انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۱۴۔جعفرؒ بن محمد المقلب بہ صادقؒ نام ونسب جعفر نام، ابو عبداللہ کنیت،صادق لقب، آپ امام محمد المقلب بہ باقر کے صاحبزادے اور فرقہ امامیہ کے چھٹے امام ہیں،نسب نامہ یہ ہے جعفر بن محمد بن علی بن ابی طالب،آپ کی ماں فروہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پڑپوتے قاسم بن محمد کی لڑکی تھیں، نانہالی شجرہ یہ ہے ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن عبدالرحمنؓ بن ابی بکرؓ، اس طرح جعفر صادق کی رگوں میں صدیقی خون بھی شامل تھا۔ پیدائش ۸۰ ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۵۰) فضل وکمال آپ اس خانوادہ علم و عمل کے چشم و چراغ تھے جس کے ادنی ادنی خدام مسند علم کے وارث ہوئے آپ کے والد امام باقر اس پایہ کے عالم تھے کہ امام اعظم ابو حنیفہ النعمان جیسے اکابرِ امت ان کے شاگرد تھے، اس لیے جعفر صادق کو علم گویا وراثۃ ملا تھا، فضل وکمال کے لحاظ سے آپ اپنے وقت کے امام تھے حافظ امام ذہبی آپ کو امام اوراحد السادۃ الاعلام لکھتے ہیں، اہلبیت کرام میں علم میں کوئی آپ کا ہمسر نہ تھا، ابن حبان کا بیان ہے کہ فقہ علم اورفضل میں ساداتِ اہل بیت میں تھے (تہذیب :۲/۱۰۴) امام نووی لکھتے ہیں کہ آپ کی امامت ،جلالت اورسیادت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱۵۰) حدیث حدیث آپ کے جد امجد علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے اقوال ہیں،اس لیے آپ سے زیادہ اس کا کون مستحق تھا؛چنانچہ آپ مشہور حفاظِ حدیث میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان کثیر الحدیث (تہذیب التہذیب :۲/۱۰۴ البوالہ ابن سعد) حافظ ذہبی آپ کو سادات اوراعلام حفاظ میں لکھتے ہیں (تذکرہ الحفاظ:ا/۱۵۰) حدیث میں اپنے والد بزرگوار حضرت امام باقر،محمد بن منکدر،عبید اللہ بن ابی رافع، عطاء، عروہ،قاسم بن محمد،نافع اورزہری وغیرہ سے فیض پایا تھا،شعبہ،دونوں سفیان،ابن جریح ،ابو عاصم، امام مالک ،امام ابو حنیفہ وغیرہ آئمہ آپ کے تلامذہ میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۲/۱۰۳) احترام حدیث حدیث رسول اللہ ﷺ کا اتنا احترام تھا کہ ہمیشہ طہارت کی حالت میں حدیث بیان کرتے تھے۔ (ایضاً:۱۰۵) فقہ فقہ میں اتنا کمال حاصل تھا کہ افقہ الفقہاء امام زمن امام ابو حنیفہ فرماتے تھے کہ میں نے جعفر بن محمد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔ (تذکرہ الحفاظ،جلد اول،ص۱۵۰) علماء کا مرتبہ آپ فرماتے تھے کہ علماء انبیاء کے امین ہیں جب تک وہ سلاطین کی آستان بوسی نہ کریں۔ اقوال آپ کے اقوال وکلمات طیبات تہذیب اخلاق،علم و حکمت اورپند وموعظت کا دفتر ہیں۔ سفیان ثوری سے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا ،سفیان جب خدا تم کوکوئی نعمت عطا کرے اور تم اس کو ہمیشہ باقی رکھنا چاہو تو زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرو ؛کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تم کو زیادہ دوں گا جب رزق ملنے میں تاخیر ہو رہی ہو تو استغفار زیادہ کرو اللہ عزوجل اپنی کتاب میں فرماتا ہے۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا،يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا،وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (نوح:۱۰،۱۱) اپنے رب سے مغفرت چاہو،بڑا مغفرت کرنے والا ہے تم پر آسمان سے موسلادھار پانی برسائے گا اوردنیا میں مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اورآخرت میں تمہارے لیے جنت اورنہریں بنائےگا۔ جب تمہارے پاس سلطان وقت یا اورکسی کا کوئی حکم پہنچے تو لاحول ولا قوۃ الا باللہ زیادہ پڑھو وہ کشادگی کی کنجی ہے،جو شخص اپنی قسمت کے حصہ پر قناعت کرتا ہے وہ مستغنی رہتا ہے اورجو دوسرے کے مال کی طرف نظر اٹھا تا ہے وہ فقیر مرتا ہے،جو شخص خدا کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا وہ خدا کو اس کے فیصلہ پر متہم کرتا ہے ،جو شخص دوسرے کی پردہ داری کرتا ہے خدا اس کے گھر کے خفیہ حالات کی پردہ داری کردیتا ہے،جو بغاوت کے لیے تلوار کھینچتا ہے،وہ اسی سے قتل کیا جاتا ہے جو اپنے بھائی کے لیے گڈھا کھودتا ہے ،وہ خود اس میں گرتا ہے،جو سفیہوں کے پاس بیٹھتا ہے وہ حقیر ہوجاتا ہے،جو علماء سے ملتا جلتا ہے وہ معزز ہوجاتاہے،جو برے مقامات پرجاتا ہے وہ بدنام ہوجاتا ہے،ہمیشہ حق بات کہو خواہ تمہارے موافق ہو یا مخالف آدمی کی اصل اس کی عقل ہے،اس کا حسب اس کا دین ہے اس کا کرم اس کا تقویٰ ہے تمام انسان آدم کی نسبت میں برابر ہیں،سلامتی بہت نادر چیز ہے،یہاں تک کہ اس کے تلاش کرنے کی جگہ بھی مخفی ہے،اگر وہ کہیں مل سکتی ہے توممکن ہے گوشہ گمنامی میں ملے،اگر تم اس کو گوشہ گمنامی میں تلاش کرو اورنہ ملے تو ممکن ہے تنہا نشینی میں ملے،گوشہ تنہائی گوشہ گمنامی سے مختلف ہے اگر گوشہ تنہائی میں بھی تلاش سے نہ ملے تو سلف صالحین کے اقوال میں ملے گی۔ استغفار فرماتے تھے جب تم سے کوئی گناہ سرزد ہو تو اس کی مغفرت چاہو،انسان کی تخلیق کے پہلے سے اس کی گردن میں خطاؤں کا طوق پڑا ہے گناہوں پر اصرار ہلاکت ہے۔ دنیا فرماتے تھے خدانے دنیا کی طرف وحی کی ہے کہ جو شخص میری خدمت کرتا ہے تو اس کی خدمت کر اورجو تیری خدمت کرتا ہے اسے تھکادے۔ اچھے کاموں کے شرائط فرماتے تھے بغیر تین باتوں کے عمل صالح مکمل نہیں ہوتا جب تم اسے کرو تو اپنے نزدیک اسے چھوٹا سمجھو ،اس کو چھپاؤ اور اس میں جلدی کرو،جب تم اس کو چھوٹا سمجھو گے تب اس کی عظمت بڑھے گی،جب تم اس کو چھپاؤ گے اس وقت اس کی تکمیل ہوگی اور جب تم اس میں جلدی کروگے تو خوشگوار محسوس کروگے۔ حسن ظن فرماتے تھے جب تمہارے بھائی کی جانب سے تمہارے لیے کوئی ناپسندیدہ بات ظاہر ہو تو اس کے جواز کے لیے ایک سے ستر تک تاویلیں تلاش کرو،اگر پھر بھی نہ ملے تو سمجھو کہ اس کا سبب اوراس کی کوئی تاویل ضرور ہوگی جس کا تم کو علم نہیں۔ اگر تم کسی مسلمان سے کوئی کلمہ سنو تو اس کو بہتر سے بہتر معنی پر محمول کرو جب وہ محمول نہ ہوسکے تو اپنے نفس کو ملامت کرو۔ تہذیب واخلاق فرماتے تھے چار چیزوں میں شریف کو عار نہ کرنا چاہئے،اپنے باپ کی تعظیم میں، اپنی جگہ سے اٹھنے میں،مہمان کی خدمت کرنے اورخود اس کی سواری کی دیکھ بھال کرنے میں خواہ گھر میں سوغلام کیوں نہ ہوں اوراپنے استاد کی خدمت کرنےمیں۔ ایک نکتہ آپ کی ذات فضائل اخلاق کا زندہ پیکر تھی،آپ کا ایک نظر دیکھ لینا آپ کی خاندانی عظمت کی شہادت کے لیے کافی تھا،عمروبن المقدام کا بیان ہے کہ جب میں جعفر بن محمد کو دیکھتا تھا تو نظر پڑتے ہی معلوم ہوجاتا تھا کہ وہ نبیوں کے خاندان سے ہیں۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۵۰) عبادت وریاضت عبادت آپ کے شبانہ یوم کا مشغلہ تھی،آپ کا کوئی دن اورکوئی وقت عبادت سے خالی نہ ہوتا تھا،امام مالک کا بیان ہے کہ میں ایک زمانہ تک آپ کی خدمت میں آتا جاتا رہا آپ کو ہمیشہ بانماز پڑھتے پایا روزہ رکھے ہوئے یا قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے۔ (تہذیب :۲/۱۰۴) انفاق فی سبیل اللہ انفاق فی سبیل اللہ اورفیاضی وسرچشمی اہل بیت کرام کا امتیازی اورمشترک وصف رہا ہے،جعفر صادق کی ذات اس وصف کا مکمل ترین نمونہ تھی،ہیاج بن بسطام روایت کرتے ہیں کہ جعفر صادق بسا اوقات گھر کا کل کھانا دوسروں کو کھلادیتے تھے اورخود ان کے اہل وعیال کے لیے کچھ نہ باقی رہ جاتا تھا۔ (تذکرالحفاظ:۱/۱۵۰) لباس امارت میں خرقہ فقر آپ بظاہر اہل دنیا کے لباس میں رہتے تھے،لیکن اندر لباس فقر مخفی ہوتا تھا،سفیان ثوری کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ جعفر بن محمد کے پاس گیا،اس وقت ان کےجسم پر خز کا جبہ اوردخانی خز کی چادر تھی، میں نے کہا یہ آپ کے بزرگوں کا لباس نہیں ہے،فرمایا وہ لوگ افلاس اورتنگ حالی کے زمانہ میں تھے اوراس زمانے میں دولت بہ رہی ہے،یہ کہہ کر انہوں نے اوپر کا کپڑا اٹھا کر دکھایا تو خز کے جبہ کے نیچے پشمینہ کا جبہ تھا اورفرمایا ثوری یہ ہم نے خدا کے لیے پہنا ہے اور وہ تم لوگوں کے لیے جو خدا کے لیے پہنا تھا اس کو پوشیدہ رکھا ہے اور جو تم لوگوں کے لیے تھا اس کو اوپر رکھا ہے۔ (ایضاً) مذہبی اختلافات سے بچنے کی ہدایت مذہب میں جھگڑنا سخت ناپسند کرتے تھے فرماتے تھے تم لوگ خصومت فی الدین سے بچو، اس لیے کہ وہ قلب کو مشغول کردیتی ہے اورنفاق پیدا کرتی ہے ۔ (ایضاً) جرأت نہایت جری،نڈر اوربے خوف تھے،بڑے بڑے جبابرکے سامنے ان کی بے باکی قائم رہتی تھی ایک مرتبہ منصور عباسی کے اوپر ایک مکھی آکر بیٹھی وہ بار بار ہنکاتا تھا اورمکھی بار بار آکر بیٹھتی تھی،منصور اس کو ہنکاتے ہنکاتے عاجز آگیا،مگر وہ نہ ہٹی،اتنے میں جعفر پہنچ گئے،منصور نے ان سے کہا ابو عبداللہ مکھی کس لیے پیدا کی گئی ہے،فرمایا جبابرہ کو ذلیل کرنے کے لیے۔ (صفوۃ الصفو:۱۴۱) حضرت ابوبکرؓ کے متعلق عقیدہ گو تمام حق پرست اہل بیت کرام کو خلفائے اربعہ کے ساتھ یکساں عقیدت تھی لیکن جعفر صادق کی رگوں میں صدیقی خون بھی شامل تھا، اس لیے آپ کو حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ خاص تعلق تھا اور وہ اپنے جدامجد حضرت علیؓ کی طرح ان پر بھی اپنا حق سمجھتے تھے؛چنانچہ فرماتے کہ مجھے علیؓ سے جس قدر شفاعت کی امید ہے اتنی ہی ابوبکرؓ سے ہے۔ (تہذیب التہذیب:۲/۱۰۴) وفات: ۱۴۸ھ میں وفات پائی۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۵۰)