترین تقویٰ ہے، تم خدا کی ایک ایسی راہ میں ہو جس میں افراط تفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں جس میں مذہب کا استحکام اور خلافت کی حفاظت مضمر ہے اسی لئے سستی و تغافل کو راہ نہ دینا’’ اسی طرح یزین بن سفیان کو مہم شام کی امارت سپرد کی تو فرمایا: یا یزید ان لک قرابۃ عسیت ان توثرھم بالا سارۃ وذلک اکبر ما اخاف علیک فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من ولی من امرالمسلمین شیئا فامر علیھم احد امحاباۃ فعلیہ لعنۃ اللہ لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا حتی یدخلہ جھنم۔ (مسند جلد ۱: ۶) " اے یزید! تمہاری قرابت داریاں ہیں ،شاید تم ان کو اپنی امارت سے فائدہ پہنچاؤ، درحقیقت یہی سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے میں ڈرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جو کوئی مسلمانوں کا حاکم مقرر ہو اور ان پر کسی کو بلا استحقاق رعایت کے طور پر افسر بنادے تو اس پر خدا کی لعنت ہو، خدا اس کا کوئی عذر اور فدیہ قبول نہ فرمائیگا ،یہاں تک کہ اس کو جہنم میں داخل کرے۔ حکام کی نگرانی کسی حکومت کا قانون وآئین گوکیساہی مرتب ومنتظم ہو؛لیکن اگرذمہ دار حکام کی نگرانی اور ان پر نکتہ چینی کا اہتمام نہ ہو تو یقینا تمام نظام درہم برہم ہوجائے گا یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اول کو اپنی فطری نرم دلی،تساہل اور چشم پوشی کے باوجود اکثر موقعوں پر تشدد،احتساب اورنکتہ چینی سے کام لیناپڑا، ذاتی معاملات میں رفق و ملاطفت ان کاخاص شیوہ تھا ؛لیکن انتظام ومذہب میں اس قسم کی مداہنت کو کبھی روانہ رکھتے تھے؛چنانچہ حکام سے جب کبھی کوئی نازیبا امر سرزدہوجاتاتو نہایت سختی کے ساتھ چشم نمائی فرماتے،یمامہ کی جنگ میں مجاعہ حنفی نے جو مسیلمہ کا سپہ سالار تھا،حضرت خالدبن ولید ؓ کو دھوکہ دے کر مسیلمہ کی تمام قوم کو مسلمانوں کے پنجۂ اقتدار سے بچالیا،حضرت خالد بن ولید ؓ نے اس غداری پر اسے سزادینے کے بجائے اس کی لڑکی سے شادی کرلی،چونکہ اس جنگ میں بہت سے صحابہ شہید ہوئے تھے، اس لئے ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت خالد ؓ کی اس مسامحت پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے لکھا: تتوثب علی النساء وعند اطناب بیتک دماء المسلمین۔ "یعنی تمہارے خیمہ کی طناب کے پاس مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور تم عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مصروف ہو" (یعقوبی،ج ۲ : ۱۴۸) مالک بن نویرہ منکرزکوٰۃ تھا،حضرت خالدبن ولید ؓ اس کی تنبیہ پر مامور ہوئے ؛لیکن انہوں نے زبانی ہدایت سے پہلے ہی اس کو قتل کرڈالا،مالک کا بھائی شاعر تھا اس نےاس کا نہایت پردرد مرثیہ لکھااور ظاہر کیا کہ وہ تائب ہونے کے لئے تیار تھا مگر خالد نے محض ذاتی عداوت سے قتل کردیا،دربارِخلافت تک اس کی اطلاع پہنچی تو اس غلطی پر حضرت خالد ؓ سخت موردِعتاب ہوئے ؛لیکن وہ جوکام کررہے تھے اس کے لئے کوئی دوسرا ان سے زیادہ موزوں نہ تھا اس لئے اپنے عہدہ پر برقرار رکھے گئے۔ (ایضاً،: ۱۴۹) تعزیر وحدود حضرت ابوبکر صدیق ؓ ذاتی طورپر مجرموں کے ساتھ نہایت ہمدردانہ برتاؤ کرتے تھے؛چنانچہ عہد نبوت میں قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے ان کے سامنے بدکاری کا اعتراف کیا تو بولے"تم نے میرے سوااورکسی سے بھی اسکا تذکرہ کیاہے؟"اس نے کہا،نہیں،فرمایا خداسے توبہ کرو اور اس راز کو پوشیدہ رکھ،خدابھی اس کو چھپائے گا،کیونکہ وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اگر اس نے ان کے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو رجم سے بچ جاتا، لیکن خوددربارسالت میں آکر اس نے متواتر چاردفعہ اقرارجرم کیا اوربخوشی سنگسار ہوا۔ (ابوداؤدکتاب الحدود) زمانہ خلافت میں بھی ان کی یہ طبعی ہمدردی قائم رہی؛چنانچہ اشعث بن قیس جو مدعیٔ نبوت تھا جب گرفتار ہوکر آیا اور توبہ کرکے جان بخشی کی درخواست کی تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نےنہ صرف اس کو رہا کردیا ؛بلکہ اپنی ہمیشرہ حضرت ام فردہ ؓ سے اس کا نکاح کردیا۔ (الترغیب والترہیب،جلد۳،:۱۱۶بحوالہ ابن الدنیا) لیکن سیاسی حیثیت سے خلیفۂ وقت کا سب سے پہلا فرض قوم کی اخلاقی نگرانی اور رعایا کے جان ومال کی حفاظت ہے اور اس حیثیت سے اگرچہ انہوں نے پولیس و احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں کیا ؛بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان کی جو حالت تھی وہی قائم رکھی،البتہ اس قدر اضافہ کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو پہرہ داری کی خدمت پر مامور فرمایا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں مثلاً حد خمر کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل مختلف تھا ؛لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے دور خلافت میں شرابی کے لئے چالیس دُرّے کی سزالازمی کردی۔ (مسند ابن حنبل ج۱ :۴) ان کو ملک میں امن وامان اور شاہراؤں کو محفوظ وبے خطر رکھنے کا حددرجہ خیال رہتا تھا اور جوکوئی اس میں رخنہ انداز ہوتا تھا اس کو نہایت عبرت انگیز سزائیں دیتے تھے؛چنانچہ اس زمانہ میں عبداللہ بن ایاس سلمیٰ مشہور راہزن تھا جس نے تمام ملک میں ایک غدر برپاکررکھاتھا،حضرت ابوبکرؓ نے طریفہ بن حاجر کو بھیج کر نہایت اہتمام کے ساتھ اس کو گرفتارکرایا،اور آگ میں جلانے کا حکم دیا ؛لیکن اسی کے ساتھ حدودِشریعت سے تجاوز کسی حالت میں جائز نہیں رکھتے تھے اور ان موقعوں پران کا طبعی حلم وکرم صاف نمایاں ہوجاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت مہاجربن امیہ ؓ نے جو یمامہ کے امیر تھے،دوگانے والی عورتوں کو اس جرم پر کہ ان میں سے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجوگاتی تھی اور دوسری مسلمانوں کو براکہتی تھی، یہ سزادی کہ ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے اور دانت اکھڑواڈالے،حضرت ابوبکرؓ کو معلوم ہواتوانہوں نے اس سزاپرسخت برہمی ظاہر فرمائی اور لکھا کہ بے شک انبیاء کاسب وشتم ایک نہایت قبیح جرم ہے اور اگر سزا میں تم عجلت نہ کرتے تو میں قتل کاحکم دیتا کیونکہ وہ اگر مدعی اسلام ہے تو گالی دینے سے مرتد ہوگئی اور اگر ذمیہ تھی تو اس نے خلاف عہد کیا ؛لیکن دوسری جو صرف مسلمانوں کو براکہتی تھی اس کو کوئی سزانہ دینا چاہئے تھی،کیونکہ اگر وہ مسلمان عورت ہے تو اس کے لئے معمولی تنبیہ وتادیب کافی تھی اور اگر ذمیہ ہے تو جب میں نے اس کے شرک سے جوسب سے بڑاگناہ ہے درگزرکیا تو مسلمانوں کو براکہنے کی کیا سزاہوسکتی ہے؟بہرحال یہ تمہاری پہلی خطانہ ہوتی تو تمہیں اس کا خمیازہ اٹھانا پڑتا،دیکھو!مثلہ سے ہمیشہ محترز رہو،یہ نہایت نفرت انگیز گناہ ہے ،مجبوراًصرف قصاص میں مباح ہے۔ (تاریخ الخلفاء : ۹۶) مالی انتظامات عہد نبوت میں صیغہ مال کا کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا ؛بلکہ مختلف ذرائع سے جورقم آتی تھی اسی وقت تقسیم کردی جاتی تھی،حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں بھی یہی انتظام قائم رہا؛چنانچہ انہوں نے پہلے سال ہر ایک آزاد،غلام مرد،عورت اور ادنیٰ واعلیٰ کو بلا تفریق دس دس درہم عطا کئے، دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو بیس بیس درہم مرحمت فرمائے،ایک شخص نے اس مساوات پر اعتراض کیا تو فرمایا کہ فضل ومنقبت اور چیز ہے،اسکو رزق کی کمی بیشی سے کیا تعلق ہے؟(طبقات ابن سعدق جلد ۳ : ۱۵۱)البتہ اس پر اس قدر اضافہ کیا کہ اخیر عہد حکومت میں ایک بیت المال تعمیرکرایا؛لیکن اس میں کبھی کسی بڑی رقم کے جمع کرنے کا موقع نہ آیا، اسی لئے بیت المال کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا، ایک دفعہ کسی نے کہا کہ یا خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بیت المال کی حفاظت کے لئے کوئی محافظ کیوں نہیں مقررفرماتے؟فرمایا اس کی حفاظت کے لئے ایک قفل کافی ہے۔ (ایضاً) خلفیہ اول کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت عثمان ؓ اور دوسرے صحابہ کو ساتھ لے کر مقام سخ میں بیت المال کا جائزہ لیا تو صرف ایک درہم برآمد ہوا، لوگوں نے کہا"خداابوبکر ؓ پر رحم کرے"اور بیت المال کے خزانچی کوبلاکرپوچھا کہ شروع سے اس وقت تک خزانہ میں کس قدر مال آیا ہوگا؟اس نے کہا "دو لاکھ دینار۔ (ایضاً) فوجی نظام عہد نبوت میں کوئی باضابطہ فوجی نظام نہ تھا ؛بلکہ جب ضرورت پیش آتی توصحابہ کرام خود ہی شوق سے علم جہاد کے نیچے جمع ہوجاتے تھے،حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں بھی یہی صورتحال باقی رہی؛لیکن انہوں نے اس پر اس قدر اضافہ کیا کہ جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستوں میں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر فرمادیتے چنانچہ شام کی طرف جو فوج روانہ ہوئی اس میں اسی طریقہ پر عمل کیا گیا تھا یعنی قومی حیثیت سے تمام قبائل کے افسر اور ان کے جھنڈے الگ الگ تھے،امیر الامراءکمانڈرانچیف کانیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سب سے پہلے حضرت خالد بن ولید ؓ اس عہدہ پر مامور ہوئے تھے۔ (فتوح البلدان : ۱۱۵) دستہ بندی ہی کا صریح فائدہ یہ ہوا کہ مجاہدین اسلام کو رومیوں کی باقاعدہ فوج کے مقابلہ میں اس سے بڑی مددملی، یعنی حضرت خالد بن ولید نے تعبیرکا طریقہ ایجاد کیا اور میدان جنگ میں ہر دستہ کی جگہ اور اس کا کام متعین کردیا،اسی طرح حالت جنگ میں کسی ترتیب ونظام کے نہ ہونے سے فوج میں ابتری پھیل جاتی تھی اس کا سد باب ہوگیا۔ (تاریخ طبری) فوج کی اخلاقی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین کے عہد میں جس قدر لڑائیاں پیش آئیں وہ سب للہیت اور اعلمائے کلمۃ اللہ پر مبنی تھیں، اس لئے ہمیشہ کوشش کی گئی کہ اس مقصد عظیم کے لئے جو فوج تیار ہو وہ اخلاقی رفعت میں تمام دنیا کی فوجوں سے ممتاز ہو،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے بھی فوجی تربیت میں اس نکتہ کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور جب کبھی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو خوددور تک پیادہ ساتھ گئے اور امیر عسکر کو زریں نصائح کے بعد رخصت فرمایا؛چنانچہ ملک شام پر فوج کشی ہوئی تو سپہ سالار سے فرمایا: انک تجد قومازعمواانھم جلسوا انفسھم اللہ فذرھم وانی موصیک بعشر لاتقتلوا امرٔۃولاصبیاولاکبیراھرماولاتقتطعن شجرا مثمرااولاتحزبن عامراولا تعقرن شاۃ ولابعیراالالا کلہ ولاتحرقن نخلاولاتغللن ولاتجبنن۔ "تم ایک ایسی قوم کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو خداکی عبادت کے لئے وقف کردیا ہے،ان کو چھوڑ دینا،میں تم کو دس وصیتیں کرتاہوں،کسی عورت،بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا،پھلدار درخت کو نہ کاٹنا،کسی آبادجگہ کو ویران نہ کرنا،بکری اور اونٹ کو کھانے کےسوا بے کارذبح نہ کرنا،نخلستان نہ جلانا، مال غنیمت میں غبن نہ کرنا، اور بزدل نہ ہوجانا۔ سامان جنگ کی فراہمی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سامان جنگ کی فراہمی کا یہ انتظام فرمایا تھا کہ مختلف ذرائع سے جو آمدنی ہوتی تھی،اس کا ایک معقول حصہ سامان باربرداری اور اسلحہ کی خریداری پر صرف فرماتے تھے،اس کے علاوہ قرآن پاک نے مال غنیمت میں،خدا،رسول اور ذوالقربیٰ کے جو حصے قرار دیئے تھے ان کو فوجی مصارف کے لئے مقرر کردیا تھا،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضروری مصارف کے بعد اس کو اسی کام میں لگاتے تھے۔ (کتاب الخراج : ۱۲) اونٹ اور گھوڑوں کی پرورش کے لئے مقام بقیع میں ایک مخصوص چراگاہ تیارکرائی جس میں ہزاروں جانور پرورش پاتے تھے، مقام ربذہ میں بھی ایک چراگاہ تھی جس میں صدقہ اور زکوٰۃ کے جانور چرتے تھے۔ (کنزالعمال ج ۳،: ۱۳۲) فوجی چھاؤنیوں کا معائنہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ ضعف وپیری وہجوم افکار کے باوجود خود ہی چھاؤنیوں کا معائنہ فرماتے تھے اور سپاہیوں میں مادی یاروحانی حیثیت سے جو خرابی نظر آتی تھی ان کی اصلاح فرماتے تھے،ایک دفعہ کسی مہم کے لئے مقام جرف میں فوجیں مجتمع ہوئیں،حضرت ابوبکرصدیق ؓ معائنہ کے لئے تشریف لے گئے،بنی فزارہ کے پڑاؤ میں پہنچے تو سب نےکھڑے ہوکر تعظیم کی،انہوں نے ہر ایک کو مرحباکہا ان لوگوں نے عرض کیا"یا خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگ گھوڑوں پر خوب چڑھتے تھے اس لئے گھوڑے بھی ساتھ لائے ہیں،آپ بڑا جھنڈا ہمارے ساتھ کردیجئے،فرمایا"خداتمہاری ہمت وارادہ میں برکت دے؛لیکن بڑا جھنڈا تم کو نہیں مل سکتا کیونکہ وہ بنوعبس کے حصہ میں آچکا ہے، اس پر ایک فزاری نے کھڑے ہوکر کہا"ہم لوگ عبس سے اچھے ہیں،حضرت ابوبکر ؓ نے ڈانٹ کر کہاچپ احمق! تجھ سے ہر ایک عبسی اچھا ہے،بنوعبس بھی کچھ بولنا چاہتے تھے ،مگر انہیں بھی ڈانٹ کر خاموش کردیا، غرض اسی طرح چھاؤنیوں میں جاکر قبائل کے باہمی جوش ورقابت کودباکر اسلامی رواداری کا سبق دیتے تھے۔ (ایضاً) بدعات کا سد باب تمام مذاہب کے مسخ ہوجانے کی اصلی وجہ وہ بدعات ہیں جو رفتہ رفتہ جزومذہب ہوکر اس کی اصلی صورت اس طرح بدل دیتے ہیں کہ بانیان مذہب کی صحیح تعلیم اور متبعین کی جدت طرازیاں میں امتیازو تفریق بھی دشوار ہوجاتی ہے ،حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اگرچہ بدعات بہت کم پیدا ہوئیں تاہم جب کبھی کسی بدعت کا ظہورہوا تو انہوں نے اس کو مٹادیا، ایک دفعہ حج کے موقع پر قبیلہ احمس کی عورت کی نسبت معلوم ہوا کہ وہ کسی سے گفتگو نہیں کرتی انہوں نے اس کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا اس نے خاموش حج کا ارادہ کیا ہے،یہ سن کراس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا‘یہ جاہلیت کا طریقہ ہے،اسلام میں جائز نہیں تم اس سے بازآؤ اور بات چیت کرو، اس نے کہا آپ کون ہیں؟بولےابوبکر۔ خدمت حدیث حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں قرآن شریف کی تدوین و ترتیب کا جوکام انجام پایا اس کی تفصیل گزرچکی ہے،ایک روایت کے مطابق انہوں نے تقریبا پانچ سوحدیثیں جمع فرمائی تھی؛لیکن وفات کے کچھ دنوں پہلے اس خیال سے ان کو ضائع کردیا کہ شاید اس میں کوئی روایت خلاف واقعہ ہو تو یہ بار میرے سررہ جائے گا؛لیکن علامہ ذہبی نے اس خیال کی تغلیط کی ہے،باایں ہمہ انہوں نے احادیث کے متعلق نہایت حزم واحتیاط سے کام لیا،صحابہ کرام ؓ کو جمع کرکے خاص طور سے فرمایا: انکم تحدثون عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احادیث یختلفون فیھا والناس بعدکم اشد اختلا فافلاتحدثوا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شئیا فمن سئالکم فقولوا بنینا وبینکم کتاب اللہ فاستحلوا حلالہ وحرموا حرامہ۔ "تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیثیں روایت کرتے ہو جن میں تم خود ہی اختلاف رکھتے ہو،تمہارے بعد جولوگ آئیں گے تو ان میں اور بھی سخت اختلاف واقع ہوگا،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نہ کرو اور جو کوئی تم سے سوال کرے تو کہہ دو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کی کتاب ہے اسکے حلال کو حلال سمجھو اور اس کے حرام کو حرام قراردو۔ لیکن اس سے یہ قیاس نہ کرنا چاہئے کہ انہوں نے مطلقاً روایت کا دروازہ بندکردیا ؛بلکہ ان کی غرض صرف یہ تھی کہ جب تک کسی حدیث کی صحت پر کامل یقین نہ ہو روایت نہ کرنا چاہئے؛چنانچہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا تھے اور جب کسی روایت کی پوری تصدیق ہوجاتی تو بغیر پس وپیش اس کو قبول فرمالیتے تھے،ایک دفعہ دادی کی وراثت کا جھگڑا پیش ہوا،چونکہ قرآن مجید اس کے متعلق خاموش ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل دریافت کرنا پڑا حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ موجود تھے انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دادی کو چھٹا حصہ دیتے تھے احتیاطاًپوچھا"کوئی گواہی پیش کرسکتے ہو؟ حضرت محمد بن مسیلمہ ؓ نے کھڑے ہوکر اس کی تصدیق کی تو اسی وقت حکم نافذ کردیا(تذکرہ الحفاظ ج ۱ : ۳) بعدکو حضرت عمر ؓ نے اس اصول سے زیادہ کام لیا،آپ کے قبول حدیث کے اور بھی واقعات ہیں۔ محکمۂ افتاء حضرت ابوبکر ؓ نے مسائل فقہیہ کی تحقیق وتنقید اور عوام کی سہولت کے خیال سے افتاء کا ایک محکمہ قائم کردیا تھا، حضرت عمر ؓ ،حضرت عثمان ؓ ،حضرت علی ؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ،حضرت معاذبن جبلؓ،حضرت ابی بن کعب ؓ، حضرت زید بن ثابت ؓ جو اپنے علم واجتہاد کے لحاظ سے تمام صحابہ میں منتخب تھے، اس خدمت پر مامور تھے،ان کے سوا اور کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہ تھی(طبقات ابن سعدق۲ ج ۳ : ۱۰۹) حضرت عمرؓ بھی اپنے عہد خلافت میں اسی پابندی کے ساتھ اس کو قائم رکھا۔ اشاعت اسلام نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم فرض دین متین کی تبلیغ و اشاعت ہے،حضرت ابوبکر ؓ کو اس کارخیر میں شروع سے جو غیر معمولی انہماک تھا اس کا ایک اجمالی تذکرہ گزرچکاہے، اس سے تم کو معلوم ہوا ہوگا کہ آسمان اسلام کے اخترہائے تاباں اسی خورشید صداقت کے پر توضیاء سے منور ہوئے ہیں، خلافت کابار آیا تو ایک فرض کی حیثیت سے قدرۃیہ انہماک زیادہ ترقی کر گیا،تمام عرب میں پھر نئے سرے سے اسلام کا غلغلہ بلند کردیا اور رومیوں اور ایرانیوں کے مقابلہ میں جو فوجیں روانہ فرمائیں انہیں ہدایت کردی کہ سب سے پہلے غنیم کو اسلام کی دعوت دیں،نیز قبائل عرب جو ان اطراف میں آباد ہیں ان میں اس دعوت کو پھیلائیں، کیونکہ وہ قومی یک جہتی کے باعث زیادہ آسانی کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوسکتے ہیں؛چنانچہ مثنیٰ بن حارثہ کی مساعی جمیلہ سے بنی وائل کے تمام بت پرست وعیسائی مسلمان ہوگئے، اسی طرح حضرت خالد بن ولید ؓ کی دعوت پر عراق ،عرب اور حدود شام کے اکثر عربی قبائل نے لبیک کہا۔ حیرہ کے ایک عیسائی راہب نے خود اسلام قبول کیا،یمن میں اشعث اور اس کے رفقاء نے پھر تجدید اسلام کی، اسی طرح طلیحہ جو مدعی نبوت تھا، حضرت خالد بن ولید ؓ کے مقابلہ سے بھاگ کر جب شام پہنچا تو اس نے بطور اعتذارحسب ذیل اشعار لکھ کر بھیجے اور اسلام کا اقرار کیا: فھل یقبل الصدیق انی مراجع ومعط بما احدثت من حدث یدی کیا حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس کو قبول فرمائیں گے کہ میں واپس آؤں اور میرے ہاتھوں نے جوگناہ کئے ہیں ان کی تلافی کروں وانی من بعد الضلالۃ شاھد شھادۃ حق لست فیھا بملحد اور گمراہی کے بعد میں گواہی دیتا ہوں، ایک ایسی سچی گواہی کہ میں اس سے ہٹنے والا نہیں ہوں اس اعتدازواقرارایمان سے حضرت صدیق ؓ کا آئینہ دل طلیحہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگیا اور اس کو مدینہ آنے کی اجازت دیدی ؛لیکن وہ اس وقت پہنچا جب کہ آفتاب صداقت دنیا سے ہمیشہ کے لئے غروب ہوچکا تھا۔ (یعقوبی ج۲ : ۱۴۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایفائے عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرضوں کا چکانا اور وعدوں کو پورا کرنا بھی فرائض خلافت میں داخل تھا ،حضرت ابوبکر ؓ نے اولین فرصت میں اس فرض سے سبکدوشی حاصل کی اور جیسے ہی بحرین کی فتح کے بعد اس کا مال غنیمت پہنچا،انہوں نے اعلان عام کردیا کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو یا آپ نے کسی سے کوئی وعدہ فرمایا ہو تو وہ میرے پاس آئے اس اعلان پر حضرت جابر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین دفعہ ہاتھوں سے بھربھرکردینے کا وعدہ فرمایاتھا،حضرت ابوبکرؓ نے ان کو اسی طرح تین دفعہ دونوں ہاتھوں سے عطا فرمایا(بخاری ج۱ : ۳۰۷)نیز حضرت ابوبشیر مازنی ؓ کے بیان پر ان کے چودہ سودرہم مرحمت فرمائے۔ (طبقات ابن سعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور متعلقین کا خیال باغ فدک اور مسئلہ خمس کے منازعات نے گورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں کسی قدر غلط فہمی پھیلادی تھی،خصوصا حضرت فاطمہ ؓ کو اس کا رنج تھا،تاہم خلیفہ اول نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف ومحبت کا سلوک قائم رکھا اور وفات کے وقت سیدۂ جنت ؓ سے عفوخواہ ہوکر ان کا آئینہ دل صاف کردیا۔ (طبقات ابن سعد) امہات المومنین کی راحت وآسائش اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حفظ ناموس کا خاص خیال تھا،عکرمہ بن ابوجہل نے حضرموت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک منکوحہ حرم قتیلہ بنت قیس سے نکاح کرلیا تو انہوں نے چاہا کہ دونوں کو آگ میں جلادیں ؛لیکن حضرت عمر ؓ نے باز رکھا اور کہا کہ قتیلہ سے صرف نکاح ہوا تھا،وہ حرم میں داخل نہیں ہوئی تھیں اس لئے امہات المومنین میں ان کا شمار نہیں ہوسکتا۔ (اسد الغابۃ، تذکرہ قتیلہ بنت قیس) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے لئے کوئی وصیت فرمائی تھی یا جن کے حال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص لطف وکرم رہتا تھا،حضرت ابوبکر ؓ نے ہمیشہ ان کی تعظیم وتوقیر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا خیال رکھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر حضرت ام ایمن ؓ کی ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تھے(استیعاب تذکرہ ام المومنین)حضرت ابوبکر ؓ نے بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا،اسی طرح سندرنام ایک غلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے فرمایا تھا کہ تیرے حق میں ہر مسلمان کو وصیت کرتا ہوں ،حضرت ابوبکر ؓ مسند نشین خلافت ہوئے تو ان کے لئے وظیفہ مقرر فرمایا اور تاحیات اس کو جاری رکھا۔ (ایضا تذکرہ سندر) ذمی رعایا کے حقوق عہد نبوت میں جن غیر مذاہب کے پیرووں کو اسلامی ممالک محروسہ میں پناہ دی گئی تھی اور عہد ناموں کے ذریعہ سے ان کے حقوق متعین کردیے گئے تھے، حضرت ابوبکر ؓ نے نہ صرف ان حقوق کو قائم رکھا ؛بلکہ اپنے مہر و دستخط سے پھر اس کی توثیق فرمائی،اسی طرح خود ان کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے وہاں کی ذمی رعایا کو تقریباً وہی حقوق دیئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے؛چنانچہ اہل حیرہ سے جومعاہدہ ہوا اس کے یہ الفاظ تھے: لایھدم لھم بیعۃ ولاکنیسۃ ولاقصر من قصورھم التی کانوا یتحصنون اذانزل بھم عدولھم ولا یمنعون من ضرب النواقیس ولا من اخراج الصلبان فی عید ھم (کتاب الخراج) "ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہ کئے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا قصر گرایا جائیگا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بندہوتے ہیں ناقوس(اور گھنٹے بجانے) کی ممانعت نہ ہوگی اور تہوار کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے نہ جائیں گے۔" یہ معاہدہ نہایت طویل ہے،یہاں صرف وہی جملے نقل کئےگئے ہیں جن سے مسلمانوں کی غیر معمولی مذہبی رواداری کا ثبوت ملتا ہے۔ خلیفہ اول کے عہد میں جزیہ یا ٹیکس کی شرح نہایت آسان تھی اور ان ہی لوگوں پر مقرر کرنے کا حکم تھا جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہوں؛چنانچہ حیرہ کے سات ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور باقی پر صرف دس دس درہم سالانہ مقرر کئے گئے تھے۔ معاہدوں میں یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ذمی بوڑھا ،اپاہج اور مفلس ہو جائے گا تو وہ جزیہ سے بری کردیا جائے گا،نیز بیت المال اس کا کفیل ہوگا(ایضاً : ۷۲)کیا دنیا کی تاریخ ایسی بے تعصبی ورعایا پروری کی نظیر پیش کرسکتی ہے۔