انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت خبیبؓ بن عدی نام ونسب نام نامی خبیب تھا اور قبیلۂ اوس سے تھے،سلسلۂ نسب یہ ہے،خبیب بن عدی بن مالک بن عامر بن مجدعہ بن جحجی بن عوف بن کلفہ بن عوف بن عمروبن عوف بن مالک بن اوس اسلام ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے۔ غزوات غزوہ بدر میں شریک تھے اور مجاہدین کے اسباب کی نگرانی سپرد تھی،(بخاری:۲/۵۷۴) اس غزوہ میں انہوں نے حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا۔ (بخاری:۲/۵۶۸) ۳ھ میں غزوہ رجیع ہوا، آنحضرتﷺ نے عاصم بن ثابتؓ انصاری کو دس آدمیوں پر امیر بناکر جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا، عسفان اورمکہ کے درمیان میں ہذیل کا ایک قبیلہ لحیان رہتا تھا،اس کو خبر ہوگئی،اس کے سو تیر اندازوں نے اس مختصر جماعت کو گھیر لیا ‘۷’ آدمی اسی جگہ لڑکر شہید ہوگئے،تین شخص جس میں ایک حضرت خبیبؓ بھی تھے زندہ بچے ،یہ تینوں جاں بخشی کے عہد و پیمان پر پہاڑی سے نیچے اترے ،تیر اندازوں نے کمانوں کے تار کھول کر ان کے ہاتھ باندھے،ایک غیرت مند اس بے عزتی کو گوارانہ کرسکا اور مردانہ وار لڑکر جان دی، اب صرف دو شخص باقی رہ گئے، ان کو لے جاکر مکہ کے بازار میں فروخت کیا، اسلام کے اس یوسف کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا، جسے غزوہ بدر میں انہوں نے قتل کیا تھا۔ (بخاری:۲/۵۷۴) عقبہ بن حارث نے اپنے گھر میں لاکر قید کیا، (استیعاب:۱/۱۶۸) ہاتھ میں ہتھکڑیاں پہنائیں (بخاری:۲/۵۸۵) اور موہب کو نگرانی پر مقرر کیا (طبقات ابن سعد) عقبہ کی بیوی کھانا کھلاتے وقت ہاتھ کھول دیا کرتی تھی۔ (استیعاب:۱/۱۶۸) کئی مہینہ قید رہے،اشہر حرم گزرگئےتو قتل کی تیاریاں ہوئیں۔ (طبقات ابن سعد:۴۰) حضرت خبیبؓ نے موہب سے تین باتوں کی درخواست کی تھی۔ (استیعاب:۱/۱۶۸) ۱۔آب شیریں پلانا۔ ۲۔بتوں کا ذبیحہ نہ کھلانا۔ ۳۔قتل سے پہلے خبر کردینا۔ یہ اخیر درخواست عقبہ کی بیوی سے بھی کی تھی، قتل کا ارادہ ہواتو اس نے (استیعاب:۱/۱۶۸) نے ان کو آگاہ کردیا تھا، انہوں نے طہارت کے لئے اس سے استرہ مانگا، اس نے لاکر دے دیا اس کا بچہ کھیلتا ان کے پاس چلا آیا، انہوں نے اس کو اپنی ران پر بٹھایا،ماں کی نظر پڑی تو دیکھا ننگا استرہ ان کے ہاتھ میں ہے اوربچہ ان کے زانو پر ہے، یہ منظر دیکھ کر کانپ اٹھی ،حضرت خبیبؓ نے فرمایا :کیا تمہارا خیال ہے کہ میں اپنے خون کا اس بچہ سے انتقام لونگا حاشا یہ ہماری شان نہیں۔ (بخاری:۲/۱۸۵) پھرمزاح میں فرمایا کہ اب اللہ نے تم کو مجھ پر قادر کردیا،بولی کہ تم سے تو یہ امید نہ تھی،انہوں نے استرہ اس کے آگے ڈال دیا اورکہا کہ میں مذاق کررہا تھا۔ (استیعاب:۱/۱۶۸) حضرت خبیبؓ کی باتوں کا اس پر خاص اثر ہوا، کہتی تھی کہ میں نے خبیبؓ سے بہتر کسی قیدی کو نہ دیکھا، میں نے بارہا ان کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا، حالانکہ اس زمانہ میں انگور کی فصل بھی نہ تھی،اس کے علاوہ وہ بندھے ہوئے تھے، اس لئے یقینا وہ خدا کا دیا ہوا رزق تھا، جو خزانہ غیب سے ان کو ملتا تھا۔ (بخاری:۲/۵۸۵) شہادت حضرت خبیبؓ کے قتل میں مشرکین نے بڑا اہتمام کیا، حرم سے باہر تنعیم میں ایک درخت پر سولی کا پھندا لٹکایاگیا، آدمی جمع کئے گئے،مرد،عورت بوڑھے بچے،امیر غریب وضیع وشریف ،غرض ساری خلقت تماشائی تھی، جب لوگ عقبہ کے گھر سے ان کو لینے کے ئے آئے تو فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ، دو رکعت نماز پڑھ لوں(بخاری:۲/۵۶۹) زیادہ پڑھوں گا تو کہو گے کہ موت سے گھبرا کر بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے،نماز سے فارغ ہوکر مقتل کی طرف روانہ ہوئے،راستہ میں یہ دعا زبان پر تھی۔ اللهم أحصهم عدداً وأقتلهم بدداً ولا تبق منهم أحداً پھر یہ شعر پڑھتے ہوئے ایک بڑے درخت کے نیچے پہونچے۔ وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع یہ جو کچھ ہورہا ہے خدا کی محبت میں اگر وہ چاہے تو ان کٹے ٹکڑوں پر برکت نازل کرےگا فلست أبالي حين أقتل مسلماً على أي جنب كان في الله مصرعي اگرمسلمان رہ کر میں ماراجاؤں تو مجھے غم نہیں کہ کسی پہلو پر خدا کی راہ میں میں پچھاڑاجاتا ہوں۔ عقبہ بن حارث اورمبیرہ عبدری نے گلے میں پھنداڈالا ،چند منٹ کے بعد سراقدس دار پر تھا۔ (استیعاب:۱/۱۶۸) یہ کیسا عجیب منظر تھا، اسلام کے ایک غریب الوطن فرزند پر کیسے ظلم وستم ہو رہے تھے بطحائے کفر کا خونی قاتل،توحید کو کس طرح ذبح کررہا تھا، یہ سب کچھ تھا لیکن مجسمہ اسلام اب بھی پیکر صبر و رضا بنا ہوا تھا اور بغیر کسی اضطراب کے نہایت سکون کے ساتھ جان دی۔ آنحضرتﷺ کو اس فاجعہ عظمیٰ کی خبر وحی کے ذریعہ سے ہوئی تو فرمایا اے خبیب! تجھ پر سلام (فتح الباری:۷/۲۹۵) اورعمروبن امیہ ضمری کو اس شہید وفا کی لاش کا پتہ لگانے کے لئے مکہ بھیجا عمرو رات کو سولی کے پاس ڈرتے ڈرتے گئے ،درخت پر چڑھ کر رسی کاٹی،جسدِ اطہر زمین پر گرا، چاہا کہ اتر کر اٹھالیں ،لیکن یہ جسم زمین کے قابل نہ تھا فرشتوں نے اٹھا کر اس مقام پر پہنچایا،جہاں شہیدان وفاراہ خدا کی روحیں رہتی ہیں! عمرو بن امیہ کو سخت حیرت ہوئی ،بولے کہ کیا انہیں زمین تو نہیں نگل گئی۔ (اصابہ:۲/۱۰۴) قتل کرتے وقت مشرکین نے قبلہ رخ نہیں رکھا تھا، لیکن جو چہرہ قبلہ کی طرف پھر چکا تھا،وہ کسی دوسری طرف کیونکر پھر سکتا تھا، مشرکین نے بار بار پھیر نے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ (اصابہ:۲/۱۰۴) حضرت خبیبؓ نے جو دعا کی تھی،اس کا اثر ایک سال کے اندر ظاہر ہوگیا، جو لوگ ان کے قتل میں شریک تھے،نہایت بے کسی کی حالت میں مارے گئے۔ (فتح الباری:۷/۲۹۵) دیدی کہ خونِ ناحق پروانہ شمع را چنداں امان نہ داد کہ شب راسحرکند