انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ صفین اس سلسلہ میں امیر معاویہؓ اورحضرت علیؓ کے درمیان خط وکتابت بھی ہوئی مگر کوئی مفید نتیجہ نہ نکلا، اور طرفین کی فوجیں میدان جنگ میں آگئیں اس خون ریز جنگ کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ لیلۃ الہریر کی قیامت خیز صبح کو جس میں ہزاروں بچے یتیم اورہزاروں ہی عورتیں بیوہ ہوگئیں امیر معاویہؓ اورعلی مرتضیٰ اپنی پوری قوت کےساتھ میدان میں نکلے اوردونوں قوتیں اس شدت کے ساتھ ٹکرائیں کہ صفین کا میدان کشتوں کی کثرت سے بھر گیا ،لاشوں پر لاشیں گرتی تھیں،ہاتھ پاؤں اورسرکٹ کٹ کر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح اڑتے تھے خون تھا کہ امنڈ امنڈ کے برستا تھا اورمسلمانوں کی ۳۵ سالہ قوت اس طرح آپس میں ٹکراکر پاش پاش ہورہی تھی۔ اس خون ریز اورہولناک معرکہ کے بعد جنگ دوسرے دن کے لئے ملتوی ہوگئی اورطرفین نے اپنے اپنے مقتولین دفنائے، اس جنگ میں شامی فوج کا پلہ اتنا کمزور ہوگیا کہ آئندہ میدان میں اس کے ٹھہرنے کی کوئی امید باقی نہ تھی رومی علیحدہ امیر معاویہؓ پر حملہ کرنے پر آمادہ تھے، اس لئے انہوں نے عمروبن العاصؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا میں نے اس دن کے لئے پہلے ہی سے ایک تدبیر سوچ رکھی تھی جو کسی طرح پٹ نہیں پڑسکتی ہے، وہ یہ کہ لوگ میدان جنگ میں قرآن کے حکم بنانے کا اعلان کریں، اس تدبیر سے عراقیوں میں اس کے ردوقبول دونوں حالتوں میں تفرقہ پڑجائے گا؛چنانچہ دوسرے دن جب شامی فوج میدان میں آئی تو اس شان سے کہ دمشق کا مصحف اعظم پانچ نیزوں پر آگے آگے تھا اوراس کے پیچھے سینکڑوں قرآن نیزوں پر آویزاں تھے اورشامی ہم قرآن کو حکم بناتے ہیں، کے نعرے لگا رہے تھے،عمروبن العاصؓ کی یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی،اس سے عراقیوں میں پھوٹ پڑگئی، انہوں نے کہا ہم کو قرآن کا فیصلہ ماننا چاہیے ،حضرت علیؓ اوربعض دوسرے عابقت اندیش لوگ لاکھ سمجھاتے رہے کہ یہ سب فریب ہے، لیکن عراقیوں نے ایک نہ سنی اور برابر یہ اصرار کرتے تھے کہ ہم کو قرآن کا فیصلہ ماننا چاہیے ،طبری کی ایک روایت کے مطابق تو ان کا اصرار اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے حضرت علیؓ کو دھمکی دی کہ اگر قرآن کا فیصلہ مسترد کیا گیا تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو عثمان کا ہوچکا ہے۔